دنیا والوں نے چاہت کا مجھ کو صلہ انمول دیا
پیروں میں زنجیریں ڈالیں ‘ ہاتھوں میں کشکول دیا
اتنا گہرا رنگ کہاں تھا رات کے میلے آنچل کا
یہ کس نے رو رو کے‘ گگن میں اپنا کاجل گھول دیا
یہ کیا کم ہے اس نے بخشا ایک مہکتا درد مجھے
وہ بھی ہیں جن کو رنگوں کا اک چمکیلا خول دیا
مجھ سا بے مایہ‘ اپنوں کی اور تو خاطر کیا کرتا
جب بھی ستم کا پَیکاں آیا‘ میں نے سینہ کھول دیا
بیتے لمحے دھیان میں آ کر مجھ سے سوالی ہوتے ہیں
تونے کس بنجر مٹّی میں من کا امرت ڈول دیا
اشکوں کی اُجلی کلیاں ہوں یا سپنوں کے کندن پھول
اُلفت کی میزان میں مَیں نے جو تھا سب کچھ تول دیا
شکیب جلالی