ٹیگ کے محفوظات: کسے

شہر کی سیر کے لیے نکلا

پاؤں میں آبلے لیے نکلا
شہر کی سیر کے لیے نکلا
گھپ اندھیرا تھا اور اک جگنو
نور کے قافلے لیے نکلا
ڈھل گئی انتظار کی ظلمت
آج سورج کسے لیے نکلا
گھومتی کائنات میں یاؔور
پاؤں کے دائرے لیے نکلا
یاور ماجد

لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر

دُھواں سا ہے جو یہ آکاش کے کنارے پر
لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر
یہ کالے کوس کی پرہول رات ہے ساتھی
کہیں اماں نہ ملے گی تجھے کنارے پر
صدائیں آتی ہیں اُجڑے ہوئے جزیروں سے
کہ آج رات نہ کوئی رہے کنارے پر
یہاں تک آئے ہیں چھینٹے لہو کی بارش کے
وہ رن پڑا ہے کہیں دُوسرے کنارے پر
یہ ڈھونڈتا ہے کسے چاند سبز جھیلوں میں
پکارتی ہے ہوا اب کسے کنارے پر
اس اِنقلاب کی شاید خبر نہ تھی اُن کو
جو ناؤ باندھ کے سوتے رہے کنارے پر
ہیں گھات میں ابھی کچھ قافلے لٹیروں کے
ابھی جمائے رہو مورچے کنارے پر
بچھڑ گئے تھے جو طوفاں کی رات میں ناصر
سنا ہے اُن میں سے کچھ آ ملے کنارے پر
ناصر کاظمی

مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا

صریحاَ روزِ محشر کا سا نقشہ اُس سمے تھا
مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا
جدا تھے راستے منزل اگرچہ ایک ہی تھی
کہانی وصل کی عنوان جس کا فاصلے تھا
کھلاڑی مجھ سے بہتر بیسیوں پیدا ہوئے ہیں
مگر شطرنج سے جو عِشق مجھ کو تھا کِسے تھا
دیا تھا اختیارِ انتخاب اُس نے مجھے سب
مجھے معلوم ہے پہلے سے تو کچھ بھی نہ طے تھا
بصارت اور سَماعت کے لیے کیا کچھ نہ تھا پر
الگ ہر رنگ ہر آواز سے اِک بَرگِ نَے تھا
باصر کاظمی

نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل

دیوان چہارم غزل 1427
دل تو گداز سب ہے کس کو کوئی کہے دل
نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل
اس عشق میں نکالے میں نے بھی نام کیا کیا
خانہ خراب و رسوا بے دین اور بے دل
جوں ابر رویئے کیا دل برق سا ہے بے کل
رکھے ہی رہیے اکثر ہاتھ اس پہ جو رہے دل
دل گوکہ داغ و خوں ہے رہتی ہے لاگ تجھ سے
انصاف کر کہ جا کر دکھلاویں پھر کسے دل
دل کے ثبات سے ہم نومید ہو رہے ہیں
اب وہ سماں ہے خوں ہو رخسار پر بہے دل
عاشق کہاں ہوئے ہم پانچوں حواس کھوئے
اس مخمصے میں ازبس حیراں ہے کیا کرے دل
جاتا ہے کیا کھنچا کچھ دیکھ اس کو ناز کرتا
آتا نہیں ہمیں خوش انداز بے تہ دل
ہم دردمند اپنا سوز دروں ہے بے حد
یارب ہمارے اوپر کس مرتبے جلے دل
اے میر اسے ہے نسبت کن حلقہ حلقہ مو سے
بیتاب کچھ ہے گاہے پرپیچ ہے گہے دل
میر تقی میر