ٹیگ کے محفوظات: کلاہ

جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے

کوئی بتائے کہ وہ کیسے اشتباہ میں ہے
جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے
مقابلہ ہے مرا دوپہر کی حدت سے
بس ایک شام کا منظر مری سپاہ میں ہے
تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں
یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے
مرے سلوک میں شامل نہیں ہے بے خبری
ہر ایک شخص کا منصب مری نگاہ میں ہے
وہ سادہ دل ہے اُسے کیا خبر زمانے کی
خبر جو ہو بھی تو کیا حرج انتباہ میں ہے
ضمیر سے تو ابھی تک ہے خاکداں روشن
یہی چراغ مرے خیمۂ سیاہ میں ہے
میں معترف ہوں روایت کی پاسداری کا
کجی تو حسبِ ضرورت مری کلاہ میں ہے
سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر
یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے
ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا
ابھی تو شوق تمنا کی سیرگاہ میں ہے
عرفان ستار

یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا

اگر ہے شرط بچھڑنا تو رسم و راہ بھی کیا
یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم بھی کیا دل کی خانقاہ بھی کیا
بہت سکون ہے بیداریوں کے نرغے میں
تو مجھ کو چھوڑ گئی خواب کی سپاہ بھی کیا
سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے
قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس پر قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا
نہیں ہے کوئی بھی صورت سپردگی کے سوا
ہوس کی قید بھی کیا عشق کی پناہ بھی کیا
مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی
بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا
عرفان ستار

ربّ عالم پناہ میں رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
پاندھیوں کو نہ راہ میں رکھنا
ربّ عالم پناہ میں رکھنا
عرش تک کو ہِلا کے جو رکھ دے
تاب ایسی بھی آہ میں رکھنا
لے نہ بیٹھیں یہ باتفنگ تمہیں
کوئی مُخبر سپاہ میں رکھنا
شیر جو ہو گیا ہے آدم خور
اُس کی یہ خُو نگاہ میں رکھنا
تاجور! نسخۂ حصولِ تخت
سینت رکھنا، کُلاہ میں رکھنا
ہو جو ماجِد سُخن پسند تو پِھر
فرق کیا واہ واہ میں رکھنا
ماجد صدیقی

شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یونہی کچھ اُس کا بھی ہم سے شاید نباہ ٹھہرے
شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے
وہ دشمنِ جاں بھی اب نہ اترے مقابلے میں
کہو تو جا کر کہاں یہ دل کی سپاہ ٹھہرے
جدا جدا ہی دکھائی دے بخت ہر شجر کا
چمن میں پل بھر کو جس جگہ بھی نگاہ ٹھہرے
یہ ہم کہ جن کا قیام بیرونِ در بھی مشکل
اور آپ ہیں کہ ازل سے ہیں بارگاہ ٹھہرے
مڑے حدِ تشنگی وہ چھو کر بھی ہم جہاں پر
زباں کا بیرونِ لب لٹکنا گناہ ٹھہرے
یہ کِبر پائے دکھا کے پنجوں کا زور ماجدؔ
فضائے صحرا میں جو کوئی کج کلاہ ٹھہرے
ماجد صدیقی

جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 89
کوئی بتائے کہ وہ کیسے اشتباہ میں ہے
جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے
مقابلہ ہے مرا دوپہر کی حدت سے
بس ایک شام کا منظر مری سپاہ میں ہے
تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں
یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے
مرے سلوک میں شامل نہیں ہے بے خبری
ہر ایک شخص کا منصب مری نگاہ میں ہے
وہ سادہ دل ہے اُسے کیا خبر زمانے کی
خبر جو ہو بھی تو کیا حرج انتباہ میں ہے
ضمیر سے تو ابھی تک ہے خاکداں روشن
یہی چراغ مرے خیمۂ سیاہ میں ہے
میں معترف ہوں روایت کی پاسداری کا
کجی تو حسبِ ضرورت مری کلاہ میں ہے
سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر
یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے
ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا
ابھی تو شوق تمنا کی سیرگاہ میں ہے
عرفان ستار

یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 17
اگر ہے شرط بچھڑنا تو رسم و راہ بھی کیا
یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم بھی کیا دل کی خانقاہ بھی کیا
بہت سکون ہے بیداریوں کے نرغے میں
تو مجھ کو چھوڑ گئی خواب کی سپاہ بھی کیا
سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے
قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس پر قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا
نہیں ہے کوئی بھی صورت سپردگی کے سوا
ہوس کی قید بھی کیا عشق کی پناہ بھی کیا
مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی
بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا
عرفان ستار

تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 123
دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
اب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں ،مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چُکا ہے مگر مُسکراکے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اِک مکا ن ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اِ ک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!
پروین شاکر

یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی

دیوان سوم غزل 1291
ٹھوکر لگاکے چلنا اس رشک ماہ کو بھی
یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی
اس شاہ حسن کی کچھ مژگاں پھری ہوئی ہیں
غمزے نے ورغلایا شاید سپاہ کو بھی
کی عمر صرف ساری پر گم ہے مطلب اپنا
منزل نہ پہنچے ہم تو طے کرکے راہ کو بھی
سر پھوڑنا ہمارا اس لڑکے پر نہ دیکھو
ٹک دیکھو اس شکست طرف کلاہ کو بھی
کرتی نہیں خلش ہی مژگان یار دل میں
کاوش رہی ہے جی سے اس کی نگاہ کو بھی
خوں ریزی کے تو لاگو ہوتے نہیں یکایک
پہلے تو پوچھتے ہیں ظالم گناہ کو بھی
جوں خاک سے ہے یکساں میرا نہال قامت
پامال یوں نہ ہوتے دیکھا گیاہ کو بھی
ہر لحظہ پھیر لینا آنکھوں کا ہم سے کیا ہے
منظور رکھیے کچھ تو بارے نباہ کو بھی
خواہش بہت جو ہو تو کاہش ہے جان و دل کی
کچھ کم کر ان دنوں میں اے میر چاہ کو بھی
میر تقی میر

مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز

دیوان سوم غزل 1140
ہے تند و تیز اس کی نگاہ اس طرف ہنوز
مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز
سر کاٹ کر ہم اس کے قدم کے تلے رکھا
ٹیڑھی ہے اس کی طرف کلاہ اس طرف ہنوز
مدت سے مثل شب ہے مرا تیرہ روزگار
آتا نہیں وہ غیرت ماہ اس طرف ہنوز
پتھرا گئیں ہیں آنکھیں مری نقش پا کے طور
پڑتی نہیں ہے یار کی راہ اس طرف ہنوز
جس کی جہت سے مرنے کے نزدیک پہنچے ہم
پھرتا نہیں وہ آن کے واہ اس طرف ہنوز
آنکھیں ہماری مند چلیں ہیں جس بغیر یاں
وہ دیکھتا بھی ٹک نہیں آہ اس طرف ہنوز
برسوں سے میر ماتم مجنوں ہے دشت میں
روتا ہے آ کے ابر سیاہ اس طرف ہنوز
میر تقی میر

چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ

دیوان دوم غزل 941
لطف کیا ہر کسو کی چاہ کے ساتھ
چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ
وقت کڑھنے کے ہاتھ دل پر رکھ
جان جاتی رہے نہ آہ کے ساتھ
عشق میں ترک سر کیے ہی بنے
مشورت تو بھی کر کلاہ کے ساتھ
ہو اگرچند آسماں پہ ولے
نسبت اس مہ کو کیا ہے ماہ کے ساتھ
سفری وہ جو مہ ہوا تا دیر
چشم اپنی تھی گرد راہ کے ساتھ
جاذبہ تو ان آنکھوں کا دیکھا
جی کھنچے جاتے ہیں نگاہ کے ساتھ
میر سے تم برے ہی رہتے ہو
کیا شرارت ہے خیرخواہ کے ساتھ
میر تقی میر

سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ

دیوان دوم غزل 936
یاد جب آتی ہے وہ زلف سیاہ
سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ
کھل گیا منھ اب تو اس محجوب کا
کچھ سخن کی بھی نکل آوے گی راہ
شرم کرنی تھی مرا سر کاٹ کر
سو تو ان نے اور ٹیڑھی کی کلاہ
یار کا وہ ناز اپنا یہ نیاز
دیکھیے ہوتا ہے کیونکر یوں نباہ
دین میں اس کافر بے رحم کے
اجر اک رکھتا ہے خون بے گناہ
پتھروں سے سینہ کوبی میں نے کی
دل کے ماتم میں مری چھاتی سراہ
مول لے چک مجھ کو آنکھیں موند کر
دیکھ تو قیمت ہے میری اک نگاہ
لذت دنیا سے کیا بہرہ ہمیں
پاس ہے رنڈی ولے ہے ضعف باہ
روٹھ کر کیا آپ سے ملنے میں لطف
ہووے وہ بھی تو کبھو ٹک عذر خواہ
ضبط بہتیرا ہی کرتے ہیں ولے
آہ اک منھ سے نکل جاتی ہے گاہ
اس کے رو کے رفتہ ہی آئے ہیں یاں
آج سے تو کچھ نہیں یہ جی کی چاہ
دیکھ رہتے دھوکے اس رخسار کے
دایہ منھ دھوتے جو کہتی ماہ ماہ
شیخ تونے خوب سمجھا میر کو
واہ وا اے بے حقیقت واہ واہ
میر تقی میر

آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند

دیوان دوم غزل 796
رہیے بغیر تیرے اے رشک ماہ تا چند
آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند
اب دیکھنے میں پیارے ٹک تو بڑھا عنایت
کوتاہ تر پلک سے ایدھر نگاہ تا چند
خط سے جو ہے گرفتہ وہ مہ نہیں نکلتا
مانند چشم اختر ہم دیکھیں راہ تا چند
عمر عزیز ساری منت ہی کرتے گذری
بے جرم آہ رہیے یوں عذر خواہ تا چند
یاں ناز و سرکشی سے کیا دیکھتا نہیں ہے
کج اس چمن میں ٹھہری گل کی کلاہ تا چند
جب مہ ادھر سے نکلا جانا وہ گھر سے نکلا
رکھتا ہے داغ دیکھیں یہ اشتباہ تا چند
ایذا بھی کھنچ چکے گر جو ہفتے عشرے کی ہو
اس طرح مرتے رہیے اے میر آہ تا چند
میر تقی میر

خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا

دیوان اول غزل 42
گذرا بناے چرخ سے نالہ پگاہ کا
خانہ خراب ہو جیو اس دل کی چاہ کا
آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں
مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا
صد خانماں خراب ہیں ہر ہر قدم پہ دفن
کشتہ ہوں یار میں تو ترے گھر کی راہ کا
یک قطرہ خون ہوکے پلک سے ٹپک پڑا
قصہ یہ کچھ ہوا دل غفراں پناہ کا
تلوار مارنا تو تمھیں کھیل ہے ولے
جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا
بدنام و خوار و زار و نزار و شکستہ حال
احوال کچھ نہ پوچھیے اس رو سیاہ کا
ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اٹھا کے چل
ہو گا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا
اے تاج شہ نہ سر کو فرو لائوں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا
ہر لخت دل میں صید کے پیکان بھی گئے
دیکھا میں شوخ ٹھاٹھ تری صید گاہ کا
بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میر
سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا
میر تقی میر

صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 246
غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ
صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ
احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو
جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ
میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں
میرے رفیق آبلے، میری گواہ دھوپ
پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے دوست
مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ
برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے
صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کج کلاہ دھوپ
جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ
مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ
منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس
تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پناہ دھوپ
منصور آفاق

سفید رنگ کا دستور کج کلاہ ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 55
سیاہ رنگ کا امن و سکوں تباہ ہوا
سفید رنگ کا دستور کج کلاہ ہوا
زمیں سے کیڑے مکوڑے نکلتے آتے ہیں
ہمارے ملک میں یہ کون بادشاہ ہوا
کئی دنوں سے زمیں دھل رہی ہے بارش سے
امیر شہر سے کیسا یہ پھر گناہ ہوا
شرارِ خاک نکلتا گرفت سے کیسے
دیارِ خاک ازل سے جنازہ گاہ ہوا
وہ شہر تھا کسی قربان گاہ پر آباد
سو داستان میں بغداد پھر تباہ ہوا
جلے جو خیمے تو اتنا دھواں اٹھا منصور
ہمیشہ کے لیے رنگِ علَم سیاہ ہوا
منصور آفاق