ٹیگ کے محفوظات: کلام

خامشی میں پیام ہوتے ہیں

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں
راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
خار مے نوش ہیں کسے معلوم
آبلے مثلِ جام ہوتے ہیں
دل کی آواز کوئی سُن لیتا
صاحبِ گوش، عام ہوتے ہیں
اٹھ رہے ہیں غلاف پلکوں کے
حادثے بے نیام ہوتے ہیں
زیست میں زہر گھولنے والے
کس قدر خوش کلام ہوتے ہیں
مُسکرا کر نگاہ ڈوب گئی
اس طرح بھی سلام ہوتے ہیں
کس قدر خود نظر ہیں دیوانے
اجنبی بن کے عام ہوتے ہیں
شکیب جلالی

عشق کا احترام کرتے ہیں

وہ نظر سے سلام کرتے ہیں
عشق کا احترام کرتے ہیں
اس قدر وہ قریب ہیں مجھ سے
بے رُخی سے کلام کرتے ہیں
جن سے پردہ پڑے تعلّق پر
ایسے جلووں کو عام کرتے ہیں
منزلیں تو نشانِ منزل ہیں
راہ رَو کب قیام کرتے ہیں
غمِ دوراں سے بھاگنے والے
مے کدے میں قیام کرتے ہیں
اہلِ طوفاں جُمودِ ساحل کو
دور ہی سے سلام کرتے ہیں
کِھنچ کے منزل، شکیبؔ، آتی ہے
خود کو جب تیز گام کرتے ہیں
شکیب جلالی

وہ بے حِجاب رَہے لُطفِ عام کَرتے ہُوئے

کَہیِں گُزَرتے کَہیِں پَر قَیام کَرتے ہُوئے
وہ بے حِجاب رَہے لُطفِ عام کَرتے ہُوئے
اُنہیَں تَو اِس پہ بھی احسان کا گُمان رَہا
ہَر ایک ظُلم و سِتَم میرے نام کَرتے ہُوئے
مِری جبیں پَر اُسے حَسرتِ شِکَن ہی رَہی
میں اَنجُمَن سے اُٹھا احترام کَرتے ہُوئے
ہَر ایک مَوجِ حَوادِث کو فِکر تھی میری
مِزاج پُوچھنے آئی سَلام کَرتے ہُوئے
نگاہِ یار نے کیا کُچھ نہ جانے بھانپ لِیا
مُجھے خَموشی سے اپنی کَلام کَرتے ہُوئے
نزاعِ رُوح و بَدَن میں گِھرے رَہے ضامنؔ
تمام عُمر کَٹی ایک کام کرتے ہُوئے
ضامن جعفری

مَیں کِتنے فخر سے اَپنا مقام دیکھتا ہُوں

سَرِ صَحیفَہِ عِشق ایک نام دیکھتا ہُوں
مَیں کِتنے فخر سے اَپنا مقام دیکھتا ہُوں
تِرے لَبوں پہ، ہَمیشہ ہے مُہرِ خاموشی
تِری نِگاہ میں ، روز اِک پَیام دیکھتا ہُوں
مِری نَظَر پَسِ پَردہ بھی دیکھ لیتی ہے
لَرَزتے لَب پَسِ قَصدِ سَلام دیکھتا ہُوں
کَلامِ حُسن سے مَرعُوب ہونے والے لوگ
ہیں مُعتَرِض کہ میں حُسنِ کَلام دیکھتا ہُوں
فَرازِ جَذب و جنوں تَک نہ پہنچَے گر ضامنؔ
تَو اِدّعائے محبّت کو خام دیکھتا ہُوں
ضامن جعفری

ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے

شکوہ بہ طرزِ عام نہیں آپ سے مجھے
ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے
کہتا سلوک آپ کے ایک ایک سے مگر
مطلوب انتقام نہیں آپ سے مجھے
اے منصفو حقائق و حالات سے الگ
کچھ بحثِ خاص و عام نہیں آپ سے مجھے
یہ شہرِ دل ہے شوق سے رہیے یہاں مگر
اُمیدِ انتظام نہیں آپ سے مجھے
فرصت ہے اور شام بھی گہری ہے کس قدر
اِس وقت کچھ کلام نہیں آپ سے مجھے
ناصر کاظمی

کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں

تم آگئے ہو تو کیوں انتظارِ شام کریں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
خلوص و مہر و وفا لوگ کر چکے ہیں بہت
مرے خیال میں اب اور کوئی کام کریں
یہ خاص و عام کی بیکار گفتگو کب تک
قبول کیجیے جو فیصلہ عوام کریں
ہر آدمی نہیں شائستہِ رموزِ سخن
وہ کم سخن ہو مخاطب تو ہم کلام کریں
جدا ہوئے ہیں بہت لوگ ایک تم بھی سہی
اب اتنی بات پہ کیا زِندگی حرام کریں
خدا اگر کبھی کچھ اختیار دے ہم کو
تو پہلے خاک نشینوں کا انتظام کریں
رہِ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصر
متاعِ درد اُنہی ساتھیوں کے نام کریں
ناصر کاظمی

اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ

کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ
چاند ہے اور آسمان ہے صاف
رہیے بالائے بام آٹھ سے پانچ
اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین
اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ
شعر کیا شاعری کے بارے میں
سوچنا بھی حرام آٹھ سے پانچ
کچھ خریدیں تو بھاو پانچ کے آٹھ
اور بیچیں تو دام آٹھ سے پانچ
وہ ملے بھی تو بس یہ پوچھیں گے
کچھ ملا کام وام آٹھ سے پانچ
صحبتِ اہلِ ذوق ہے باصِرؔ
اب سناؤ کلام آٹھ سے پانچ
باصر کاظمی

یہ وہ جہاں ہے جہاں قیدِ صبح و شام نہیں

دیارِ دل میں مہ و مہر کا نظام نہیں
یہ وہ جہاں ہے جہاں قیدِ صبح و شام نہیں
میں یاد کرتا ہوں تجھ کو جو آج کل اِتنا
سبب یہ ہے کہ مجھے اور کوئی کام نہیں
یہ اور بات کہ وہ مہرباں نہیں ہم پر
وگرنہ حُسن میں اُس کے کوئی کلام نہیں
باصر کاظمی

گزر رہی ہے جو ساعت اُسے امام کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
حصولِ منزلِ ایقاں کا اہتمام کریں
گزر رہی ہے جو ساعت اُسے امام کریں
ہمیں وہ لوگ، کہ ہم جنس جن سے کترائیں
ہمیں وہ لوگ، کہ یزداں سے بھی کلام کریں
مِلی فلک سے تو جو آبرو، ملی اِس کو
ہمیں بھی چاہیئے انساں کا احترام کریں
ہوا نہ کوہِ الم جن سے آج تک تسخیر
ہزار موسم مہتاب کو غلام کریں
ہر ایک شخص جو بپھرا ہوا مِلے ہے یہاں
حدودِ ارض میں اُس کو تو پہلے رام کریں
گرفت میں ہیں جو ماجدؔ اُنہی پہ بس کیجے
نہ آپ اُڑتے پرندوں کو زیرِ دام کریں
ماجد صدیقی

ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 28
اس نے سکوتِ شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
آمدِ دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سرِ شام رکھ دیا
دیکھو یہ میرے خواب تھے دیکھو یہ میرے زخم ہیں
میں نے تو سب حسابِ جاں برسرِ عام رکھ دیا
اس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سخن کہے
میں نے تو اس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
شدتِ تشنگی میں بھی غیرتِ مے کشی رہی
اس نے جو پھیر لی نظر میں‌نے بھی جام رکھ دیا
اب کے بہار نے بھی کیں ایسی شرارتیں کہ بس
کبکِ دری کی چال میں تیرا خرام رکھ دیا
جو بھی ملا اسی کا دل حلقہ بگوشِ یار تھا
اس نے تو سارے شہر کو کر کے غلام رکھ دیا
اور فراز چاہئیں کتنی محبتیں تجھے
ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا
احمد فراز

نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 20
تمھارے خط میں نیا اک سلام کس کا تھا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
وہ قتل کر کے مجھے ہر کسی سے پوچھتے ہیں
یہ کام کس نے کیا ہے، یہ کام کس کا تھا
وفا کریں گے، نباہیں گے، بات مانیں گے
تمھیں بھی یاد ہے کچھ، یہ کلام کس کا تھا
رہا نہ دل میں وہ بےدرد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے، مقام کس کا تھا
نہ پوچھ گچھ تھی کسی کی وہاں نہ آؤ بھگت
تمھاری بزم میں کل اہتمام کس کا تھا
تمام بزم جسے سن کے رہ گئی مشتاق
کہو، وہ تذکرۂ نا تمام کس کا تھا
گزر گیا وہ زمانہ، کہوں تو کس سے کہوں
خیال دل کو مرے صبح و شام کس کا تھا
ہر اک سے کہتے ہیں کیا داغ بے وفا نکلا
یہ پوچھے ان سے کوئی وہ غلام کس کا تھا
داغ دہلوی

محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 7
یا رب ہے بخش دینا بندے کو کام تیرا
محروم رہ نہ جائے کل یہ غلام تیرا
جب تک ہے دل بغل میں ہر دم ہو یاد تیری
جب تک زباں ہے منہ میں‌جاری ہو نام تیرا
ایمان کی کہیں گے ایمان ہے ہمارا
احمد رسول تیرا مصحف کلام تیرا
ہے تو ہی دینے والا پستی سے دے بلندی
اسفل مقام میرا اعلٰی مقام تیرا
محروم کیوں‌رہوں میں جی بھر کے کیوں نہ لوں میں
دیتا ہے رزق سب کو ہے فیض عام تیرا
یہ “داغ“ بھی نہ ہو گا تیرے سوا کسی کا
کونین میں‌ہے جو کچھ وہ ہے تمام تیرا
داغ دہلوی

رسم ظاہر تمام ہے موقوف

دیوان سوم غزل 1157
کیا پیام و سلام ہے موقوف
رسم ظاہر تمام ہے موقوف
حیرت حسن یار سے چپ ہیں
سب سے حرف و کلام ہے موقوف
روز وعدہ ہے ملنے کا لیکن
صبح موقوف شام ہے موقوف
وہ نہیں ہے کہ داد لے چھوڑیں
اب ترحم پہ کام ہے موقوف
پیش مژگاں دھرے رہے خنجر
آگے زلفوں کے دام ہے موقوف
کہہ کے صاحب کبھو بلاتے تھے
سو وقار غلام ہے موقوف
اقتدا میر ہم سے کس کی ہوئی
اپنے ہاں اب امام ہے موقوف
میر تقی میر

کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا

دیوان سوم غزل 1067
اعجاز منھ تکے ہے ترے لب کے کام کا
کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا
رقعہ ہمیں جو آوے ہے سو تیر میں بندھا
کیا دیجیے جواب اجل کے پیام کا
کچھ سدھ سنبھالتے ہی رکھی ان نے پگڑی پھیر
ممنون میں نہیں ہوں جواب سلام کا
منھ دیکھو بدر کا کہ تری روکشی کرے
تو یوں ہی نام لے ہے کسو ناتمام کا
نوبت ہے اپنی جب سے یہی کوچ کاہے شور
بجنا سنا نہیں ہے کبھو یاں مقام کا
کنج لب اس کا دیکھ کے خاموش رہ گئے
یعنی کہ تھا مقام یہ ختم کلام کا
اس رو و مو کے محو کو کیا روزگار سے
جلوہ ہی کچھ جدا ہے مرے صبح و شام کا
صاحب ہو مار ڈالو مجھے تم وگرنہ کچھ
جز عاشقی گناہ نہیں ہے غلام کا
کب اقتدا ہو مجھ سے کسو کی سواے میر
بندہ ہوں دل سے میں اسی سید امام کا
میر تقی میر

کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا

دیوان سوم غزل 1060
ان دلبروں سے رابطہ کرنا ہے کام کیا
کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا
حیرت ہے کھولیں چشم تماشا کہاں کہاں
حسن و جمال ویسا ہے اس کا خرام کیا
کی اک نگاہ گرم جہاں ان سے مل گئے
عاشق کو دلبروں سے سلام و پیام کیا
شکر خدا کہ سر نہ فرو لائے ہم کہیں
کیا جانیں سجدہ کہتے ہیں کس کو سلام کیا
اس کنج لب پہ چپکے ہوئے منھ کو رکھ کے ہم
دلچسپ اس مقام میں حرف و کلام کیا
جس جاے اس کے چہرے سے کرتے ہیں گفتگو
مرآت و ماہ و گل کا ہے اس جا مقام کیا
کہتا ہے کون بدر میں نقصان کچھ رہا
پر منھ کھلے پہ اس کے ہے ماہ تمام کیا
یہ جانوں ہوں کہ دل کو ہے اس رو ومو سے لاگ
کیا جانوں پیش آوے ہے اب صبح و شام کیا
تسبیح تک تو میر نے رکھا کلال کے
وقت نماز اب بھی ہوئے تھے امام کیا
میر تقی میر

دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں

دیوان اول غزل 289
بے روے و زلف یار ہے رونے سے کام یاں
دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں
آوازہ ہی جہاں میں ہمارا سنا کرو
عنقا کے طور زیست ہے اپنی بنام یاں
وصف دہن سے اس کے نہ آگے قلم چلے
یعنی کیا ہے خامے نے ختم کلام یاں
غالب یہ ہے کہ موسم خط واں قریب ہے
آنے لگا ہے متصل اس کا پیام یاں
مت کھا فریب عجز عزیزان حال کا
پنہاں کیے ہیں خاک میں یاروں نے دام یاں
کوئی ہوا نہ دست بسر شہر حسن میں
شاید نہیں ہے رسم جواب سلام یاں
ناکام رہنے ہی کا تمھیں غم ہے آج میر
بہتوں کے کام ہو گئے ہیں کل تمام یاں
میر تقی میر

