ٹیگ کے محفوظات: کرتا

کوئی کہیں بھی قتل ہو، مرتا تو میں بھی ہوں

آندھی چلے کہیں بھی، بکھرتا تو میں بھی ہوں
کوئی کہیں بھی قتل ہو، مرتا تو میں بھی ہوں
مکر و فریب، کذب و تکبّر، منافقت
کہتا ہوں سب سے مت کرو، کرتا تو میں بھی ہوں
لب بستہ ہیں سبھی، کہ سبھی کو ہے جاں عزیز
سچ پوچھیے تو موت سے ڈرتا تو میں بھی ہوں
اپنے کہے کا پاس کسی کو نہیں، تو کیا
باتوں سے اپنی کہہ کے مکرتا تو میں بھی ہوں
کہتے ہیں سب کہ اُن کا نہیں ہے کوئی قصور
الزام دوسروں پہ ہی دھرتا تو میں بھی ہوں
کیا ہے جو اب کسی کو کسی کا نہیں خیال
آنکھیں چرا کے سب سے گزرتا تو میں بھی ہوں
عرفان، بے حسی کے سِوا کچھ نہیں وہاں
اکثر نشیبِ دل میں اترتا تو میں بھی ہوں
عرفان ستار

خود سے ملتا ہوں تو پھر کھُل کے برستا ہوں میں

انجمن ہو تو بہت بولتا ہنستا ہوں میں
خود سے ملتا ہوں تو پھر کھُل کے برستا ہوں میں
دیکھتا رہتا ہوں ملنے کو تَرَستا ہوں میں
یوں گذر جاتے ہو جیسے کوئی رَستا ہوں میں
خواہشِ وصل ہو پہنے ہُوئے پیراہنِ عشق
اِس کو اِخلاص کی تَضحیک سمجھتا ہوں میں
بوالہوس چیَن سے رہتے ہیں خزاں ہو کہ بہار
بوئے گل، بادِ صبا، سب کو تَرَستا ہوں میں
حُسن نے لمس کو معراجِ محبت جانا
ایسے معیار پہ کب پورا اُترتا ہوں میں
عشق دائم ہے اگر وصل کا پابند نہ ہو
جھومتا اَور ہے دل جتنا تڑپتا ہوں میں
حُسن کو ساری روایات سے باغی کردوں
اِس کی تدبیر کوئی دیکھئے کرتا ہوں میں
وہ تو یہ کہیے جنوں میرا مرے کام آیا
پھر بہلتا نہیں ضامنؔ جو مچلتا ہوں میں
ضامن جعفری

میرا کون یہاں رہتا تھا

میں اِس شہر میں کیوں آیا تھا
میرا کون یہاں رہتا تھا
گونگے ٹیلو! کچھ تو بولو
کون اِس نگری کا راجا تھا
کن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے
کن ماؤں نے اِن کو جنا تھا
کس دیوی کی ہے یہ مورت
کون یہاں پوجا کرتا تھا
کس دُنیا کی کوتا ہے یہ
کن ہاتھوں نے اِسے لکھا تھا
کس گوری کے ہیں یہ کنگن
یہ کنٹھا کس نے پہنا تھا
کن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے
کون یہاں کھیلا کرتا تھا
بول مری مٹی کی چڑیا
تو نے مجھ کو یاد کیا تھا
ناصر کاظمی

تاروں کا جنگل جلتا تھا

چاند ابھی تھک کر سویا تھا
تاروں کا جنگل جلتا تھا
پیاسی کونجوں کے جنگل میں
میں پانی پینے اُترا تھا
ہاتھ ابھی تک کانپ رہے ہیں
وہ پانی کتنا ٹھنڈا تھا
آنکھیں اب تک جھانک رہی ہیں
وہ پانی کتنا گہرا تھا
جسم ابھی تک ٹوٹ رہا ہے
وہ پانی تھا یا لوہا تھا
گہری گہری تیز آنکھوں سے
وہ پانی مجھے دیکھ رہا تھا
کتنا چپ چپ کتنا گم سم
وہ پانی باتیں کرتا تھا
ناصر کاظمی

دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا

دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا
سرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
تیری ہلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا
آنکھوں میں تری شکل چھپائے
میں سب سے چھپتا پھرتا تھا
بھولی نہیں اُس رات کی دہشت
چرخ پہ جب تارا ٹوٹا تھا
رات گئے سونے سے پہلے
تو نے مجھ سے کچھ پوچھا تھا
یوں گزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
ناصر کاظمی

