ٹیگ کے محفوظات: کردار

بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بے لوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انھیں مژدہ دینے
جو ہر اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں
بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خوددار نظر آتے ہیں
جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جنوں کے لیے شہ کار نظر آتے ہیں
کسبِ ثروت ہی، شکیبؔ، آج کا فن ہے شاید
طالبِ زر مجھے فن کار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی

اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے

کس کو سمجھاؤں سبب جو مرے اصرار کا ہے
اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے
کفر و ایماں کا نہ اقرار نہ انکار کا ہے
مسئلہ سارے کا سارا ترے دیدار کا ہے
تو نے پوچھا ہے ترا مجھ سے تعلق کیا ہے
وہی رشتہ ہے مصور سے جو شہکار کا ہے
دل میں میرے بھی وہی ہے جو ہے تیرے دل میں
فرق ہم دونوں میں پیرایۂ اظہار کا ہے
وہ مسیحائی پہ مائل ہیں یقیناً میری
ذکر محفل میں سنا ہے کسی بیمار کا ہے
کر کے تُو بیخ کَنی میری پشیماں کیوں ہے
یہ کرشمہ تَو تری پستیٔ کردار کا ہے
کس قدر بزم میں انجان سے بن جاتے ہیں
فکر یہ بھی ہے سبب کیا مرے آزار کا ہے
حسنِ خود بیں سے ہماری تَو نہ نبھتی ضامنؔ
یہ کمال اُور یہ ہنر عشقِ روا دار کا ہے
ضامن جعفری

اور عقل و آگہی پہ بار ہے

عشق رنگ و نور کا مینار ہے
اور عقل و آگہی پہ بار ہے
وصل تکمیلِ فغاں ہے دوستاں!
ہجر رقصِ نیزہ و تلوار ہے
آنکھ پردوں میں چھُپا قاتل کوئی
دل حریصِ بارگاہِ یار ہے
شور کا شر کھولتا گہرا کنواں
چپ دعاے بخت کا اظہار ہے
رات تہذیبِ نظر کی کافری
دن کہیں لیٹا ہوا بیمار ہے
جسم کاغذ پر لکھا حرفِ غلط
رُوح کوئی خارجی کردار ہے
زندگی سرسبز پیڑوں کی دھمال
موت سورج کے گلے کا ہار ہے
جیت جشنِ دل فریبی ہے فلکؔ!
ہار لوحِ تربتِ اغیار ہے
افتخار فلک

ہم جو ناچار خودکشی کرلیں

در و دیوار خودکشی کرلیں
ہم جو ناچار خودکشی کرلیں
پھر نہ کہنا مذاق تھا پیارے!
واقعی! یار! خودکشی کرلیں؟؟
کام کرنا ہی شرط ہے تو پھر
کیوں نہ اس بار خودکشی کرلیں!
جن چراغوں کو موت کا ڈر ہے
وہ سرِ دار خودکشی کرلیں
اس سے پہلے کہ سامعیں سوئیں
اہم کردار خودکشی کرلیں
جو ہیں ناداں وہ زندگی جھیلیں
اور سمجھدار خودکشی کرلیں
میں تو کہتا ہوں "جوش” کی مانیں
سب قلمکار خودکشی کرلیں
افتخار فلک

بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 97
بجھا ہے دل تو غمِ یار اب کہاں تو بھی
بسانِ نقش بہ دیوار اب کہاں تو بھی
بجا کہ چشمِ طلب بھی ہوئی تہی کیسہ
مگر ہے رونقِ بازار اب کہاں تو بھی
ہمیں بھی کارِ جہاں لے گیا ہے دور بہت
رہا ہے در پۓ آزار اب کہاں تو بھی
ہزار صورتیں آنکھوں میں پھرتی رہتی ہیں
مری نگاہ میں ہر بار اب کہاں تو بھی
اُسی کو وعدہ فراموش کیوں کہیں اے دل
رہا ہے صاحبِ کردار اب کہاں تو بھی
مری غزل میں کوئی اور کیسے در آۓ
ستم تو یہ ہے کہ اے یار، اب کہاں تو بھی
جو تجھ سے پیار کرے تیری لغزشوں کے سبب
فراز ایسا گنہگار اب کہاں تو بھی
احمد فراز

بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب

دیوان ششم غزل 1814
اس مغل زا سے نہ تھی ہر بات کی تکرار خوب
بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب
لگ نہیں پڑتے ہیں لے کر ہاتھ میں شمشیر تیز
بے کسوں کے قتل میں اتنا نہیں اصرار خوب
آخر ان خوباں نے عاشق جان کر مارا مجھے
چاہ کا اپنی نہ کرنا ان سے تھا اظہار خوب
آج کل سے مجھ کو بیتابی و بدحالی ہے کیا
مجھ مریض عشق کے کب سے نہ تھے آثار خوب
کیا کریمی اس کی کہیے جنت دربستہ دی
ورنہ مفلس غم زدوں کے کچھ نہ تھے کردار خوب
مخترع جور و ستم میں بھی ہوا وہ نوجواں
ظلم تب کرتا ہے جب ہو کوئی منت دار خوب
دہر میں پستی بلندی برسوں تک دیکھی ہے میں
جب لٹا پامالی سے میں تب ہوا ہموار خوب
کیا کسو سے آشنائی کی رکھے کوئی امید
کم پہنچتا ہے بہم دنیا میں یارو یار خوب
کہتے تھے افعی کے سے اے میر مت کھا پیچ و تاب
آخر اس کوچے میں جا کھائی نہ تو نے مار خوب
میر تقی میر

یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے

دیوان دوم غزل 1006
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے
شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں جا رہے ہے
اس دل فروز کے بھی رخسار ایسے ہی تھے
دامن کے پاٹ سارے تختے ہوئے چمن کے
بس اے سرشک خونیں درکار ایسے ہی تھے
لوہو نہ کیوں رلائے ان کا گداز ہونا
یہ دل جگر ہمارے غم خوار ایسے ہی تھے
ہر دم جراحت آسا کب رہتے تھے ٹپکتے
یہ دیدئہ نمیں کیا خوں بار ایسے ہی تھے
آزاردہ دلوں کا جیسا کہ تو ہے ظالم
اگلے زمانے میں بھی کیا یار ایسے ہی تھے
ہو جائے کیوں نہ دوزخ باغ زمانہ ہم پر
ہم بے حقیقتوں کے کردار ایسے ہی تھے
دیوار سے پٹک سر میں جو موا تو بولا
کچھ اس ستم زدہ کے آثار ایسے ہی تھے
اک حرف کا بھی ان کو دفتر ہے کر دکھانا
کیا کہیے میر جی کے بستار ایسے ہی تھے
میر تقی میر

دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 255
ساعتِ دیدۂ انکار کے سینے میں دراڑ
دیکھ پڑتی ہوئی دیوار کے سینے میں دراڑ
ایک ہی لفظ سے بھونچال نکل آیا ہے
پڑ گئی ہے کسی کہسار کے سینے میں دراڑ
کوئی شے ٹوٹ گئی ہے مرے اندر شاید
آ گئی ہے مرے پندار کے سینے میں دراڑ
چاٹتی جاتی ہے رستے کی طوالت کیا کیا
ایک بنتی ہوئی دلدار کے سینے میں دراڑ
تم ہی ڈالو گے مرے شاہ سوارو آخر
موت کی وادیِ اسرار کے سینے میں دراڑ
کھلکھلاتی ہوئی اک چشمِ سیہ نے ڈالی
آ مری صحبتِ آزار کے سینے میں دراڑ
رو پڑا خود ہی لپٹ کر شبِ غم میں مجھ سے
تھی کہانی ترے کردار کے سینے میں دراڑ
روندنے والے پہاڑوں کو پلٹ آئے ہیں
دیکھ کر قافلہ سالار کے سینے میں دراڑ
صبح کی پہلی کرن ! تجھ پہ تباہی آئے
ڈال دی طالعِ بیدار کے سینے میں دراڑ
کل شبِ ہجر میں طوفان کوئی آیا تھا
دیدۂ نم سے پڑی یار کے سینے میں دراڑ
غم کے ملبے سے نکلتی ہوئی پہلی کونپل
دیکھ باغیچہء مسمار کے سینے میں دراڑ
لفظ کی نوکِ سناں سے بھی کہاں ممکن ہے
وقت کے خانہء زنگار کے سینے میں دراڑ
بس قفس سے یہ پرندہ ہے نکلنے والا
نہ بڑھا اپنے گرفتار کے سینے میں دراڑ
شام تک ڈال ہی لیتے ہیں اندھیرے منصور
صبح کے جلوۂ زرتار کے سینے میں دراڑ
منصور آفاق

بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 253
اس کے لیے تھا باعثِ آزار عید کارڈ
بھیجا نہیں سو یار کو اس بار عید کارڈ
ایسا نہیں کہ بھول گیا ہے تمام شہر
آئے ہیں اپنے پاس بھی دوچار عید کارڈ
تیرہ برس کے بعد بھی اک یاد کے طفیل
میں نے اٹھایا تو لگا انگار عید کارڈ
ہر سال بھیجتا ہوں جسے اپنے آپ کو
اک ہے مری کہانی کا کردار عید کارڈ
کرنا ہے کب تلک شبِ انکار میں قیام
پچھلے برس کا آخری اقرار عید کارڈ
منصور سرورق پہ ہے تصویر شام کی
آیا ہے کیسا آئینہ بردار عید کارڈ
منصور آفاق

عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 218
سچ کہوں کیا کہ موسیٰ عصا دار ہم
عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم
ہم خذف ریزے مٹی کے ہم ٹھیکرے
نقشِ تہذیب کے کہنہ آثار ہم
ہم ہی تختِ سلیماں کی تاریخ ہیں
اشک آباد ہیکل کی دیوار ہم
ہم حسن کوزہ گر ہم ہی بغداد ہیں
اک گذشتہ خلافت کی دستار ہم
ہم ہیں خاک نگاراں کی تشکیل گاہ
موت کی گرد سے لکھے کردار ہم
ہر طرف سرخ پانی کے سیلا ب میں
تربتر،ٹوٹے کوزوں کے انبار ہم
ٹوٹنے کی صدائے ستم،ہرطرف
ایک آوازِ تخریب کا وار ہم
جو صلیبوں کی میخوں میں مردہ ہوا
اُس خدا زاد عیسیٰ کا انکار ہم
اک طرف ہم ہی منصور گرداب ہیں
اک طرف بہتی کشتی کے پتوار ہم
منصور آفاق