ٹیگ کے محفوظات: کربلا

دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ہو چلی ہے ہر آشا یُوں گریز پا جیسے
دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے
کھِل نہیں سکی اُس کے سامنے کلی دل کی
دب گیا ہے ہونٹوں میں حرفِ مدّعا جیسے
چشم و لب کے آنگن میں ہو غرض کا موسم تو
بن کے بیٹھ رہتا ہے ہر کوئی خُدا جیسے
حال ہے کچھ ایسا ہی آج کے مؤرخ کا
داستاں لکھے اپنی کوئی بیسوا جیسے
رو پڑا ہے کیوں، دیکھو، ہاتھ میں سے بچّے کے
گِر گیا ہے، لگتا ہے، پھر سے جھنجھنا جیسے
اِس زمیں کا ہر خطّہ حرص کے حوالوں سے
یُوں لگے کہ ہونا ہو دشتِ کربلا جیسے
دل کی بات بھی ماجدؔ کھوکھلی ہوئی ایسی
زیرِ آب سے اُٹھے موجۂ صدا جیسے
ماجد صدیقی

میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں

احمد فراز ۔ غزل نمبر 65
کل رات ہم سخن کوئی بُت تھا خدا کہ میں
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں
تھا کون جو گرہ پہ گرہ ڈالتا رہا
اب یہ بتا کہ عقدہ کشا تُو ہوا کہ میں
جب سارا شہر برف کے پیراہنوں میں تھا
ان موسموں میں لوگ تھے شعلہ قبا کہ میں
جب دوست اپنے اپنے چراغوں کے غم میں تھے
تب آندھیوں کی زد پہ کوئی اور تھا کہ میں
جب فصلِ گل میں فکرِ رفو اہلِ دل کو تھی
اس رُت میں بھی دریدہ جگر تُو رہا کہ میں
کل جب رُکے گا بازوئے قاتل تو دیکھنا
اے اہلِ شہر تم تھے شہیدِ وفا کہ میں
کل جب تھمے گی خون کی بارش تو سوچنا
تم تھے عُدو کی صف میں سرِ کربلا کہ میں
احمد فراز

روز برسات کی ہوا ہے یاں

دیوان اول غزل 353
آہ اور اشک ہی سدا ہے یاں
روز برسات کی ہوا ہے یاں
جس جگہ ہو زمین تفتہ سمجھ
کہ کوئی دل جلا گڑا ہے یاں
گو کدورت سے وہ نہ دیوے رو
آرسی کی طرح صفا ہے یاں
ہر گھڑی دیکھتے جو ہو ایدھر
ایسا کہ تم نے آنکلا ہے یاں
رند مفلس جگر میں آہ نہیں
جان محزوں ہے اور کیا ہے یاں
کیسے کیسے مکان ہیں ستھرے
اک ازاں جملہ کربلا ہے یاں
اک سسکتا ہے ایک مرتا ہے
ہر طرف ظلم ہورہا ہے یاں
صد تمنا شہید ہیں یک جا
سینہ کوبی ہے تعزیہ ہے یاں
دیدنی ہے غرض یہ صحبت شوخ
روز و شب طرفہ ماجرا ہے یاں
خانۂ عاشقاں ہے جاے خوب
جاے رونے کی جا بہ جا ہے یاں
کوہ و صحرا بھی کر نہ جاے باش
آج تک کوئی بھی رہا ہے یاں
ہے خبر شرط میر سنتا ہے
تجھ سے آگے یہ کچھ ہوا ہے یاں
موت مجنوں کو بھی یہیں آئی
کوہکن کل ہی مر گیا ہے یاں
میر تقی میر

میں چپ رہوں تو یہ بھولی ہوئی صدا بھی نہ آئے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 241
سماعتوں میں کوئی حرف آشنا بھی نہ آئے
میں چپ رہوں تو یہ بھولی ہوئی صدا بھی نہ آئے
ہوا کا حکم ہو سب کچھ تو اس کنارے تک
یہ جلتے بجھتے چراغوں کا سلسلہ بھی نہ آئے
تمام خانہ خرابوں سے ہو گئیں آباد
وہ بستیاں جو ترے دربدر بسا بھی نہ آئے
تو کیا خراب ہی کی جائے یہ خدا کی زمیں
تو کیا دمشق کے جادے میں کربلا بھی نہ آئے
کبھی نہ ختم ہو یہ جنگلوں کی ہم سفری
میں تیرے ساتھ چلوں اور راستہ بھی نہ آئے
مجھے قبول نہیں ہے یہ عرض حال کی شرط
کہ میں سخن بھی کروں اور مدعا بھی نہ آئے
عرفان صدیقی

آگ میں انسانیت ہے کربلا نیزے پہ ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 626
ہر قدم تلوار پر ہے ، ہر نگہ نیزے پہ ہے
آگ میں انسانیت ہے کربلا نیزے پہ ہے
دوپہر ہے موت کی گرمی ہے کالی رات میں
ظلم کا مصنوعی سورج پھرسوا نیزے پہ ہے
جاہلوں کے شہر میں ہے بے دماغوں کا خرام
علم کی دستار مٹی میں ، قبا نیزے پہ ہے
میں اسی کے راستے پر چل رہا ہوں دشت میں
ہاں وہی جس شخص کی حمدو ثنا نیزے پہ ہے
ہے محمدﷺکے نواسے سی شبیہ منصور کچھ
دیکھ کچھ نزدیک جا کر، دیکھ کیا نیزے پہ ہے
منصور آفاق

اک محمد خدا پہ اترا ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 599
آسماں کے حرا پہ اترا ہے
اک محمد خدا پہ اترا ہے
بول ! زنجیر ریل گاڑی کی
کون کیسی جگہ پہ اترا ہے
سوچتا ہوں کہ رحم کا بادل
کب کسی کربلا پہ اترا ہے
کس کے جوتے کا کھردرا تلوا
سدرئہ المنتہیٰ پہ اترا ہے
خیر کی آرزو نہ راس آئی
قہر دستِ دعا پہ اترا ہے
جھونک دے گی ہر آنکھ میں منصور
راکھ کا دکھ ہوا پہ اترا ہے
منصور آفاق

مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 92
آسمانوں کو الہ کا درد تھا
مجھ کو خاکِ کربلا کا درد تھا
اس کو خالی صحن کی تکلیف تھی
مجھ کو اندر کے خلا کا درد تھا
اب تلک احساس میں موجود ہے
کتنا حرفِ برملا کا درد تھا
رات تھی روتی ہوئی کوئل کہیں
اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا
رو رہا تھا آسماں تک ساتھ ساتھ
ایسا تیرے مبتلا کا درد تھا
اب بھی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے دل
کیسا پہلی ابتلا کا درد تھا
منصور آفاق