دل یونہی انتظار کرتا ہے

کون اس راہ سے گزرتا ہے
دل یونہی انتظار کرتا ہے
دیکھ کر بھی نہ دیکھنے والے
دل تجھے دیکھ دیکھ ڈرتا ہے
شہرِ گل میں کٹی ہے ساری رات
دیکھیے دن کہاں گزرتا ہے
دھیان کی سیڑھیوں پہ پچھلے پہر
کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے
دل تو میرا اُداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ناصر کاظمی

گونگا بہرا خالی کمرا

خالی گھر کا خالی کمرا
گونگا بہرا خالی کمرا
زندانوں سے بھی بدتر ہے
تیرا میرا خالی کمرا
ایک عزیز بچا ہے میرا
وہ بھی تنہا خالی کمرا
تیری یاد نے چوما مجھ کو
جب بھی کھولا خالی کمرا
تم کو اکثر یاد آئے گا
باتیں کرتا خالی کمرا
مجھ سے لپٹا روہا گھنٹوں
آہیں بھرتا خالی کمرا
دونوں اک جیسے لگتے ہیں
میں اور میرا خالی کمرا
یار فلک! اک بات کہیں میں
خوب ہے تیرا خالی کمرا
افتخار فلک

نگہت و نُور کے سانچوں میں، نِت ڈھلتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
پھولوں سا کھلتا ہوں دیپ سا جلتا ہوں
نگہت و نُور کے سانچوں میں، نِت ڈھلتا ہوں
پت جھڑ سے پِٹ جانے والی بیلوں کے
دیواروں پر نقش بناتا رہتا ہوں
کھیل کھیل میں، ناؤ بنا کر کاغذ کی
پانی کی فطرت پہچانا کرتا ہوں
تنہائی سے اپنا بَیر چُکانے کو
چڑیا جیسا، آئینے سے لڑتا ہوں
ہاتھ میں نادانوں کے، ڈور سے بندھ کر مَیں
کیا کیا اُڑتا، کیا کیا نوچا جاتا ہوں
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
نہ پُوچھ مجُھ سے بھَلا میں کہاں سُنورتا ہُوں
وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں
نظر ملے تو کبھی سُوئے اوج بھی دیکھوں
میں کور چشم نشیبوں میں ہی اُترتا ہُوں
بہ ایں بساط روانی کہاں مرے بس میں
کنارِ آب فقط جھاگ سا اُبھرتا ہُوں
ہوائے زرد وہیں مجھ کو آن لیتی ہے
رُتوں کے لُطف سے جَب بھی کبھی نکھرتا ہُوں
جو فرق فہم میں اپنے ہے اُس سے مُنکر ہُوں
نہ جانے تہمتیں کیوں دوسروں پہ دھرتا ہُوں
عجیب شخص ہُوں شہ رگ کٹے پہ بھی اکثر
بطرزِ خاص سرِ عام رقص کرتا ہُوں
لبوں پہ کرب اُمڈتا ہے اِس قدر ماجدؔ
چھپی رہے نہ وُہی بات جس سے ڈرتا ہوں
ماجد صدیقی

میرا اک زخم شام کرتا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 204
رنگ بادِ صبا میں بھرتا ہے
میرا اک زخم شام کرتا ہے
سب یہی پوچھتے ہیں مجھ سے کہ تو
کیوں سدھارے نہیں سدھرتا ہے
روز شام و سحر کی راہوں سے
ایک انبوہ کیوں گزرتا ہے ؟
آئینے تیرے سامنے وہ شخص
اب بھلا کیوں نہیں سنورتا ہے
ایلیا جون کچھ نہیں کرتا
صرف خوشبو میں رنگ بھرتا ہے
جون ایلیا

میری توبہ کا جان ڈرتا ہے

دیوان اول غزل 628
جوں جوں ساقی تو جام بھرتا ہے
میری توبہ کا جان ڈرتا ہے
سیر کر عاشقوں کی جانبازی
کوئی سسکتا ہے کوئی مرتا ہے
میر ازبسکہ ناتواں ہوں میں
جی مرا سائیں سائیں کرتا ہے
میر تقی میر