ٹیگ کے محفوظات: کب

اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے


قدغن لگی ہے سوچ پہ اور لَب سلے ہوئے
اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے
نکلا ہوں کتنے زعم سے دُنیا کے سامنے
پہنے ہوئے یہ چیتھڑے بے ڈَھب سلے ہوئے
صدیوں کی گھاٹیوں میں یہ لمحوں کی مشعلیں
گہرے فلک پہ اختر و کوکب سلے ہوئے
مشکل کہاں ہے میرے سوالوں کو بوجھنا
سادہ ہیں ان حروف میں مطلب سلے ہوئے
آنکھوں میں سُرخ ڈوریاں عمروں سے ساتھ تھیں
اس دِل کے زخم پھر بھی رہے کب سلے ہوئے
جُوں جُوں چمن میں سُرخی پروتی گئی بہار
کھلتے گئے ہیں گھاؤ مرے سب سلے ہوئے
ایسا بیاں کا زور کیا تھا اگر عطا
کیوں ہونٹ دے دئیے مجھے یا رب سلے ہوئے
یاور ماجد

کیوں شام ہی سے بُجھ گئے محفل کے سب چراغ

روشن ہیں دل کے داغ،نہ آنکھوں کے شب چراغ
کیوں شام ہی سے بُجھ گئے محفل کے سب چراغ
وہ دن نہیں ‘ کرن سے کرن میں لگے جو آگ
وہ شب کہاں ‘ چراغ سے جلتے تھے جب چراغ
تِیرہ ہے خاکداں ‘ تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دستِ طلب چراغ
روشن ضمیر آج بھی ظلمت نصیب ہیں
تم نے دیے ہیں پوچھ کے نام و نسب چراغ
وہ تیرگی ہے دشتِ وفا میں کہ اَلامَاں !
چمکے جو موجِ ریگ تو پائے لقب چراغ
دن ہو اگر‘ تو رات سے تعبیر کیوں کریں
سورج کو اہلِ ہوش دکھاتے ہیں کب چراغ
اے بادِ تُند! وضع کے پابند ہم بھی ہیں
پتھر کی اوٹ لے کے جلائیں گے اب چراغ
شکیب جلالی

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

رگوں میں رقص کناں موجہِ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

لوگ رخصت ہوے کب یاد نہیں

سفرِ منزلِ شب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوے کب یاد نہیں
اوّلیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں
دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں
وہ ستارا تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں
کیسی ویراں ہے گزرگاہِ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں
بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں
ایسا اُلجھا ہوں غمِ دنیا میں
ایک بھی خوابِ طرب یاد نہیں
رشتۂ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اُس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں
یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں
یاد ہے سیرِ چراغاں ناصرؔ
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں
ناصر کاظمی

مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
بہت یاد آؤں گا ہر شخص کو جب میں نہیں ہوں گا
مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا
مری قامت نہیں تسلیم جن بَونوں کو اب، وہ بھی
دلائیں گے مجھے کیا کیا نہ منصب، میں نہیں ہوں گا
سحر پھوٹے گی آخر جگنوؤں سے میرے حرفوں کے
یہ ہو گا پر ہُوا جب اس طرح تب میں نہیں ہوں گا
نہ جانیں گے خمیر اِس کا اٹھا کن تلخیوں سے تھا
مرا شیریں سخن دہرائیں گے سب میں نہیں ہوں گا
یقیں ہے انتقاماً جب مجھے ظلمت نگل لے گی
مرے فکر و نظر ٹھہریں گے کوکب میں نہیں ہوں گا
جتانے کو مری بے چینیاں آتے زمانوں تک
پسِ ہر حرف دھڑکیں گے مرے لب میں نہیں ہوں گا
ملا جو صرف، فن ہو کر مجھے اظہار کا ، ماجِد
سبھی ترسیں گے اپنانے کو وہ ڈھب میں نہیں ہوں گا
ماجد صدیقی

حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
ہم نے اُتارا جس دم مرکب دریا میں
حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں
جب سے کنارے اُس کے تُجھ سے ملن ٹھہرا
اُترے آس کے کیا کیا کوکب دریا میں
ہر تنکے ہر پیڑ کو جو جتلاتا تھا
زور نہیں وہ پہلا سا اب دریا میں
ہاتھ میں چپّو تان لئے تو ڈرنا کیا
عمر کٹے یا کٹ جائے شب دریا میں
رنج نظر کا آخر آنکھ میں تیرے گا
لاش دبی رہتی ہے بھلا کب دریا میں
چاہت نے اسباب نہ دیکھے تھے ماجدؔ
کھُرتی خاک لئے اُتری جب دریا میں
ماجد صدیقی

