ٹیگ کے محفوظات: کبھی

گرچہ دنیا کا یہ حق ہے ابھی تم کو دیکھے

ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی تم کو دیکھے
گرچہ دنیا کا یہ حق ہے ابھی تم کو دیکھے
دیکھنا ہے تو وہ دیکھے تمہیں سر تا بہ قدم
ورنہ کیا دیکھنا گر سرسری تم کو دیکھے
تم ہو اک چاند، میں اک جگنو، تمہیں کیا معلوم
کتنی حسرت سے مری روشنی تم کو دیکھے
جس نے دیکھی نہیں برسات میں پانی کی ہنسی
اس کا تو حق ہے کہ آئے۔۔ کبھی تم کو دیکھے
تم ہوئی جاتی ہو معدوم کسی زندگی میں
اور اک زندگی! اک زندگی۔۔ تم کو دیکھے
دیکھ کے تم کو پرندے ہیں سناتے نغمے
کیا ہو یاؔور کی اگر شاعری!! تم کو دیکھے
یاور ماجد

کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا

نہ پورا چاند گھٹ جائے، اسی لمحے! ابھی تھم جا
کہاں جاتی ہے اس رفتار سے، اے روشنی! تھم جا
عذابِ جاں بنی ہے تیری ٹک ٹک اے گھڑی! تھم جا
مرے حلقوم پر چلتی ہوئی میٹھی چھری! تھم جا
مجھے کچھ سانس لینے دے، مجھے کچھ سانس لینے دے
مری آوارگی تھم جا! مری آوارگی تھم جا
کسی دریا سے ہو کر بحر میں مٹ جائے گی آخر
اسی وادی میں بہتی رہ، اری پیاری ندی! تھم جا
امر کرنے کو ہے دیکھو کرن کو بوند پانی کی
یہ لمحہ پھر نہیں آنا، یہیں پر روشنی! تھم جا
اسی امید پر چلتا رہا انجان رستوں پر
کوئی مجھ کو پکارے گا کہ تھم جا۔۔ اجنبی، تھم جا
یہ گردش شش جہت کی تو کبھی تھمتی نہیں یاؔور
تو پھر اے گردشِ دوراں ذرا تو ہی کبھی تھم جا!
یاور ماجد

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں

گدائے حرف ہوں مجھے کسی پہ برتری نہیں
یہ منتہائے علم ہے جناب، عاجزی نہیں
جسے سمجھ رہے ہو آگہی، فسونِ جہل ہے
جسے چراغ کہہ رہے ہو اس میں روشنی نہیں
تمہیں خبر کہاں کہ لطف کیسا درگزر میں ہے
مجھے کسی سے کچھ گلہ نہیں ہے، واقعی نہیں
کبھی تو اپنے آپ میں گزار چند ساعتیں
یقین کر کہ اپنے وصل سی کوئی خوشی نہیں
جو میں کشادہ ذہن ہوں تو فضلِ ربِؔ علم ہے
خدا کا شکر ہے کہ میری فکر کھوکھلی نہیں
اگر میں بددماغ ہوں تو مجھ سے مت ملا کرو
منافقوں سے یوں بھی میری آج تک بنی نہیں
بچھڑتے وقت اُن لبوں پہ ان گنت سوال تھے
میں صرف اتنا کہہ سکا، نہیں نہیں، ابھی نہیں
اسی لیے کہا تھا تم سے ہر کسی کی مت سنو
ہمارے بیچ میں وہ بات آگئی جو تھی نہیں
میں خواب میں بھی جانتا تھا، خواب ہے، اِسی لیے
وہ جارہا تھا اور میری آنکھ تک کھُلی نہیں
نہ شوق آوری کا دن، نہ حال پروری کی شب
یہ زندگی تو ہے مگر مرے مزاج کی نہیں
ترا سلوک مجھ کو یہ بتا رہا ہے آج کل
جو مجھ میں ایک بات تھی، وہ بات اب رہی نہیں
کوئی تو شعر ہو وفور و کیفیت میں تربتر
سخن کی پیاس سے بڑی کوئی بھی تشنگی نہیں
تو کیا بچھڑتے وقت کچھ گلے بھی تم سے تھے مجھے
تمہی کو یاد ہوں تو ہوں، مجھے تو یاد بھی نہیں
قبائے رنگ سے اُدھر بلا کا اک طلسم تھا
نجانے کتنی دیر میں نے سانس تک تو لی نہیں
تمام زاویوں سے بات کر چکا، تو پھر کھُلا
یہ عشق وارداتِ قلب ہے جو گفتنی نہیں
کچھ اس قدار گداز ہوچکا ہے دل، کہ اس میں اب
نگاہِ التفات جھیلنے کی تاب ہی نہیں
ہجومِ بد کلام جا رہا ہے دوسری طرف
میں اِس طرف کو چھوڑ کر اُدھر چلوں، کبھی نہیں
مری غزل پہ داد دے رہے ہو، تعزیت کرو
مرے جگر کا خون ہے میاں، یہ شاعری نہیں
مرا سخی کبھی بھی مجھ کو پرسوال کیوں کرے
فقیرِ راہِ عشق ہوں، مجھے کوئی کمی نہیں
سنو بغور یہ غزل، کہ پھر بہت سکوت ہے
اگرچہ لگ رہا ہے یہ غزل بھی آخری نہیں
عرفان ستار

اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی

سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی
کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی
مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی
میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے گی کبھی
میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جائے گا تو بھی
ایسی جلدی بھی کیا، چلے جانا
مجھے اِک بات پوچھنی ہے ابھی
آ بھی جا میرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی
ناصر کاظمی

رات نیند آ گئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا اُفق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مینہ جو برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم اِدھر گھر میں ہو گئے بے چین
دُور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتی ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجنبی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دُور
جا کے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اُداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اُس کی تیز آنکھوں سے
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اُجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہلِ چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
ناصر کاظمی

سہل اُس نے ہی کی مری مشکل

آزمانے کو جس نے دی مشکل
سہل اُس نے ہی کی مری مشکل
زندگی تو اِسی طرح سے ہے
کبھی آسان اور کبھی مشکل
میرے معمول کے ملاقاتی
کوئی چھوٹی کوئی بڑی مشکل
جو تمہارے لیے سہولت ہے
وہ ہمارے لیے بنی مشکل
چھوڑ آیا تھا میں جسے پیچھے
سامنے ہے مرے وہی مشکل
یوں تو آرام ہر طرح کا ہے
رات سونے میں کچھ ہوئی مشکل
باصر کاظمی

ظالم کا بس چلے تو سدا رات ہی رہے

جور و ستم کی اُس کے سیاہی چھپی رہے
ظالم کا بس چلے تو سدا رات ہی رہے
چاہی تھی زندگی کے لیے کوئی آرزو
اب آرزو یہی ہے کہ بس زندگی رہے
اب چاہے دربدر ہی پھریں ہم تمام عمر
کافی ہے یہ کہ دل میں تمہارے کبھی رہے
یہ اور بات ہے کہ ہمیں کو سزا ملی
گرچہ شریکِ جرمِ تمنا سبھی رہے
باصر کاظمی

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 60
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 51
طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 83
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی
ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی
اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی
شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی
بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی
اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی
پروین شاکر

کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 15
بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارا سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا
ایسے سے جو داغ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
داغ دہلوی

یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 14
اب دل ہے مقام بے کسی کا
یوں گھر نہ تباہ ہو کسی کا
کس کس کو مزا ہے عاشقی کا
تم نام تو لو بھلا کسی کا
پھر دیکھتے ہیں عیش آدمی کا
بنتا جو فلک میر خوشی کا
گلشن میں ترے لبوں نے گویا
رس چوم لیا کلی کلی کا
لیتے نہیں بزم میں مرا نام
کہتے ہیں خیال ہے کسی کا
جیتے ہیں کسی کی آس پر ہم
احسان ہے ایسی زندگی کا
بنتی ہے بری کبھی جو دل پر
کہتا ہوں برا ہو عاشقی کا
ماتم سے مرے وہ دل میں خوش ہیں
منہ پر نہیں نام بھی ہنسی کا
اتنا ہی تو بس کسر ہے تم میں
کہنا نہیں مانتے کسی کا
ہم بزم میں ان کی چپکے بیٹھے
منہ دیکھتے ہیں ہر آدمی کا
جو دم ہے وہ ہے بسا غنیمت
سارا سودا ہے جیتے جی کا
آغاز کو کون پوچھتا ہے
انجام اچھا ہو آدمی کا
روکیں انہیں کیا کہ ہے غنیمت
آنا جانا کبھی کبھی کا
ایسے سے جو داگ نے نباہی
سچ ہے کہ یہ کام تھا اسی کا
داغ دہلوی

تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں‌ کمی نہ کرنا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 10
ستم ہے کرنا جفا ہے کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں‌ کمی نہ کرنا
ہماری میت پہ تم جو آنا تو چار آنسو گرا کے جانا
ذرا رہے پاس آبرو بھی کہیں ہماری ہنسی نہ کرنا
کہاں کا آنا کہاں کا جانا وہ جانتے ہی نہیں‌ یہ رسمیں
وہاں ہے وعدے کی بھی یہ صورت کبھی تو کرنا کبھی نہ کرنا
لیئے تو چلتے ہیں‌حضرت دل تمہیں بھی اس انجمن میں‌لیکن
ہمارے پہلو میں‌بیٹھ کر تم ہمیں سے پہلو تہی نہ کرنا
نہیں ہے کچھ قتل انکا آسان یہ سخت جان ہیں‌ بڑے بلا کے
قضا کو پہلے شریک کرنا یہ کام اپنے خوشی نہ کرنا
داغ دہلوی

وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 184
گنوائی کس کی تمنا میں زندگی میں نے
وہ کون تھا جسے دیکھا نہیں کبھی میں نے
ترا خیال تو ہے پر ترا وجود نہیں
ترے لئے تو یہ محفل سجائی تھی میں نے
ترے عدم کو گوارا نہ تھا وجود مرا
سو اپنی بیخ کنی میں کمی نہ کی میں نے
ہیں تیری ذات سے منسوب صد فسانہ ءِ عشق
اور ایک سطر بھی اب تک نہیں لکھی میں نے
خود اپنے عشوہ و انداز کا شہید ہوں میں
خود اپنی ذات سے برتی ہے بے رخی میں نے
مرے حریف مری یکہ تازیوں پہ نثار
تمام عمر حلیفوں سے جنگ کی میں نے
خراشِ نغمہ سے سینہ چھلا ہوا میرا
فغاں کہ ترک نہ کی نغمہ پروری میں نے
دوا سے فائدہ مقصود تھا ہی کب کہ فقط
دوا کے شوق میں صحت تباہ کی میں نے
زبانہ زن تھا جگر سوز تشنگی کا عذاب
سو جوفِ سینہ میں دوزخ انڈیل لی میں نے
سرورِ مے پہ بھی غالب رہا شعور مرا
کہ ہر رعایتِ غم ذہن میں رکھی میں نے
غمِ شعور کوئی دم تو مجھ کو مہلت دے
تمام عمر جلایا ہے اپنا جی میں نے
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں
وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
رہا میں شاہدِ تنہا نشینِ مسندِ غم
اور اپنے کربِ انا سے غرض رکھی میں نے
جون ایلیا

اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ

دیوان دوم غزل 847
کیا عشق خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ
اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
گلشن بھرا ہے لالہ و گل سے اگرچہ سب
پر اس بغیر اپنے تو بھائیں لگی ہے آگ
پائوں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام
ہر گام راہ عشق میں گویا دبی ہے آگ
جل جل کے سب عمارت دل خاک ہو گئی
کیسے نگر کو آہ محبت نے دی ہے آگ
اب گرم و سرد دہر سے یکساں نہیں ہے حال
پانی ہے دل ہمارا کبھی تو کبھی ہے آگ
کیونکر نہ طبع آتشیں اس کی ہمیں جلائے
ہم مشت خس کا حکم رکھیں وہ پری ہے آگ
کب لگ سکے ہے عشق جہاں سوز کو ہوس
ماہی کی زیست آب سمندر کا جی ہے آگ
روز ازل سے آتے ہیں ہوتے جگر کباب
کیا آج کل سے عشق کی یارو جلی ہے آگ
انگارے سے نہ گرتے تھے آگے جگر کے لخت
جب تب ہماری گود میں اب تو بھری ہے آگ
یارب ہمیشہ جلتی ہی رہتی ہیں چھاتیاں
یہ کیسی عاشقوں کے دلوں میں رکھی ہے آگ
افسردگی سوختہ جاناں ہے قہر میر
دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ
میر تقی میر

یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 59
خوشی کی آسر دلا کے خوشی نہیں دیتے
یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
ذرا سی دھوپ کھلے کشتِ اس پر میں جیسے
یہ قہقہے بھی کچھ آسودگی نہیں دیتے
وہ مانگتے ہیں وہ اہلیتیں جو ہم میں نہیں
اسی لئے تو ہمیں نوکری نہیں دیتے
ہمیشہ رکھتے ہیں روشن ستارہ ایک نہ ایک
وہ میری شب کو بہت تیرگی نہیں دیتے
بنا تو سکتے ہیں ہم بھی زمیں پہ خلد مگر
یہ اختیار ہمیں آدمی نہیں دیتے
اسی لئے ہمیں مرنا پڑا، کہ اہلِ جفا
محبتوں میں رعایت کبھی نہیں دیتے
آفتاب اقبال شمیم

پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 13
کرے ہے آنکھ کے گوشوں کی تیرگی روشن
پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
تمام صحن شبِ یاد جگمگا اُٹھا
ہوئی جو آنکھ میں اشکوں کی پھلجھڑی روشن
تو کیا چراغ ہوں میں طاقِ روزمرہ کا
کبھی بجھا ہوا ہوتا ہوں اور کبھی روشن
سرور دینے لگا ہے مجھے اندھیرا بھی
لگے کہ اُس کے بدن میں ہے چاندنی روشن
مٹے نہ فرقِ سفید و سیاہ سورج سے
مٹے لہو سے، کرے جس کو آدمی روشن
جما ہے تن کے رہِ برف و باد میں کیسے
رکھو، مثالِ شجر جان کی نمی روشن
آفتاب اقبال شمیم

کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 37
کیا روپ دوستی کا؟ کیا رنگ دشمنی کا؟
کوئی نہیں جہاں میں کوئی نہیں کسی کا
اک تنکا آشیانہ، اک راگنی اثاثہ
اک موسمِ بہاراں، مہمان دو گھڑی کا
آخر کوئی کنارا اس سیلِ بےکراں کا؟
آخر کوئی مداوا اس دردِ زندگی کا؟
میری سیہ شبی نے اک عمرآرزو کی
لرزے کبھی افق پر تاگا سا روشنی کا
شاید اِدھر سے گزرے پھر بھی ترا سفینہ
بیٹھا ہوا ہوں ساحل پر نے بلب کبھی کا
اس التفات پر ہوں لاکھ التفات قرباں
مجھ سے کبھی نہ پھیرا رخ تو نے بےرخی کا
اب میری زندگی میں آنسو ہیں اور نہ آہیں
لیکن یہ ایک میٹھا میٹھا سا روگ جی کا
او مسکراتے تارو! او کھلکھلاتے پھولو!
کوئی علاج میری آشفتہ خاطری کا
مجید امجد

میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 49
جو کچھ سوجھتی ہے نئی سوجھتی ہے
میں روتا ہوں، اس کو ہنسی سوجھتی ہے
تمہیں حور اے شیخ جی سوجھتی ہے
مجھے رشک حور اک پری سوجھتی ہے
یہاں تو میری جان پر بن رہی ہے
تمہیں جانِ من دل لگی سوجھتی ہے
جو کہتا ہوں ان سے کہ آنکھیں ملاؤ
وہ کہتے ہیں تم کو یہی سوجھتی ہے
یہاں تو ہے آنکھوں میں اندھیر دنیا
وہاں ان کو سرمہ مسی سوجھتی ہے
جو کی میں نے جوبن کی تعریف بولے
تمہیں اپنے مطلب کی ہی سوجھتی ہے
امیر ایسے ویسے تو مضموں ہیں لاکھوں
نئی بات کوئی کبھی سوجھتی ہے
امیر مینائی