ٹیگ کے محفوظات: کدھر

دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے

ذرّوں میں آفتاب و قمر دیکھتے رہے
دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے
لوگ ان سے مانگتے رہے لُطف و کرم کی بھیک
ہم خامشیِ غم کا اثر دیکھتے رہے
ظلمت میں اعتمادِ نظر ضَوفشاں رہا
ہر رنگ میں جمالِ سَحر دیکھتے رہے
یہ زندگی ہے تازہ اُمنگوں کا اک الاؤ
ہر ہر نَفَس میں رقصِ شرر دیکھتے رہے
دنیا سے بے خبر کئی عالم گزر گئے
ہم محویت میں جانے کدھر دیکھتے رہے
چُھپتے رہے وہ طالبِ دیدار جان کر
ہم تھے کہ ان کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے
آدابِ رَہ روی سے جو واقف نہیں ، شکیبؔ
ان کو بھی ہم شریکِ سفر دیکھتے رہے
شکیب جلالی

اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی

جس وقت فصلِ گُل کی قَفَس میں خبر گئی
اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی
تنکے کی طرح بہ گیا ہر ساحلِ مراد
طوفانِ غم! اُمید کی کشتی کدھر گئی؟
وہ سُن کے میرا قصّہِ غم، ایسے رو دیے
جیسے گُلوں پہ شبنمِ گریاں بکھر گئی
کیا جانیے کہ مجھ کو نہیں اعتماد کیوں
تارے تو کہہ رہے ہیں شبِ غم گُزر گئی
قسمت میں ڈوب جانا ہی تھا ایک دن، شکیبؔ
ہاں ! آبروے شورشِ طوفاں مگر گئی
شکیب جلالی

دامن بچا کے گزرو‘ یادوں کی رہ گزر سے

اس خاکد اں میں اب تک باقی ہیں کچھ شررسے
دامن بچا کے گزرو‘ یادوں کی رہ گزر سے
ہر ہر قدم پہ آنکھیں ‘ تھیں فرشِ راہ، لیکن
وہ روشنی کا ہالا‘ اُترا نہ بام پر سے
کیوں جادہِ وفا پر‘ مشعل بکف کھڑے ہو
اس سیلِ تیرگی میں ‘ نکلے گا کون گھر سے
کس دشت کی صدا ہو‘ اتنا مجھے بتا دو
ہر سُو بچھے ہیں رستے‘ آؤں تو میں کدھر سے
اُجڑا ہُوا مکاں ہے یہ دل‘ جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے
شکیب جلالی

اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے
ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے
اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں
اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے
ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں
اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے
اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے
عرفان ستار

جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے

لہو کے ساتھ رگوں میں بکھر گئے ہوں گے
جو سانحے مرے دل پر گزر گئے ہوں گے
یہ دیکھ آج بھی آشفتہ سر وہی ہیں جو تھے
تو کیا سمجھتا تھا ہم تجھ سے ڈر گئے ہوں گے؟
گزشتہ شام نظر آئے تھے جو غم سے نڈھال
وہ آج صبح سبھی کام پر گئے ہوں گے
مکان جن کے جلائے گئے بنام_ خدا
خدا ہی جانے کہ وہ سب کدھر گئے ہوں گے
ثبوت کوئی فراہم نہ ہوسکے گا کبھی
گواہ اپنی نظر سے مکر گئے ہوں گے
کوئی بچا ہی نہیں گھر میں جو ہو چشم براہ
مکیں کو ڈھونڈنے کیا بام و در گئے ہوں گے
ہم اہلِ حرف سے بڑھ کر کہاں ہے کوئی نڈر
جو رن پڑا تو ہمی بے سپر گئے ہوں گے
میں جاگ جاگ کے کس کس کا انتظار کروں
جو لوگ گھر نہیں پہنچے وہ مر گئے ہوں گے
یہ سارا جوش تو تازہ غمی کا ہے عرفان
یہ سارے ولولے کل تک اتر گئے ہوں گے
عرفان ستار

آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے

بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
آشوبِ آگہی میں گماں کی بساط کیا
وہ آندھیاں چلیں کہ یقیں تک بکھر گئے
میں خود ہی بد نُمو تھا کہ مٹی میں کھوٹ تھا
کھِل ہی نہیں سکا، مرے موسم گزر گئے
اب آئے جب میں حال سے بے حال ہو چکا
سب چاک میرے سِل گئے، سب زخم بھر گئے
جشنِ بہارِ نو کا ہُوا اہتمام جب
ہم ایسے چند لوگ بہ مژگانِ تر گئے
دل سا مکان چھوڑ کے دنیا کی سمت ہم
اچھا تو تھا یہی کہ نہ جاتے، مگر گئے
تنہا ہی کر گئی یہ بدلتی ہوئی سرشت
سب دل میں رہنے والے ہی دل سے اتر گئے
اب کچھ نہیں کریں گے خلافِ مزاج ہم
اکثر یہ خود سے وعدہ کیا، پھر مُکر گئے
اچھے دنوں کے میرے رفیقانِخوش دلی
اس بے دلی کے دور میں جانے کدھر گئے
اس عہد_ بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے
عرفان اب سناؤ گے جا کر کسے غزل
وہ صاحبانِ ذوق، وہ اہلِ نظر گئے
عرفان ستار

کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں

کتنی زندہ یادیں لے کر، رات کو بستر پر جاتے ہیں
کس مشکل سے نیند ٓتی ہے، پھر ہم خواب میں مر جاتے ہیں
کوی رنج نہیں ہوتا ہے، کوی آہ نہیں اٹھتی ہے
اب دل سے یادوں کے لشکر یوں چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جتنے بھی ہیں کام ضروری، سارے عجلت میں نمٹا لو
اوروں کے دکھ سہنے والے، اکثر جلدی مر جاتے ہیں
بھاگم بھاگ یہ ساری خلقت، جانے کس جانب جاتی ہے
میں بس پوچھتا رہ جاتا ہوں، یہ سب لوگ کدھر جاتے ہیں
ایسے حال میں ناممکن ہے، کوءی چیز ٹھکانے سے ہو
آنکھ میں خون اتر آتا ہے، دل میں آنسو بھر جاتے ہیں
اور بتاو اس کے علاوہ بے گھر ہونا کیا ہوتا ہے
تم بھی اپنے گھر جاتے ہو، ہم بھی اپنے گھر جاتے ہیں
دنیا میں ساری بربادی، اہلِ خرد نے پھیلای ہے
لیکن سب الزام ہمیشہ، اہلِ جنوں کے سر جاتے ہیں
کبھی کبھار جو یاد آجاءے، اپنا یوں بے مصرف ہونا
کچھ دن بے چینی رہتی ہے، پھر کچھ سال گزر جاتے ہیں
تار و پود بکھر جاتے ہیں، ٹکڑے چننے کے چکر میں
ٹکڑے چننے کے چکر میں، تار و پود بکھر جاتے ہیں
ہجر کی ساعت آخری دم تک، عمر کے ساتھ سفر کرتی ہے
وصل کے لمحے آناً فاناً، وقت کے پار اتر جاتے ہیں
تم عرفان کی فکر نہ کرنا، اس کی بات بنی رہتی ہے
آتی آفت ٹل جاتی ہے، بگڑے کام سنور جاتے ہیں
عرفان ستار

عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

گئے دِنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دُھن سنا کر
ستارئہ شام بن کے آیا برنگِ خوابِ سحر گیا وہ
خوشی کی رُت ہو کہ غم کا موسم نظر اُسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہِ جاں مرے تو دل میں اُتر گیا وہ
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں بھی بدل چلا دَورِ آسماں بھی
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ہزار رستے ہیں اہلِ دل کے
یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دِنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا مثالِ گردِ سفر گیا وہ
مرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ستمگروں کی پلک نہ بھیگی
جو نالہ اُٹھا تھا رات دل سے نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ
وہ میکدے کو جگانے والا وہ رات کی نیند اُڑانے والا
یہ آج کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
وہ جس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر سفر کیا تو نے منزلوں کا
تری گلی سے نہ جانے کیوں آج سر جھکائے گزر گیا وہ
وہ رات کا بے نوا مسافر وہ تیرا شاعر وہ تیرا ناصر
تری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا پھر نہ جانے کدھر گیا وہ
ناصر کاظمی

شاخ پر کِھل کے گلابوں نے بکھر جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
بیٹیاں دھن ہے پرایا اِنہیں گھر جانا ہے
شاخ پر کِھل کے گلابوں نے بکھر جانا ہے
ہم کہ ہیں باغ میں پت جھڑ کے بکھرتے پتّے
کون یہ جانتا ہے کس کو کدھر جانا ہے
ڈھل بھی سکتا ہے جو سورج ہے سروں پر سُکھ کا
کانپ کانپ اُٹھنا ہے،یہ سوچ کے ڈر جانا ہے
گرد ہی لکھی ہے پیڑوں کے نصیبوں میں جنہیں
پل دو پل موسمِ باراں میں نکھر جانا ہے
آخرِ کار دکھائی نہ وُہ دے بُھوت ہمیں
ہم نے جس شخص کو رستے کا شجر جانا ہے
ماجد صدیقی

ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
وُہ جس کے نین نقش اپنے ذہن میں اُتر گئے
ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے
خیال قُرب اُسی کا سر پہ ابر سا جھُکا رہا
میانِ دشتِ روزگار ہم جدھر جدھر گئے
تھیں اُس کے مُڑ کے دیکھنے میں بھی عجب مسافتیں
حدوں سے شب کی ہم نکل کے جانبِ سحر گئے
دُھلے فلک پہ جس طرح شب سیہ کی چشمکیں
پسِ وصال ہم بھی کچھ اِسی طرح نکھر گئے
اُسی کی دید سے ہمیں تھے حوصلے اُڑان کے
گیا جو وہ تو جانئے کہ اپنے بال و پر گئے
وُہ جن کے چوکھٹوں میں عکس تھے مرے حبیب کے
وُہ ساعتیں کہاں گئیں وہ روز و شب کدھر گئے
ماجد صدیقی

رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
پہنچے بہ کوئے دل کہ نظر سے گزر گئے
رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے
حاصل تجھے ہے تیرے قدر و رُخ سے یہ مقام
اور ہم بزورِ نطق دلوں میں اُتر گئے
آیا جہاں کہیں بھی میّسر ترا خیال
نِکلے دیارِ شب سے بہ کوئے سحر گئے
جن کے چمن کو تُو نے بہارِ خیال دی
ماجدؔ ترے وہ دوست کہاں تھے کدھر گئے
ماجد صدیقی

اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 96
ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے
ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے
اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں
اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے
ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں
اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے
اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے
عرفان ستار

مسئلہ پُھول کا ہے ، پُھول کدھر جائے گا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 21
وہ تو خوشبو ہے ، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پُھول کا ہے ، پُھول کدھر جائے گا
ہم تو سمجھے تھے کہ اِک زخم ہے ، بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اُتر جائے گا
وہ ہواؤں کی طرح خانہ بجاں پھرتا ہے
ایک جھونکا ہے جو آئے گا، گُزر جائے گا
وہ جب آئے گا تو پھر اُس کی رفاقت کے لیے
موسمِ گُل مرے آنگن میں ٹھہر جائے گا
آخرش وہ بھی کہیں ریت پہ بیٹھی ہو گی
تیرا یہ پیار بھی دریا ہے ،اُتر جائے گا
مجھ کو تہذیب کے برزخ کا بنایا وارث
جُرم یہ بھی مرے اجداد کے سر جائے گا
پروین شاکر

بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 129
آخر ہے وقت دیکھ لو بھر کر نظر مجھے
بیٹھو نہ ذبح کرنے کو منہ پھیر کر مجھے
کوسوں دکھائی دیتی نہیں رہگزر مجھے
لے جا رہی ہے آج یہ وحشت کدھر مجھے
ایسا بھی ایک وقت پڑا تھا شبِ الم
حسرت سے دیکھنے لگے دیوار و در مجھے
اے ہم قفس نہ مانگ دعائیں بہار کی
آتے نہیں ہیں راس مرے بال و پر مجھے
عذرِ گناہ حشر میں اور میرے سامنے
انکارِ قتل کیجئے پہچان کر مجھے
تعریف حسن کی جو کبھی ان کے سامنے
بولے کہ لگ نہ جائے تمھاری نظر مجھے
لی دی سی اِک نگاہ ستاروں پہ ڈال کہ
شرما گئے کہ دیکھ رہا ہے قمر مجھے
قمر جلالوی

تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 122
وہ زلف ہے پریشاں، ہم سب ادھر چلے ہیں
تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں
تم بھی چلو غزالاں، کوئے غزال چشماں
درشن کا آج دن ہے سب خوش نظر چلے ہیں
رنگ اس گلی خزاں کے موسم میں کھیلنے کو
خونیں دلاں گئے ہیں خونیں جگر چلے ہیں
اب دیر مت لگا چل، اے یار بس چلا چل
دیکھیں یہ خوش نشینیاں آخر کدھر چلے ہیں
بس اب پہنچ چکے ہیں ہم یاراں سوئے بیاباں
ساتھ اپنے ہم کو لے کر دیوار و در چلے ہیں
دنیا تباہ کر کے ہوش آگیا ہے دل کو
اب تو ہماری سن اب ہم سدھر چلے ہیں
ہے سلسلے عجب کچھ اس خلوتی سے اپنا
سب اس کے گھر چلے ہیں ہم اپنے گھر چلے ہیں
جون ایلیا

دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 190
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی
شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی
اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی
دیکھو تو دل فریبـئ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی
نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی
فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی
مارا زمانے نے اسدؔاللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا

دیوان ششم غزل 1800
زمانہ ہجر کا آسان کیا بسر آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
رہیں جو منتظر آنکھیں غبار لائیں ولے
وہ انتظارکشوں کو نہ ٹک نظر آیا
ہزار طرح سے آوے گھڑی جدائی میں
ملاپ جس سے ہو ایسا نہ یک ہنر آیا
ملا جو عشق کے جنگل میں خضر میں نے کہا
کہ خوف شیر ہے مخدوم یاں کدھر آیا
یہ لہر آئی گئی روز کالے پانی تک
محیط اس مرے رونے کو دیکھ تر آیا
نثار کیا کریں ہم خانماں خراب اس پر
کہ گھر لٹا چکے جب یار اپنے گھر آیا
نہ روؤں کیونکے علی الاتصال اس بن میں
کہ جی کے رندھنے سے جوں ابر دل بھی بھر آیا
جوان مارے ہیں بے ڈھنگی ہی سے ان نے بہت
ستم کی مشق کی پر خون اسے نہ کرآیا
لچک کمر کی جو یاد آئی اس کی بہ آوے
کہ پانی میر کے اشکوں کا تا کمر آیا
میر تقی میر

برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے

دیوان پنجم غزل 1729
جوں ابر بے کسانہ روتے اٹھے ہیں گھر سے
برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے
جمہور راہ اس کی دیکھا کرے ہے اکثر
محفوظ رکھ الٰہی اس کو نظرگذر سے
وحش اور طیر آنکھیں ہر سو لگا رہے ہیں
گرد رہ اس کی دیکھیں اٹھ چلتی ہے کدھر سے
شاید کہ وصل اس کا ہووے تو جی بھی ٹھہرے
ہوتی نہیں ہے اب تو تسکین دل خبر سے
مدت سے چشم بستہ بیٹھا رہا ہوں لیکن
وہ روے خوب ہرگز جاتا نہیں نظر سے
گو ہاتھ وہ نہ آوے دل غم سے خون کرنا
ہے لاگ میرے جی کو اس شوخ کی کمر سے
یہ گل نیا کھلا ہے لے بال تو قفس میں
کوئی کلی نہ نکلے مرغ چمن کے پر سے
دیکھو نہ چشم کم سے یہ آنکھ ڈبڈبائی
سیراب ابر ہوتے دیکھے ہیں چشم تر سے
گلشن سے لے قفس تک آواز ایک سی ہے
کیا طائر گلستاں ہیں نالہ کش اثر سے
ہر اک خراش ناخن جبہے سے صدر تک ہے
رجھواڑ ہو تو پوچھے کوئی ہمیں ہنر سے
یہ عاشقی ہے کیسی ایسے جیوگے کب تک
ترک وفا کرو ہو مرنے کے میر ڈر سے
میر تقی میر

گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے

دیوان پنجم غزل 1727
کیا خانہ خرابی کا ہمیں خوف و خطر ہے
گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے
میلان نہ آئینے کا اس کو ہے نہ گل کا
کیا جانیے اب روے دل یار کدھر ہے
اے شمع اقامت کدہ اس بزم کو مت جان
روشن ہے ترے چہرے سے تو گرم سفر ہے
اس عاشق دیوانہ کی مت پوچھ معیشت
دنداں بجگر دست بدل داغ بسر ہے
کیا آگ کی چنگاریاں سینے میں بھری ہیں
جو آنسو مری آنکھ سے گرتا ہے شرر ہے
ڈر جان کا جس جا ہے وہیں گھر بھی ہے اپنا
ہم خانہ خرابوں کو تو یاں گھر ہے نہ در ہے
کیا پرسش احوال کیا کرتے ہو اکثر
ظاہر ہے کہ بیمار اجل روز بتر ہے
رہتی ہیں الم ناک ہی وے آنکھیں جو اچھی
بدچشم کسو شخص کی شاید کہ نظر ہے
دیدار کے مشتاق ہیں سب جس کے اب اس کی
کچھ شورش ہنگامۂ محشر میں خبر ہے
سب چاہتے ہیں رشد مرا یوں تو پر اے میر
شاید یہی اک عیب ہے مانع کہ ہنر ہے
میر تقی میر

شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا

دیوان پنجم غزل 1556
جاذبہ میرا تھا کامل سو بندے کے وہ گھر آیا
شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا
بجلی سا وہ چمک گیا آنکھوں سے پھوئیں پڑنے لگیں
ابر نمط خفگی سے اس بن جی بھی رندھا دل بھر آیا
گل تھے سو سو رنگ پر ایسا شورطیور بلند نہ تھا
اس کے رنگ چمن میں کوئی شاید پھول نظر آیا
سیل بلا جوشاں تھا لیکن پانی پانی شرم سے تھا
ساحل دریا خشک لبی دیکھے سے میری تر آیا
کیا ہی خوش پرکار ہے دلبر نوچہ کشتی گیر اپنا
کوئی زبردست اس سے لڑ کر عہدے سے کب بر آیا
صنعت گریاں بہتیری کیں لیک دریغ ہزار دریغ
جس سے یار بھی ملتا ہم سے ایسا وہ نہ ہنر آیا
میر پریشاں خاطر آکر رات رہا بت خانے میں
راہ رہی کعبے کی اودھر یہ سودائی کدھر آیا
میر تقی میر

جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے

دیوان چہارم غزل 1531
اب ترک کر لباس توکل ہی کر رہے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
اس دشت سے غبار ہمارا نہ ٹک اٹھا
ہم خانماں خراب نہ جانا کدھر رہے
آنے سے اس طرف کے ترے میں نے غش کیا
شکوہ بھی اس سے کیجیے جس کو خبر رہے
دونوں طرف سے دیدہ درائی نہیں ہے خوب
اس چاہ کا ہے لطف جو آپس میں ڈر رہے
جب تک ہو خون دل میں جگر میں مژہ ہوں نم
تہ کچھ بھی جو نہ ہووے تو کیا چشم تر رہے
رہنا گلی میں اس کی نہ جیتے جی ہوسکا
ناچار ہوکے واں جو گئے اب سو مر رہے
عاشق خراب حال ترے ہیں گرے پڑے
جوں لشکر شکستہ پریشاں اتر رہے
عیب آدمی کا ہے جو رہے اس دیار میں
مطلق جہاں نہ میر رواج ہنر رہے
میر تقی میر

