ٹیگ کے محفوظات: کرنا

ایم سی ایس اک اور بھی آپ نے کرنا ہو گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
نرم روی اپنا کے اور سُدھرنا ہو گا
ایم سی ایس اک اور بھی آپ نے کرنا ہو گا
اندر کی ٹھنڈک سے رکھ کے پروں کو سلامت
پار بکھیڑوں کے صحرا سے اترنا ہو گا
تازہ عزم و عمل اپنا کے گُن دکھلاکے
جیون میں اک رنگ نیا نت بھرنا ہو گا
شام کی گرد میں کھو کے اور پھر تازہ ہو کے
وادیٔ شب سے مثل گلوں کے ابھرنا ہو گا
رکھنا ہو گا پاس سدا ننھوں کی رضا کا
آپ سے ننھوں کو ہرگز نہیں ڈرنا ہو گا
جینے کے فن سے لے کر تخلیقِ سخن تک
اک اک میں کھو جانا اور نکھرنا ہو گا
آپ کا جیون سہل ہوا گر یاور بیٹے
آسودہ ماجِد نے بھی توٹھہرنا ہو گا
ماجد صدیقی

ہر ایک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
وہاں فلک پہ ستاروں نے کیا ابُھرنا ہے
ہر ایک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے
نجانے کتنے درندوں کی ہیں کمیں گاہیں
وُہ گھاٹیاں کہ جنہیں ہم نے پار کرنا ہے
کسی نگاہ میں آئے کب اُس کی پامالی
وُہ حسن عید کے دن ہی جِسے نکھرنا ہے
یہ دور وُہ ہے کہ ہر شب کسی خبر نے ہمیں
ہوا کے دوش پہ آ کر اداس کرنا ہے
سکھا دئیے ہیں جو کرتب کسی مداری نے
اَب اُن سے بڑھ کے بھی بندر نے کیا سُدھرنا ہے
ہمیں ہے اُس سے تقاضائے لُطفِ جاں ماجدؔ
وُہ جس کی خُوہی ہر اک بات سے مُکرنا ہے
ماجد صدیقی

باقی کو کیا کرنا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 209
مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے
شہر ہے چہروں کی تمثیل
سب کا رنگ اترنا ہے
وقت ہے وہ ناٹک جس میں
سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے
میرے نقشِ ثانی کو
مجھ میں ہی سے اُبھرنا ہے
کیسی تلافی کیا تدبیر
کرنا ہے اور بھرنا ہے
جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے
اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے
ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے
چاہے ہم کچھ بھی کر لیں
ہم ایسوں کو سُدھرنا ہے
ہم تم ہیں اک لمحہ کے
پھر بھی وعدہ کرنا ہے
جون ایلیا

اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی

مجید امجد ۔ غزل نمبر 55
اک اچھائی میں سب کایا دنیا کی
اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی
پھول تو سب اک جیسے ہیں سب مٹی کے
رُت کوئی بھی ہو دل کی یا دنیا کی
اس اک باڑ کے اندر سب کچھ اپنا ہے
باہر دنیا، کس کو پروا دنیا کی!
ان چمکیلے زینوں میں یہ خوش خوش لوگ
چہروں پر تسکینیں دنیا دنیا کی
اجلی کینچلیوں میں صاف تھرکتی ہے
ساری کوڑھ کلنکی مایا دنیا کی
پھر جب وقت بجھا تو ان پلکوں کے تلے
بہتے بہتے تھم گئی ندیا دنیا کی
جم گئے خود ہی اس دلدل میں، اور خود ہی
کریں شکایت، اہل دنیا، دنیا کی
دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا کام
پہروں بیٹھے باتیں کرنا دنیا کی
دلوں پہ ظالم یکساں سچ کا پہرا ہے
کوئی تو جھوٹی ریت نبھا جا دنیا کی
مجید امجد

زندہ ہوئے کچھ اور اجالے مرنا ورنا بھول گئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 518
صبحِ وطن کی کرنوں والے شام سے ڈرنا بھول گئے
زندہ ہوئے کچھ اور اجالے مرنا ورنا بھول گئے
سری نگر کے رستے پر تو موت ابھی تک راج کرے
جہلم کے ماتھے سے دن کے نور ابھرنا بھول گئے
ابھی تو کیرن سے آگے ہر پھول لہو کی خوشبو دے
آب رواں میں قوسِ قزح کے رنگ اترنا بھول گئے
سیبوں جیسے چہروں پر کہساروں کی برفاہٹ ہے
پیر چناسی پر اخروٹ کے پیڑ نکھرنا بھول گئے
اس کی یادیں سوچوں کو بکھرانے والامحشر تھیں
رات ہوئی تودیپ جلا کر طاق میں دھرنا بھول گئے
آنکھ اٹھا کر دیکھنے والی آنکھیں سجدہ ریز ہوئیں
اس کے آگے ہم سے سخنور بات بھی کرنا بھول گئے
موت زدہ کشمیر کا چہرہ پھولوں سا منصور کہاں
ایسی وحشت ناک فضا میں لوگ سنورنا بھول گئے
منصور آفاق

میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 281
زمانے سے بچھڑنا چاہتا ہوں
میں فائل بند کرنا چاہتا ہوں
مقام صفر سے ملنے کی خاطر
کسی ٹاور سے گرنا چاہتا ہوں
لہومیں کالے کتے بھونکتے ہیں
کسی کے ساتھ سونا چاہتا ہوں
یہ کیوں پستی سے کرتا ہے محبت
میں پانی کو سمجھنا چاہتا ہوں
کبھی وحشی مسائل سے نکل کر
تجھے کچھ دیر رونا چاہتا ہوں
ذرا اونچی کرو آواز اس کی
ہوا کی بات سننا چاہتا ہوں
میں ہلکی ہلکی نیلی روشنی میں
بدن کا بورڈ پڑھنا چاہتا ہوں
پڑا ہوں بند اپنی ڈائری میں
کہیں پہ میں بھی کھلنا چاہتا ہوں
ازل سے پاؤں میں ہے ریل گاڑی
کہیں منصور رکنا چاہتا ہوں
منصور آفاق