ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
نرم روی اپنا کے اور سُدھرنا ہو گا
ایم سی ایس اک اور بھی آپ نے کرنا ہو گا
اندر کی ٹھنڈک سے رکھ کے پروں کو سلامت
پار بکھیڑوں کے صحرا سے اترنا ہو گا
تازہ عزم و عمل اپنا کے گُن دکھلاکے
جیون میں اک رنگ نیا نت بھرنا ہو گا
شام کی گرد میں کھو کے اور پھر تازہ ہو کے
وادیٔ شب سے مثل گلوں کے ابھرنا ہو گا
رکھنا ہو گا پاس سدا ننھوں کی رضا کا
آپ سے ننھوں کو ہرگز نہیں ڈرنا ہو گا
جینے کے فن سے لے کر تخلیقِ سخن تک
اک اک میں کھو جانا اور نکھرنا ہو گا
آپ کا جیون سہل ہوا گر یاور بیٹے
آسودہ ماجِد نے بھی توٹھہرنا ہو گا
ماجد صدیقی