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 80
رگوں میں رقص کناں موجہِٗ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 67
مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 70
رہ جائے کیوں نہ ہجر میں جاں آ کے لب تلک
ہم آرزوئے بوسہ بہ پیغام اب تلک
کہتے ہیں بے وفا مجھے میں نے جو یہ کہا
مرتے رہیں گے آپ پہ، جیتے ہیں جب تلک
تمکینِ حسن ہے کہ نہ بے تاب ہو سکا
خلوت میں بھی کوئی قلقِ بے ادب تلک
آ جائے کاش موت ہی تسکیں نہ ہو، نہ ہو
ہر وقت بے قرار رہے کوئی کب تلک
وہ چشمِ التفات کہاں اب جو اس طرف
دیکھیں، کہ ہے دریغ نگاہِ غضب تلک
ایسے کریم ہم ہیں کہ دیتے ہیں بے طلب
پہنچاؤ یہ پیام اجلِ جاں طلب تلک
مایوس لطف سے نہ کر اے دشمنی شعار
امید سے اٹھاتے ہیں ہم جور اب تلک
یاں عجزِ بے ریا ہے نہ واں نازِ دل فریب
شکرِ بجا رہا گلۂ بے سبب تلک
ایسی ہی بے قراری رہی متصل اگر
اے شیفتہ ہم آج نہیں بچتے شب تلک
مصطفٰی خان شیفتہ

گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 26
میں وصل میں بھی شیفتہ حسرت طلب رہا
گستاخیوں میں بھی مجھے پاسِ ادب رہا
تغییر وضع کی ہے اشارہ وداع کا
یعنی جفا پہ خو گرِ الطاف کب رہا
میں رشک سے چلا تو کہا بے سبب چلا
اس پر جو رہ گیا تو کہا، بے سبب رہا
دم بھر بھی غیر پر نگہِ لطف کیوں ہے اب
اک عمر میں ستم کشِ چشمِ غضب رہا
تھا شب تو آہ میں بھی اثر، جذبِ دل میں بھی
کیوں کر نہ آئے شیفتہ مجھ کو عجب رہا
مصطفٰی خان شیفتہ

شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 68
شکل بھی اک رنگ کی ہو، رنگ کی شب، ہم نفسو
شوق کا وہ رنگ بدن آئے گا کب، ہم نفسو
جب وہ دل و جانِ ادا ہو گا یہاں نشہ فزا
میری ادائیں بھی ذرا دیکھیو تب، ہم نفسو
تم سے ہو وہ عذر کناں، مجھ سے ہو وہ شکوہ کناں
اور میں خود مست رہوں، بات ہے جب، ہم نفسو
شعلہ بسی سے ہے سخن، معنیِ بالائے سخن
اور سخن سوز بھی ہے شعلہ لب، ہم نفسو
آج ہے سوچو تو ذرا، کس کی یہاں منتظری
رقصِ طرف ہم نفسو، شورِ طرف ہم نفسو
اس کی مری دید کا اک طور کہو، کچھ بھی کہو
کیا کہوں میں، کیسے کہوں، ہے وہ عجب، ہم نفسو
نیم شبی کی ہے فضا، ہم بھی ابھی ہوش میں ہیں
اس کو جو آنا ہے تو پھر آئے بھی، ہم نفسو
اپنے سے ہر پل ہیں پرے، ہم ہیں کہاں اپنے در پے
کیسی تمنا نفسی، کس کی طلب ہم نفسو
جون ایلیا

آتش کا ایسا لائحہ کب ہے زباں دراز

دیوان پنجم غزل 1628
سرکش ہے تندخو ہے عجب ہے زباں دراز
آتش کا ایسا لائحہ کب ہے زباں دراز
پروانہ تیری چرب لساں سے ہوا ہلاک
ہے شمع تو تو کوئی غضب ہے زباں دراز
میر تقی میر

سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا

دیوان پنجم غزل 1565
دل کے خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا
اس کی مقتولی کا ہم کو رشک ہے
دو قدم جو کشتہ آگے سب سے تھا
کون مل سکتا ہے اس اوباش سے
اختلاط اس سے ہمیں اک ڈھب سے تھا
گرم ملنے والے دیکھے یار کے
ایک ٹھنڈا ہو گیا اک تب سے تھا
چپ سی مجھ کو لگ گئی تھی تب سے میر
شور ان شیریں لبوں کا جب سے تھا
میر تقی میر

حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف

دیوان چہارم غزل 1414
آج ہمارا سر پھرتا ہے باتیں جتنی سب موقوف
حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف
کس کو دماغ رہا ہے یاں آٹھ پہر کی منت کا
ربط اخلاص سے دن گذرے ہے خلطہ اس سے سب موقوف
اس کی گلی میں آمد و شد کی گھات ہی میں ہم رہتے تھے
اب جو شکستہ پا ہو بیٹھے ڈھب کرنے کے ڈھب موقوف
وہ جو مانع ہو تو کیا ہے شوق کمال کو پہنچا ہے
وقفہ ہو گا تب ملنے میں ہم بھی کریں گے جب موقوف
حلقے پڑے ہیں چشم تر میں سوکھے ایسے تم نہ رہے
رونا کڑھنا عشق میں اس کے میر کروگے کب موقوف
میر تقی میر

جا چکا ہوں جہان سے کب کا

دیوان چہارم غزل 1316
رفتۂ عشق کیا ہوں میں اب کا
جا چکا ہوں جہان سے کب کا
لوگ جب ذکر یار کرتے ہیں
دیکھ رہتا ہوں دیر منھ سب کا
مست رہتا ہوں جب سے ہوش آیا
میں بھی عاشق ہوں اپنے مشرب کا
ہم تو ناکام ہی چلے یاں سے
تم کو ہو گا وصول مطلب کا
درس کہیے جنوں کا تو مجنوں
اپنے آگے ہے طفل مکتب کا
لعل کی بات کون سنتا ہے
شور ہے زور یار کے لب کا
زلف سا پیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا
میر تقی میر

ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے

دیوان سوم غزل 1308
قصر و مکان و منزل ایکوں کو سب جگہ ہے
ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے
اس کے بدن میں ہر جا دلکش ہے یوں و لیکن
یا سطح رخ جگہ ہے یا کنج لب جگہ ہے
پست و بلندیاں ہیں ارض و سما سے ظاہر
دیکھا جہاں کو ہم نے کتنی کڈھب جگہ ہے
دروازے سے لگے ہم تصویر سے کھڑے ہیں
وارفتگاں کو اس کی مجلس میں کب جگہ ہے
بارے ادھر کیا ہے منھ ان نے میر اپنا
ہو حرف زن سخن کی تیرے بھی اب جگہ ہے
میر تقی میر

جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے

دیوان سوم غزل 1284
برق و شرار و شعلہ و پروانہ سب ہیں یے
جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے
لے موے سر سے ناخن پا تک بھری ہے آگ
جلتے ہیں دردمند پہ جلتے کڈھب ہیں یے
ہوتا ہے دل کا حال عجب غم سے اس گھڑی
کہتا ہے جب وہ طنز سے ہم کو عجب ہیں یے
آتی ہے گرم باد صبا اس کی اور سے
اپنے جگر کے جلنے کے بارے سبب ہیں یے
غربت پہ مہرباں ہوئے میری سو یہ کہا
ان کو غریب کوئی نہ سمجھے غضب ہیں یے
فرہاد و قیس کے گئے کہتے ہیں اب یہ لوگ
رکھے خدا سلامت انھوں کو کہ اب ہیں یے
سید ہیں میر صاحب و درویش و دردمند
سر رکھیے ان کے پائوں پہ جاے ادب ہیں یے
میر تقی میر

آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا

دیوان سوم غزل 1069
جس خشم سے وہ شوخ چلا آج شب آیا
آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا
اس نرگس مستانہ کو کر یاد کڑھوں ہوں
کیا گریۂ سرشار مجھے بے سبب آیا
راہ اس سے ہوئی خلق کو کس طور سے یارب
ہم کو کبھی ملنے کا تو اس کے نہ ڈھب آیا
کیا پوچھتے ہو دب کے سخن منھ سے نہ نکلا
کچھ دیکھتے اس کو مجھے ایسا ادب آیا
کہتے تو ہیں میلان طبیعت ہے اسے بھی
یہ باتیں ہیں ایدھر کو مزاج اس کا کب آیا
خوں ہوتی رہی دل ہی میں آزردگی میری
کس روز گلہ اس کا مرے تابہ لب آیا
جی آنکھوں میں آیا ہے جگر منھ تئیں میرے
کیا فائدہ یاں چل کر اگر یار اب آیا
آتے ہوئے اس کے تو ہوئی بے خودی طاری
وہ یاں سے گیا اٹھ کے مجھے ہوش جب آیا
جاتا تھا چلا راہ عجب چال سے کل میر
دیکھا اسے جس شخص نے اس کو عجب آیا
میر تقی میر

بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم

دیوان دوم غزل 858
محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم
بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم
تدبیریں کریں اپنے تن زار و زبوں کی
افراط سے اندوہ کی ہوں آپ میں جب ہم
تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ
اس جنس گراں مایہ سے گذرے نہیں کب ہم
یک سلسلہ ہے قیس کا فرہاد کا اپنا
جوں حلقۂ زنجیر گرفتار ہیں سب ہم
کس دن نہ ملا غیر سے تو گرم علی الرغم
رہتے ہیں یوں ہی لوٹتے انگاروں پہ شب ہم
مجمع میں قیامت کے اک آشوب سا ہو گا
آنکلے اگر عرصے میں یوں نالہ بلب ہم
کیا معرفت اس سے ہوئی یاروں کو نہ سمجھے
اب تک تو نہیں پاتے ہیں کچھ یار کے ڈھب ہم
گہ نوچ لیا منھ کو گہے کوٹ لی چھاتی
دل تنگی ہجراں سے ہیں مغلوب غضب ہم
آغاز محبت میں تمامی ہوئی اپنی
اے واے ہوئے خاک بسر راہ طلب ہم
تربت سے ہماری نہ اٹھی گرد بھی اے میر
جی سے گئے لیکن نہ کیا ترک ادب ہم
میر تقی میر

مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور

دیوان دوم غزل 812
نئے طور سیکھے نکالے ڈھب اور
مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور
ادا کچھ ہے انداز کچھ ناز کچھ
تہ دل ہے کچھ اور زیر لب اور
لب سرخ کو ٹک دکھاتے نہیں
طرح پان کھانے کی تھی کچھ جب اور
نہ گرمی نہ جوشش نہ اب وہ تپاک
تکلف نہیں اس میں تھے تم تب اور
زمانہ مرا کیونکے یکساں رہے
اٹھاویں گے تیرے ستم یہ کب اور
جدا اتفاقاً رہا ایک میر
وگرنہ ملے یوں تو اس سے سب اور
میر تقی میر

جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا

دیوان دوم غزل 738
حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا
جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا
کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں ہے
یہ وجہ ہے کہ عارف منھ دیکھتا ہے سب کا
نسبت درست جس کی اس رو و مو سے پائی
ہے درہم اور برہم حال اس کے روز و شب کا
افسوس ہے نہیں تو انصاف دوست ورنہ
شایان لطف دشمن شائستہ میں غضب کا
سودائی ایک عالم اس کا بنا پھرے ہے
ہر چند عزلتی ہے وہ خال کنج لب کا
منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں
اب ہاتھ سے دیا ہے سررشتہ میں ادب کا
کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے
منھ ان نے اس طرف سے پھیرا ہے میر کب کا
میر تقی میر

مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے

دیوان اول غزل 590
دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے
ہنگامہ میری نعش پہ تیری گلی میں ہے
لے جائیں گے جنازہ کشاں یاں سے کب مجھے
ٹک داد میری اہلمحلہ سے چاہیو
تجھ بن خراب کرتے رہے ہیں یہ سب مجھے
طوفاں بجاے اشک ٹپکتے تھے چشم سے
اے ابر تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے
دو حرف اس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب
قاصد چلا ہے چھوڑ کے تو جاں بلب مجھے
کچھ ہے جواب جو میں کروں حشر کو سوال
مارا تھا تونے جان سے کہہ کس سبب مجھے
غیراز خموش رہنے کہ ہونٹوں کے سوکھنے
لیکن نہیں ہے یار جھگڑنے کا ڈھب مجھے
پوچھا تھا راہ جاتے کہیں ان نے میر کو
آتا ہے اس کی بات کا اب تک عجب مجھے
میر تقی میر

بے قراری کو جانے تب کوئی

دیوان اول غزل 455
مجھ سا بیتاب ہووے جب کوئی
بے قراری کو جانے تب کوئی
ہاں خدا مغفرت کرے اس کو
صبر مرحوم تھا عجب کوئی
جان دے گو مسیح پر اس سے
بات کہتے ہیں تیرے لب کوئی
بعد میرے ہی ہو گیا سنسان
سونے پایا تھا ورنہ کب کوئی
اس کے کوچے میں حشر تھے مجھ تک
آہ و نالہ کرے نہ اب کوئی
ایک غم میں ہوں میں ہی عالم میں
یوں تو شاداں ہے اور سب کوئی
ناسمجھ یوں خفا بھی ہوتا ہے
مجھ سے مخلص سے بے سبب کوئی
اور محزوں بھی ہم سنے تھے ولے
میر سا ہوسکے ہے کب کوئی
کہ تلفظ طرب کا سن کے کہے
شخص ہو گا کہیں طرب کوئی
میر تقی میر

جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی

دیوان اول غزل 441
گئی چھائوں اس تیغ کی سر سے جب کی
جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی
پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی
کوئی بات نکلے ہے دشوار منھ سے
ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بلب کی
تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ
ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی
یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے
بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی
دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں
ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی
تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گذری
تری راہ میں اپنے پاے طلب کی
دل عرش سے گذرے ہے ضعف میں بھی
یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی
عجب کچھ ہے گر میر آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
میر تقی میر

کر جائوں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک

دیوان اول غزل 257
بالیں پہ میری آوے گا تو گھر سے جب تلک
کر جائوں گا سفر ہی میں دنیا سے تب تلک
اتنا دن اور دل سے طپش کرلے کاوشیں
یہ مجہلہ تمام ہی ہے آج شب تلک
نقاش کیونکے کھینچ چکا تو شبیہ یار
کھینچوں ہوں ایک ناز ہی اس کا میں اب تلک
شب کوتہ اور قصہ مری جان کا دراز
القصہ اب کہا کروں تجھ سے میں کب تلک
باقی یہ داستان ہے اور کل کی رات ہے
گر جان میری میر نہ آپہنچے لب تلک
میر تقی میر

کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

دیوان اول غزل 186
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
کس کا روے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات
ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات
کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات
گو کہ آتش زباں تھے آگے میر
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات
میر تقی میر

کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات

دیوان اول غزل 181
روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آپھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
یک بار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بخود بھی
کچھ لطف اٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میر کو مل آیئے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
میر تقی میر

نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 35
تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے
طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارۂ سحری ہم کلام کب سے ہے
بمبئی
فیض احمد فیض

نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 33
تری امید، ترا انتظار جب سے ہے
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم
گلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے
ہوا ہے جب سے دلِ ناصبور بے قابو
کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
کہاں گئے شبِ فرقت کے جاگنے والے
ستارہء سحری ہمکلام کب سے ہے
لاہور
فیض احمد فیض

آپ گئے ہیں جب سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 206
روٹھ گیا دل سب سے
آپ گئے ہیں جب سے
پہروں سونے والے
جاگ رہے ہیں کب سے
تاریکی، سناٹا
توبہ ایسی شب سے
کون وفا کا پیکر!
ہم واقف ہیں سب سے
غم ہی غم دیکھا ہے
آنکھ کھلی ہے جب سے
ہم مجرم ہیں لیکن
بات تو کیجے ڈھب سے
کیا لینا، کیا دینا
ہنس کر ملئے سب سے
بات کرو کچھ باقیؔ
چپ بیٹھے ہو کب سے
باقی صدیقی

اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 160
بے کلی بے سبب نہیں ہوتی
اتنی لمبی تو شب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلہ کریں غم سے
آپ سے بھول کب نہیں ہوتی
کھل کے باتیں کرو کہ اب ہم سے
گفتگو زیر لب نہیں ہوتی
دل کی حالت عجیب ہوتی ہے
کوئی امید جب نہیں ہوتی
ہر نئے حادثے پہ حیرانی
پہلے ہوتی تھی اب نہیں ہوتی
ہم کہاں تک گلے کریں باقیؔ
وہ نظر دور کب نہیں ہوتی
کوئی باقیؔ سنے سنے نہ سنے
داستاں ختم اب نہیں ہوتی
باقی صدیقی

ہم جانے کہاں رہے ہیں اب تک

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 99
پہچان سکے نہ تیرے ڈھب تک
ہم جانے کہاں رہے ہیں اب تک
کیا کیا تھے اصول زندگی کے
مشکل نہ پڑی تھی کوئی جب تک
وہ بات بھی رائیگاں گئی ہے
آئی جو بصد حجاب لب تک
آئے نہ خیال میں کسی کے
ہم بیٹھے رہے خموش کب تک
کیوں زیست کے منتظر ہو باقیؔ
آتا نہیں یہ پیام سب تک
باقی صدیقی