جاتی اندھیر پن کی یہاں سے گھٹن نہیں
روزن سے میرے آتی کوئی بھی کرن نہیں
دِن بھر کی شورشوں کے دباؤ کے شور سے
شب کے لِباسِ حبس میں کوئی شکن نہیں
کیوں روشنی گروں کی زبانیں ہیں سوختہ
کیوں لوَ کسی چراغ کی بھی سینہ زن نہیں
اندھے خلا کی کھائی میں گرتا ہی جاؤں میَں
پیروں تلے زمیں نہیں سر پر گگن نہیں
اک نغمہ خامشی کا بنی جائے زندگی
اک رقص ہے کہ جس میں کوئی چھن چھنن نہیں
یاوؔر ہی بس ہے عاجز و ناچیز و خاکسار
ورنہ یہاں پہ کون خدائے سُخن نہیں
یاور ماجد