زندگانی ہی درد سر ہے اب

دیوان چہارم غزل 1355
درد سر کا پہر پہر ہے اب
زندگانی ہی درد سر ہے اب
وہ دماغ ضعیف بھی نہ رہا
بے دماغی ہی بیشتر ہے اب
کیا ہمیں ہم تو ہو چلے ٹھنڈے
گرم گو یار کی خبر ہے اب
کیا کہیں حال خاطر آشفتہ
دل خدا جانیے کدھر ہے اب
عزلتی میر جوں صبا اس بن
خاک بر سر ہے دربدر ہے اب
میر تقی میر

دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا

دیوان چہارم غزل 1324
ہم مست عشق جس کے تھے وہ روٹھ کر گیا
دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا
جاں بخشی اس کے ہونٹوں کی سن آب زندگی
ایسا چھپا کہیں کہ کہا جائے مر گیا
کہتے ہیں میر کعبے گیا ترک عشق کر
راہ دل شکستہ کدھر وہ کدھر گیا
میر تقی میر

بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے

دیوان سوم غزل 1303
کیا چال نکالی ہے کہ جو دیکھے سو مر جائے
بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے
تاچند یہ خمیازہ کشی تنگ ہوں یارب
آغوش مری ایک شب اس شوخ سے بھر جائے
بے طاقتی دل سے مری جان ہے لب پر
تم ٹھہرو کوئی دم تو مرا جی بھی ٹھہر جائے
پڑتے نگہ یار مرا حال ہے ویسا
بجلی کے تڑپنے سے کوئی جیسے کہ ڈر جائے
اس آئینہ رو شوخ مفتن سے کہیں کیا
عاشق کو برا کہہ کے منھ ہی منھ میں مکر جائے
ناکس کی تلافی ستم کون کرے ہے
ڈرتا ہوں کہ وہ اور بھی آزردہ نہ کر جائے
جاتا ہے جدھر منزل مقصود نہیں وہ
آوارہ جو ہو عشق کا بے چارہ کدھر جائے
رونے میں مرے سر نہ چڑھو صبر کرو ٹک
یہ سیل جو اک زور سے آتا ہے اتر جائے
کیا ذکر مرا میں تو کہیں اس سے ملوں ہوں
ان خانہ خرابوں کی کہو جن کے وہ گھر جائے
اس زلف کا ہر بال رگ جان ہے اپنی
یاں جی ہی بکھرتا ہے صبا وہ جو بکھر جائے
گردش میں جو وے آنکھ نشے کی بھری دیکھیں
ہشیار سروں کے تئیں سدھ اپنی بسر جائے
آنکھیں ہی لگی جاتی ہیں اس جاذبہ کو میر
آتی ہے بہت دیر جو اس منھ پہ نظر جائے
میر تقی میر

جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں

دیوان سوم غزل 1215
مدت ہوئی کہ کوئی نہ آیا ادھر سے یاں
جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں
وہ آپ چل کے آوے تو شاید کہ جی رہے
ہوتی نہیں تسلی دل اب خبر سے یاں
پوچھے کوئی تو سینہ خراشی دکھایئے
سو تو نہیں ہے حرف و حکایت ہنر سے یاں
آگے تو اشک پانی سے آجاتے تھے کبھو
اب آگ ہی نکلنے لگی ہے جگر سے یاں
ٹپکا کریں ہیں پلکوں سے بے فاصلہ سرشک
برسات کی ہوا ہے سدا چشم تر سے یاں
اے بت گرسنہ چشم ہیں مردم نہ ان سے مل
دیکھیں ہیں ہم نے پھوٹتے پتھر نظر سے یاں
راہ و روش کا ہووے ٹھکانہ تو کچھ کہیں
کیا جانے میر آگئے تھے کل کدھر سے یاں
میر تقی میر

پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے

دیوان دوم غزل 1054
عبرت سے دیکھ جس جا یاں کوئی گھر بنے ہے
پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے
ہیں دل گداز جن کے کچھ چیز مال وے ہیں
ہوتے ہیں ملتفت تو پھر خاک زر بنے ہے
شب جوش غم سے جس دم لگتا ہے دل تڑپنے
ہر زخم سینہ اس دم یک چشم تر بنے ہے
یاں ہر گھڑی ہماری صورت بگڑتی ہے گی
چہرہ ہی واں انھوں کا دو دو پہر بنے ہے
ٹک رک کے صاف طینت نکلے ہے اور کچھ ہو
پانی گرہ جو ہووے تو پھر گہر بنے ہے
ہے شعبدے کے فن میں کیا دست مے کشوں کو
زاہد انھوں میں جاکر آدم سے خر بنے ہے
نکلے ہے صبح بھی یاں صندل ملے جبیں کو
عالم میں کام کس کا بے درد سر بنے ہے
سارے دکھوں کی اے دل ہوجائے گی تلافی
صحبت ہماری اس کی ٹک بھی اگر بنے ہے
ہر اک سے ڈھب جدا ہے سارے زمانے کا بھی
بنتی ہے جس کسو کی یک طور پر بنے ہے
برسوں لگی رہے ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب صاحب نظر بنے ہے
یاران دیر و کعبہ دونوں بلا رہے ہیں
اب دیکھیں میر اپنا جانا کدھر بنے ہے
میر تقی میر

دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے

دیوان دوم غزل 988
دل خوں ہوا ہمارا ٹکڑے ہوئے جگر کے
دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے
چشمے کہیں ہیں جوشاں جوئیں کہیں ہیں جاری
آثار اب تلک ہیں یاروں کی چشم تر کے
رہنے کی اپنے جا تو نے دیر ہے نہ کعبہ
اٹھیے جو اس کے در سے تو ہوجیے کدھر کے
اس شعر و شاعری پر اچھی بندھی نہ ہم سے
محوخیال شاعر یوں ہی ہیں اس کمر کے
دنیا میں ہے بسیرا یارو سرائے کا سا
یہ رہروان ہستی عازم ہیں سب سفر کے
وے یہ ہی چھاتیاں ہیں زخموں سے جو بھری ہیں
کیا ہے جو بوالہوس نے دوچار کھائے چرکے
تہ بے خودی کی اپنی کیا کچھ ورے دھری ہے
ہم بے خبر ہوئے ہیں پہنچے کسو خبر کے
اس آستاں کی دوری اس دل کی ناصبوری
کیا کہیے آہ غم سے گھر کے ہوئے نہ در کے
خاک ایسی عاشقی میں ٹھکرائے بھی گئے کل
پائوں کنے سے اس کے پر میر جی نہ سرکے
میر تقی میر

گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں

دیوان دوم غزل 875
جوشش اشک سے ہوں آٹھ پہر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں
ضبط گریہ نے جلایا ہے درونہ سارا
دل اچنبھا ہے کہ ہے سوختہ تر پانی میں
آب شمشیر قیامت ہے برندہ اس کی
یہ گوارائی نہیں پاتے ہیں ہر پانی میں
طبع دریا جو ہو آشفتہ تو پھر طوفاں ہے
آہ بالوں کو پراگندہ نہ کر پانی میں
غرق آب اشک سے ہوں لیک اڑا جاتا ہوں
جوں سمک گوکہ مرے ڈوبے ہیں پر پانی میں
مردم دیدئہ تر مردم آبی ہیں مگر
رہتے ہیں روز و شب و شام و سحر پانی میں
ہیئت آنکھوں کی نہیں وہ رہی روتے روتے
اب تو گرداب سے آتے ہیں نظر پانی میں
گریۂ شب سے بہت آنکھ ڈرے ہے میری
پائوں رکھتے ہی نہیں باردگر پانی میں
فرط گریہ سے ہوا میر تباہ اپنا جہاز
تختہ پارے گئے کیا جانوں کدھر پانی میں
میر تقی میر

بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں

دیوان دوم غزل 870
جانا ادھر سے میر ہے ویسا ادھر کے تیں
بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں
کب ناخنوں سے چہرہ نچے اس صفا سے ہوں
رجھواڑ تم نہیں ہو جو دیکھو ہنر کے تیں
خستے کو اس نگہ کے طبیبوں سے کام کیا
ہمدم مجھے دکھا کسو صاحب نظر کے تیں
فردوس ہو نصیب پدر آدمی تھا خوب
دل کو دیا نہ ان نے کسو خوش پسر کے تیں
ٹک دل کی بے قراری میں جاتے ہیں جی جلے
ہر دم طپش سراہیے میرے جگر کے تیں
تم دل سے جو گئے سو خرابی بہت رہی
پھر بھی بسائو آ کے اس اجڑے نگر کے تیں
اللہ رے نازکی نہیں آتی خیال میں
کس کس طرح سے باندھتے ہیں اس کمر کے تیں
حالت یہ ہے کہ بے خبری دم بہ دم ہے یاں
وے اب تلک بھی آتے نہیں ٹک خبر کے تیں
مدت ہوئی کہ اپنی خبر کچھ ہمیں نہیں
کیا جانیے کہ میر گئے ہم کدھر کے تیں
میر تقی میر

اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد

دیوان دوم غزل 799
اسیر کر کے نہ لی تو نے تو خبر صیاد
اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد
پھریں گے لوٹتے صحن چمن میں بائو کے ساتھ
موئے گئے بھی مرے مشت بال و پر صیاد
رہے گی ایسی ہی گر بے کلی ہمیں اس سال
تو دیکھیو کہ رہے ہم قفس میں مر صیاد
چمن کی باؤ کے آتے خبر نہ اتنی رہی
کہ میں کدھر ہوں کدھر ہے قفس کدھر صیاد
شکستہ بالی کو چاہے تو ہم سے ضامن لے
شکار موسم گل میں ہمیں نہ کر صیاد
ہوا نہ وا درگلزار اپنے ڈھب سے کبھو
کھلا سو منھ پہ ہمارے قفس کا در صیاد
سنا ہے بھڑکی ہے اب کی بہت ہی آتش گل
چمن میں اپنے بھی ہیں خار و خس کے گھر صیاد
لگی بہت رہیں چاک قفس سے آنکھیں لیک
پڑا نہ اب کے کوئی پھول گل نظر صیاد
اسیر میر نہ ہوتے اگر زباں رہتی
ہوئی ہماری یہ خوش خوانی سحر صیاد
میر تقی میر

یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے

دیوان اول غزل 552
غالب کہ یہ دل خستہ شب ہجر میں مرجائے
یہ رات نہیں وہ جو کہانی میں گذر جائے
ہے طرفہ مفتن نگہ اس آئینہ رو کی
اک پل میں کرے سینکڑوں خوں اور مکر جائے
نے بتکدہ ہے منزل مقصود نہ کعبہ
جو کوئی تلاشی ہو ترا آہ کدھر جائے
ہر صبح تو خورشید ترے منھ پہ چڑھے ہے
ایسا نہ ہو یہ سادہ کہیں جی سے اتر جائے
یاقوت کوئی ان کو کہے ہے کوئی گل برگ
ٹک ہونٹ ہلا تو بھی کہ اک بات ٹھہر جائے
ہم تازہ شہیدوں کو نہ آ دیکھنے نازاں
دامن کی تری زہ کہیں لوہو میں نہ بھر جائے
گریے کو مرے دیکھ ٹک اک شہر کے باہر
اک سطح ہے پانی کا جہاں تک کہ نظر جائے
مت بیٹھ بہت عشق کے آزردہ دلوں میں
نالہ کسو مظلوم کا تاثیر نہ کر جائے
اس ورطے سے تختہ جو کوئی پہنچے کنارے
تو میر وطن میرے بھی شاید یہ خبر جائے
میر تقی میر

پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے

دیوان اول غزل 539
ڈھونڈا نہ پایئے جو اس وقت میں سو زر ہے
پھر چاہ جس کی مطلق ہے ہی نہیں ہنر ہے
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کار گاہ ساری دکان شیشہ گر ہے
ڈھاہا جنوں نے اس کو ان پر خرابی آئی
جانا گیا اسی سے دل بھی کسو کا گھر ہے
تجھ بن شکیب کب تک بے فائدہ ہوں نالاں
مجھ نالہ کش کے تو اے فریادرس کدھر ہے
صید افگنو ہمارے دل کو جگر کو دیکھو
اک تیر کا ہدف ہے اک تیغ کا سپر ہے
اہل زمانہ رہتے اک طور پر نہیں ہیں
ہر آن مرتبے سے اپنے انھیں سفر ہے
کافی ہے مہر قاتل محضر پہ خوں کے میرے
پھر جس جگہ یہ جاوے اس جا ہی معتبر ہے
تیری گلی سے بچ کر کیوں مہر و مہ نہ نکلیں
ہر کوئی جانتا ہے اس راہ میں خطر ہے
وے دن گئے کہ آنسو روتے تھے میر اب تو
آنکھوں میں لخت دل ہے یا پارئہ جگر ہے
میر تقی میر

تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے

دیوان اول غزل 514
حرم کو جایئے یا دیر میں بسر کریے
تری تلاش میں اک دل کدھر کدھر کریے
کٹے ہے دیکھیے یوں عمر کب تلک اپنی
کہ سنیے نام ترا اور چشم تر کریے
وہ مست ناز تو مچلا ہے کیا جتایئے حال
جو بے خبر ہو بھلا اس کے تیں خبر کریے
ہوا ہے دن تو جدائی کا سو تعب سے شام
شب فراق کس امید پر سحر کریے
جہاں کا دید بجز ماتم نظارہ نہیں
کہ دیدنی ہی نہیں جس پہ یاں نظر کریے
جیوں سے جاتے ہیں ناچار آہ کیا کیا لوگ
کبھو تو جانب عشاق بھی گذر کریے
ستم اٹھانے کی طاقت نہیں ہے اب اس کو
جو دل میں آوے تو ٹک رحم میر پر کریے
میر تقی میر

اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے

دیوان اول غزل 509
جب نام ترا لیجیے تب چشم بھر آوے
اس زندگی کرنے کو کہاں سے جگر آوے
تلوار کا بھی مارا خدا رکھے ہے ظالم
یہ تو ہو کوئی گور غریباں میں در آوے
میخانہ وہ منظر ہے کہ ہر صبح جہاں شیخ
دیوار پہ خورشید کا مستی سے سر آوے
کیا جانیں وے مرغان گرفتار چمن کو
جن تک کہ بصد ناز نسیم سحر آوے
تو صبح قدم رنجہ کرے ٹک تو ہے ورنہ
کس واسطے عاشق کی شب غم بسر آوے
ہر سو سر تسلیم رکھے صید حرم ہیں
وہ صید فگن تیغ بکف تا کدھر آوے
دیواروں سے سر مارتے پھرنے کا گیا وقت
اب تو ہی مگر آپ کبھو در سے در آوے
واعظ نہیں کیفیت میخانہ سے آگاہ
یک جرعہ بدل ورنہ یہ مندیل دھر آوے
صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی
ہے عیب بڑا اس میں جسے کچھ ہنر آوے
اے وہ کہ تو بیٹھا ہے سر راہ پہ زنہار
کہیو جو کبھو میر بلاکش ادھر آوے
مت دشت محبت میں قدم رکھ کہ خضر کو
ہر گام پہ اس رہ میں سفر سے حذر آوے
میر تقی میر

پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو

دیوان اول غزل 390
نالہ مرا اگر سبب شور و شر نہ ہو
پھر مر بھی جایئے تو کسو کو خبر نہ ہو
دل پر ہوا سو آہ کے صدمے سے ہو چکا
ڈرتا ہوں یہ کہ اب کہیں ٹکڑے جگر نہ ہو
برچھی سی پار عرش کے گذری نہ عاقبت
آہ سحر میں میری کہاں تک اثر نہ ہو
سمجھا ہوں تیری آنکھ چھپانے سے خوش نگاہ
مدنظر یہ ہے کہ کسی کی نظر نہ ہو
کھینچے ہے دل کو زلف سے گاہے نگہ سے گاہ
حیراں نہ ہووے کوئی تو اس طرز پر نہ ہو
سو دل سے بھی نہ کام چلے اس کے عشق میں
اک دل رکھوں ہوں میں تو کدھر ہو کدھر نہ ہو
جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک
کافر کا بھی گذار الٰہی ادھر نہ ہو
یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ
جس میں بجائے نقش قدم چشم تر نہ ہو
ہر یک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے
ہاں یاں کسو شہیدمحبت کا سر نہ ہو
چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدان عشق ہیں
تیرا گذار تاکہ کسو نعش پر نہ ہو
دامن کشاں ہی جا کہ طپش پر طپش ہے دفن
زنہار کوئی صدمے سے زیر و زبر نہ ہو
مضطر ہو اختیار کی وہ شکل دل میں میں
اس راہ ہو کے جائوں یہ صورت جدھر نہ ہو
لیکن عبث نگاہ جہاں کریے اس طرف
امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہ ہو
حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی
مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو
آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر
ظالم جفاشعار ترا رہگذر نہ ہو
اٹھ جائے رسم نالہ و آہ و فغان سب
اس تیرہ روزگار میں تو میر اگر نہ ہو
میر تقی میر

ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں

دیوان اول غزل 342
دامن پہ تیرے گرد کا کیونکر اثر نہیں
ہم دل جلوں کی خاک جہاں میں کدھر نہیں
اتنا رقیب خانہ برانداز سے سلوک
جب آنکلتے ہیں تو سنے ہیں کہ گھر نہیں
خون جگر تو کچھ نہ رہا تو ہی سب ہوا
بس اے سرشک آنکھیں تری کیا مگر نہیں
دامان و جیب و دیدہ و مژگان و آستیں
اب کون سا رہا ہے کہ ان میں سے تر نہیں
ہر نقش پا ہے شوخ ترا رشک یاسمن
کم گوشۂ چمن سے ترا رہگذر نہیں
کیوں الاماں کرے ہے دل شب گھڑی گھڑی
برچھی لگاتی آہ ہماری اگر نہیں
آتا ہی تیرے کوچے میں ہوتا جو میر یاں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
میر تقی میر

اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر

دیوان اول غزل 204
اودھر تلک ہی چرخ کے مشکل ہے ٹک گذر
اے آہ پھر اثر تو ہے برچھی کی چوٹ پر
دھڑکا تھا دل طپیدن شب سے سو آج صبح
دیکھا وہی کہ آنسوئوں میں چو پڑا جگر
ہم تو اسیر کنج قفس ہوکے مرچلے
اے اشتیاق سیر چمن تیری کیا خبر
مت عیب کر جو ڈھونڈوں میں اس کو کہ مدعی
یہ جی بھی یوں ہی جائے گا رہتا ہے تو کدھر
آتی ہی بوجھیو تو بلا اپنے سر صبا
وے مشک فام زلفیں پریشاں ہوئیں اگر
جاتی نہیں ہے دل سے تری یاد زلف و رو
روتے ہی مجھ کو گذرے ہے کیا شام کیا سحر
کیا جانوں کس کے تیں لب خنداں کہے ہے خلق
میں نے جو آنکھیں کھول کے دیکھیں سو چشم تر
اے سیل ٹک سنبھل کے قدم بادیے میں رکھ
ہر سمت کو ہے تشنہ لبی کا مری خطر
کرتا ہے کون منع کہ سج اپنی تو نہ دیکھ
لیکن کبھی تو میر کے کر حال پر نظر
میر تقی میر

ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات

دیوان اول غزل 183
پلکوں پہ تھے پارئہ جگر رات
ہم آنکھوں میں لے گئے بسر رات
اک دن تو وفا بھی کرتے وعدہ
گذری ہے امیدوار ہر رات
مکھڑے سے اٹھائیں ان نے زلفیں
جانا بھی نہ ہم گئی کدھر رات
تو پاس نہیں ہوا تو روتے
رہ رہ گئی ہے پہر پہر رات
کیا دن تھے کہ خون تھا جگر میں
رو اٹھتے تھے بیٹھ دوپہر رات
واں تم تو بناتے ہی رہے زلف
عاشق کی بھی یاں گئی گذر رات
ساقی کے جو آنے کی خبر تھی
گذری ہمیں ساری بے خبر رات
کیا سوز جگر کہوں میں ہمدم
آیا جو سخن زبان پر رات
صحبت یہ رہی کہ شمع روئی
لے شام سے تا دم سحر رات
کھلتی ہے جب آنکھ شب کو تجھ بن
کٹتی نہیں آتی پھر نظر رات
دن وصل کا یوں کٹا کہے تو
کاٹی ہے جدائی کی مگر رات
کل تھی شب وصل اک ادا پر
اس کی گئے ہوتے ہم تو مر رات
جاگے تھے ہمارے بخت خفتہ
پہنچا تھا بہم وہ اپنے گھر رات
کرنے لگا پشت چشم نازک
سوتے سے اٹھا جو چونک کر رات
تھی صبح جو منھ کو کھول دیتا
ہر چند کہ تب تھی اک پہر رات
پر زلفوں میں منھ چھپا کے پوچھا
اب ہووے گی میر کس قدر رات
میر تقی میر

ہوکر فقیر صبر مری گور پر گیا

دیوان اول غزل 161
بیتابیوں کے جور سے میں جب کہ مر گیا
ہوکر فقیر صبر مری گور پر گیا
اے آہ سرد عرصۂ محشر میں یخ جما
جلتا ہوں میں سنوں کہ جہنم ٹھٹھر گیا
کاکل میں نہیّں خط میں نہیں زلف میں نہیں
روز سیہ کے ساتھ مرا دل کدھر گیا
مفلس سو مر گیا نہ ہوا وصل یار کا
ہجراں میں اس کے جی بھی گیا اور زر گیا
تیری ہی رہگذر میں یہ جی جارہا ہے شوخ
سنیو کہ میر آج ہی کل میں گذر گیا
میر تقی میر

ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا

دیوان اول غزل 101
دیر و حرم سے گذرے اب دل ہے گھر ہمارا
ہے ختم اس آبلے پر سیر و سفر ہمارا
پلکوں سے تیری ہم کو کیا چشم داشت یہ تھی
ان برچھیوں نے بانٹا باہم جگر ہمارا
دنیا و دیں کی جانب میلان ہو تو کہیے
کیا جانیے کہ اس بن دل ہے کدھر ہمارا
ہیں تیرے آئینے کی تمثال ہم نہ پوچھو
اس دشت میں نہیں ہے پیدا اثر ہمارا
جوں صبح اب کہاں ہے طول سخن کی فرصت
قصہ ہی کوئی دم کو ہے مختصر ہمارا
کوچے میں اس کے جاکر بنتا نہیں پھر آنا
خون ایک دن گرے گا اس خاک پر ہمارا
ہے تیرہ روز اپنا لڑکوں کی دوستی سے
اس دن ہی کو کہے تھا اکثر پدر ہمارا
سیلاب ہر طرف سے آئیں گے بادیے میں
جوں ابر روتے ہو گا جس دم گذر ہمارا
نشوونما ہے اپنی جوں گردباد انوکھی
بالیدہ خاک رہ سے ہے یہ شجر ہمارا
یوں دور سے کھڑے ہو کیا معتبر ہے رونا
دامن سے باندھ دامن اے ابرتر ہمارا
جب پاس رات رہنا آتا ہے یاد اس کا
تھمتا نہیں ہے رونا دو دو پہر ہمارا
اس کارواں سرا میں کیا میر بار کھولیں
یاں کوچ لگ رہا ہے شام و سحر ہمارا
میر تقی میر

اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا

دیوان اول غزل 74
غمزے نے اس کے چوری میں دل کی ہنر کیا
اس خانماں خراب نے آنکھوں میں گھر کیا
رنگ اڑ چلا چمن میں گلوں کا تو کیا نسیم
ہم کو تو روزگار نے بے بال و پر کیا
نافع جو تھیں مزاج کو اول سو عشق میں
آخر انھیں دوائوں نے ہم کو ضرر کیا
مرتا ہوں جان دیں ہیں وطن داریوں پہ لوگ
اور سنتے جاتے ہیں کہ ہر اک نے سفر کیا
کیا جانوں بزم عیش کہ ساقی کی چشم دیکھ
میں صحبت شراب سے آگے سفر کیا
جس دم کہ تیغ عشق کھنچی بوالہوس کہاں
سن لیجیو کہ ہم ہی نے سینہ سپر کیا
دل زخمی ہوکے تجھ تئیں پہنچا تو کم نہیں
اس نیم کشتہ نے بھی قیامت جگر کیا
ہے کون آپ میں جو ملے تجھ سے مست ناز
ذوق خبر ہی نے تو ہمیں بے خبر کیا
وہ دشت خوف ناک رہا ہے مرا وطن
سن کر جسے خضر نے سفر سے حذر کیا
کچھ کم نہیں ہیں شعبدہ بازوں سے مے گسار
دارو پلا کے شیخ کو آدم سے خر کیا
ہیں چاروں طرف خیمے کھڑے گردباد کے
کیا جانیے جنوں نے ارادہ کدھر کیا
لکنت تری زبان کی ہے سحر جس سے شوخ
یک حرف نیم گفتہ نے دل پر اثر کیا
بے شرم محض ہے وہ گنہگار جن نے میر
ابر کرم کے سامنے دامان تر کیا
میر تقی میر

کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 28
میں بھی کتنا سادہ مزاج تھا کہ یقیں گمان پہ کر گیا
کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
چلو یارِ وعدہ نواز سے کسی روز جا کے پتہ کریں
وہ جو اُس کے در کا اسیر تھا، اُسے کیا ہوا، وہ کدھر گیا
وہ شبِ عجیب گزر گئی، سو گزر گئی مگر اِس طرح
کہ سحر کا آئینہ دیکھ کر میں تو اپنے آپ سے ڈر گیا
تری آس کیا، کہ ہے ابر کا تو ہوا کے رُخ سے معاملہ
جو سنور گیا تو سنور گیا، جو بکھر گیا تو بکھر گیا
میری رہگزار میں رہ گئی یہی باز گشت صداؤں کی
کوئی بے نمود سا شخص تھا وُہ گزر گیا، وُہ گزر گیا
ہوئے منکشف مری آنکھ پر کئی اور زاویے دید کے
کوئی اشکِ ضبط اگر کبھی پسِ چشم آ کے ٹھہر گیا
آفتاب اقبال شمیم

پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 20
پھر آئنہِ عالم شاید کہ نکھر جائے
پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
صحرا پہ لگے پہرے اور قفل پڑے بن پر
اب شہر بدر ہو کر دیوانہ کدھر جائے
خاکِ رہِ جاناں پر کچھ خوں تھا گِرو اپنا
اس فصل میں ممکن ہے یہ قرض اتر جائے
دیکھ آئیں چلو ہم بھی جس بزم میں سنتے ہیں
جو خندہ بلب آئے وہ خاک بسر جائے
یا خوف سے در گزریں یا جاں سے گزر جائیں
مرنا ہے کہ جینا ہے اِک بات ٹھہر جائے
فیض احمد فیض

اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 179
خانۂ درد ترے خاک بہ سر آگئے ہیں
اب تو پہچان کہ ہم شام کو گھر آگئے ہیں
جان و دل کب کے گئے ناقہ سواروں کی طرف
یہ بدن گرد اڑانے کو کدھر آگئے ہیں
رات دن سوچتے رہتے ہیں یہ زندانیِ ہجر
اس نے چاہا ہے تو دیوار میں در آگئے ہیں
اس کے ہی ہاتھ میں ہے شاخِ تعلق کی بہار
چھو لیا ہے تو نئے برگ و ثمر آگئے ہیں
ہم نے دیکھا ہی تھا دُنیا کو ابھی اس کے بغیر
لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آگئے ہیں
اتنا آسان نہیں فیصلۂ ترکِ سفر
پھر مری راہ میں دو چار شجر آگئے ہیں
نیند کے شہر طلسمات میں دیکھیں کیا ہے
جاگتے میں تو بہت خواب نظر آگئے ہیں
عرفان صدیقی

آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 38
ہو چکا کھیل بہت جی سے گزر جانے کا
آج اقرار کریں زخم کے بھر جانے کا
ہم بھی زندہ تھے مسیحا نفسوں کے ہوتے
سچ تو یہ ہے کہ وہی وقت تھا مر جانے کا
بے سروکار فلک بے در و دیوار زمیں
سر میں سودا ہے مری جان کدھر جانے کا
ہم یہاں تک خس و خاشاک بدن کو لے آئے
آگے اب کوئی بھی موسم ہو بکھر جانے کا
کوئی دشوار نہیں شیوۂ شوریدہ سری
ہاں اگر ہے تو ذرا خوف ہے سر جانے کا
اب تلک بزم میں آنا ہی تھا اک کار ہنر
ہم نے آغاز کیا کار ہنر جانے کا
عرفان صدیقی

اڑتی ہوئی گرد پر نطر ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 238
کیسا رستہ ہے کیا سفر ہے
اڑتی ہوئی گرد پر نطر ہے
ڈسنے لگی فاختہ کی آواز
کتنی سنسان دوپہر ہے
آرام کریں کہ راستہ لیں
وہ سامنے اک گھنا شجر ہے
خود سے ملتے تھے جس جگہ ہم
وہ گوشۂ عافیت کدھر ہے
ایسے گھر کی بہار معلوم
جس کی بنیاد آگ پر ہے
باقی صدیقی

حادثے زاد سفر لے آئے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 185
سوز دل، زخم جگر لے آئے
حادثے زاد سفر لے آئے
دست گلچیں ہے کہ شاخ گل ہے
جب اٹھے اک گل تر لے آئے
ننگ ہستی ہے سکوت ساحل
کوئی طوفاں کو ادھر لے آئے
اپنی حالت نہیں دیکھی جاتی
ہم کو حالات کدھر لے آئے
تجھ سے مل کر بھی نہ تجھ کو پایا
غم بہ انداز دگر لے آئے
زندگی اس کی ہے جو دنیا کو
زندگی دے کے نظر لے آئے
دامن لالۂ گل سے باقیؔ
مل سکے جتنے شرر لے آئے
باقی صدیقی

وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 155
اٹھ کر مری نظر ترے رُخ پہ ٹھہر گئی
وہ سیر رنگ و بو کی تمنا کدھر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر منظر حیات
اک زخم کھا کے آئی جدھر بھی نظر گئی
تیرے بغیر رنگ نہ آیا بہار میں
اک اک کلی کے پاس نسیم سحر گئی
شبنم ہو، کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں
جو شے تمہارے سامنے آئی نکھر گئی
ہر چند میرے غم کا مداوا نہ ہو سکا
پھر بھی تری نگاہ بڑا کام کر گئی
وارفتگان شوق کا باقیؔ نہ حال پوچھ
دل سے اٹھی وہ موج کہ سر سے گزر گئی
باقی صدیقی

کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 85
کیا دور جہاں سے ڈر گئے ہم
کیوں تجھ سے گریز کر گئے ہم
حیرت ہے کہ سامنے سے تیرے
غیروں کی طرح گزر گئے ہم
وہ دور بھی زندگی میں آیا
محسوس ہوا کہ مر گئے ہم
اے دشت حیات کے بگولو
ڈھونڈو تو سہی کدھر گئے ہم
آئی یہ کدھر سے تیری آواز
چلتے چلتے ٹھہر گئے ہم
گزری ہے صبا قفس سے ہو کے
لینا غم بال و پر گئے ہم
ساحل کا مرحلہ ہے باقیؔ
طوفاں سے تو پار اتر گئے ہم
باقی صدیقی

جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 36
لے گیا بچا کر وہ دل کے ساتھ سر اپنا
جس نے تیرے ایما پر طے کیا سفر اپنا
زندگی کے ہنگامے دھڑکنوں میں ڈھلتے ہیں
خواب میں بھی سنتے ہیں شور رات بھر اپنا
دل کے ہر دریچے میں جھانکتے ہیں کچھ چہرے
خود کو راہ میں پایا رُخ کیا جدھر اپنا
کون کس سے الجھا ہے، ایک شور برپا ہے
جا رہاہے دیکھو تو قافلہ کدھر اپنا
خیر ہو ترے غم کی شام ہونے والی ہے
اور کر لیا ہم نے ایک دن بسر اپنا
رنگ زندگی دیکھا کچھ یہاں وہاں باقیؔ
غم غلط کیا ہم نے کچھ اِدھر اُدھر اپنا
باقی صدیقی