گئے گذرے خضر علیہ السلام

دیوان اول غزل 281
اگر راہ میں اس کی رکھا ہے گام
گئے گذرے خضر علیہ السلام
دہن یار کا دیکھ چپ لگ گئی
سخن یاں ہوا ختم حاصل کلام
مجھے دیکھ منھ پر پریشاں کی زلف
غرض یہ کہ جا تو ہوئی اب تو شام
سر شام سے رہتی ہیں کاہشیں
ہمیں شوق اس ماہ کا ہے تمام
قیامت ہی یاں چشم و دل سے رہی
چلے بس تو واں جا کے کریے قیام
نہ دیکھے جہاں کوئی آنکھوں کی اور
نہ لیوے کوئی جس جگہ دل کا نام
جہاں میر زیر و زبر ہو گیا
خراماں ہوا تھا وہ محشر خرام
میر تقی میر

پڑھوں سلام تو خوشبو کلام سے آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 244
سخن میں موسم گل اُن کے نام سے آئے
پڑھوں سلام تو خوشبو کلام سے آئے
شگفت اسم محمد کا وقت ہے دل میں
یہاں نسیم سحر احترام سے آئے
وہی سراج منیر آخری ستارۂ غیب
اجالے سب اُسی ماہ تمام سے آئے
وہ جس کو نان جویں بخش دیں اُسی کے لیے
خراج مملکت روم و شام سے آئے
انہیں سے ہو دل و جاں پر سکینیوں کا نزول
قرار اُن کے ہی فیضان عام سے آئے
انہیں کے نام سے قائم رہے وجود مرا
نمو کی تاب انہیں کے پیام سے آئے
میں اُن کا حرف ثنا اپنی دھڑکنوں میں سنوں
وہی صدا مرے دیوار و بام سے آئے
یہ بے کسان گرفتار سب انہیں کے طفیل
نکل کے حلقۂ زنجیر و دام سے آئے
عرفان صدیقی

اسے تھا مسئلہ محفل کے اہتمام پہ بھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 475
کسی کے ساتھ چلا آیا اختتام پہ بھی
اسے تھا مسئلہ محفل کے اہتمام پہ بھی
اثر پذیری کے قصے میں کتنی باتیں ہیں
کلام پہ بھی ہے موقوف ہم کلام پہ بھی
دورد آیتِ الہام پہ کروڑوں ہوں
سلامتی ہو مرے مصرعِ دوام پہ بھی
مرے وجود میں مدغم وجود کیا کرتا
وہ میرے ساتھ جھگڑتا رہا ہے نام پہ بھی
رواں ہے اشہبِ دوراں خدا کی مرضی سے
ہیں پا رکاب میں اور ہاتھ ہیں لگام پہ بھی
ہے جنگ فلسفۂ فکر کے پہاڑوں پر
تصادم ایک نئے عالمی نظام پہ بھی
بپا ہے وادئ تاریخ میں بھی آویزش
لڑائی محنت و سرمایہ کے مقام پہ بھی
وطن بھی میرے ملالوں کی داستاں منصور
اداسیوں کی حکومت خرامِ شام پہ بھی
منصور آفاق

مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 87
اسے بھی ربطِ رہائش تمام کرنا تھا
مجھے بھی اپنا کوئی انتظام کرنا تھا
نگار خانے سے اس نے بھی رنگ لینے تھے
مجھے بھی شام کا کچھ اہتمام کرنا تھا
اسے بھی عارض و لب کے دئیے جلانے تھے
مجھے بھی چاند سے کوئی کلام کرنا تھا
بس ایک لنچ ہی ممکن تھا اتنی جلدی میں
اسے بھی جانا تھا میں نے بھی کام کرنا تھا
مراقبہ کسی بگلے کا دیکھنا تھا مجھے
کنارِ آبِ رواں کچھ خرام کرنا تھا
گلی کے لڑکوں کو سچائیاں بتانی تھیں
کوئی چراغ اندھیروں میں عام کرنا تھا
یہ کیا کہ بہتا چلا جا رہا ہوں گلیوں میں
کہیں تو غم کا مجھے اختتام کرنا تھا
بلانے آیا تھا اقبال بزمِ رومی میں
سو حکم نامے کا کچھ احترام کرنا تھا
گزر سکی نہ وہاں ایک رات بھی منصور
جہاں جہاں مجھے برسوں قیام کرنا تھا
منصور آفاق

زندگی کو ہیں اور کام بہت

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 75
یاد آؤ نہ صبح و شام بہت
زندگی کو ہیں اور کام بہت
ابھی آزادی حیات کہیں
ابھی پیش نظر ہیں دام بہت
ضبط غم آخری مقام نہیں
اس سے آگے بھی ہیں مقام بہت
اے محبت تجھے بھی دیکھ لیا
سنتے آتے تھے تیرا نام بہت
بند کیجے بیاض غم باقیؔ
سن چکے آپ کا کلام بہت
باقی صدیقی