ٹیگ کے محفوظات: کباب

کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب

دیوان ششم غزل 1810
آیا ہے شیب سر پہ گیا ہے شباب اب
کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب
بگڑا بنا ہوں عشق سے سو بار عاقبت
پایا قرار یہ کہ رہوں میں خراب اب
خوں ریزی عاشقوں کی ہے ظالم اگر ثواب
تو تو ہوا ہے تجھ کو بہت سا ثواب اب
بھڑکی دروں میں آتش سوزندہ عشق کی
دل رہ گیا ہے پہلو میں ہوکر کباب اب
ہوں اس بہشتی رو سے جدا میں جحیم میں
رہتا ہے میری خاک کو ہر دم عذاب اب
قاصد جو آیا چپ ہے نشاں خط کا کچھ نہیں
دیکھیں جو لاوے باد کوئی کیا جواب اب
کیا رنج و غم کو آگے ترے میں کروں شمار
یاں خود حسابی میری تو ہے بے حساب اب
جھپکی ہیں آنکھیں اور جھکی آتی ہیں بہت
نزدیک شاید آیا ہے ہنگام خواب اب
آرام کریے میری کہانی بھی ہوچکی
کرنے لگو گے ورنہ عتاب و خطاب اب
جانا سبھوں نے یہ کہ تو معشوق میر ہے
خلع العذار سے نہ گیا ہے حجاب اب
میر تقی میر

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

دیوان پنجم غزل 1751
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے
جان کو اضطراب ہے سو ہے
بس گئی جاں خراب مدت کی
حال اپنا خراب ہے سو ہے
خشکی لب کی ہے تری کیسی
چشم لیکن پرآب ہے سو ہے
خاک جل کر بدن ہوا ہے سب
دل جلا سا کباب ہے سو ہے
کر گئے کاروانیاں شب گیر
وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے
یاں تو رسوا ہیں کیسا پردئہ شرم
اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے
دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم
دوستی کا حساب ہے سو ہے
زلفیں اس کی ہوا کریں برہم
ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے
خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو
ان کی عالی جناب ہے سو ہے
شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز
میر ذلت کا باب ہے سو ہے
میر تقی میر

جاتا ہے کچھ ڈھہا ہی خانہ خراب اب دل

دیوان پنجم غزل 1674
رکھتا نہیں ہے مطلق تاب عتاب اب دل
جاتا ہے کچھ ڈھہا ہی خانہ خراب اب دل
درد فراق دلبر دے ہے فشار بے ڈھب
ہوجائے جملگی خوں شاید شتاب اب دل
بے پردہ اس کی آنکھیں شوخی جو کرتیاں ہیں
کرتا ہے یہ بھی ترک شرم و حجاب اب دل
آتش جو عشق کی سب چھائی ہے تن بدن پر
پہلو میں رہ گیا ہے ہوکر کباب اب دل
غم سے گداز پاکر اس بن جو بہ نہ نکلا
شرمندگی سے ہو گا اے میر آب اب دل
میر تقی میر

کیا پھول مرگئے ہیں اس بن خراب ہوکر

دیوان پنجم غزل 1621
آیا نہ پھر ادھر وہ مست شراب ہوکر
کیا پھول مرگئے ہیں اس بن خراب ہوکر
صید زبوں میں میرے یک قطرہ خوں نہ نکلا
خنجر تلے بہا میں خجلت سے آب ہوکر
وعدہ وصال کا ہے کہتے ہیں حشر کے دن
جانا ہوا ولیکن واں سے شتاب ہوکر
دارو پیے نہ ساتھ آ غیروں کے بیشتر یاں
غیرت سے رہ گئے ہیں عاشق کباب ہوکر
یک قطرہ آب اس بن میں نے اگر پیا ہے
نکلا ہے میر پانی وہ خون ناب ہوکر
میر تقی میر

خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1614
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر
خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر
پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے جی ہی اپنا
مجھ سے اٹھیں گے اس کے ناز و عتاب کیونکر
اس بحر میں ہے مٹنا شکل حباب ہر دم
ابھرا رہے ہمیشہ نقش پرآب کیونکر
پانی کے دھوکے پیاسے کیا کیا عزیز مارے
سر پر نہ خاک ڈالے اپنے سراب کیونکر
آب رواں نہ تھا کچھ وہ لطف زندگانی
جاتی رہی جوانی اپنی شتاب کیونکر
سینے میں میرے کب سے اک سینک ہی رہے ہے
قلب و کبد نہ ہوویں دونوں کباب کیونکر
شلّاق خواری کی تھی خجلت جو کچھ نہ بولا
منھ کیا ہے نامہ بر کا نکلے جواب کیونکر
سوز دل و جگر سے جلتا ہے تن بدن سب
میں کیا کوئی ہو کھینچے ایسے عذاب کیونکر
چہرہ کتابی اس کا مجموعہ میر کا ہے
اک حرف اس دہن کا ہوتا کتاب کیونکر
میر تقی میر

دل کو میرے ہے اضطراب بہت

دیوان پنجم غزل 1586
چشم رہتی ہے اب پرآب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دیکھیے رفتہ رفتہ کیا ہووے
تاب دل کم ہے پیچ و تاب بہت
دیر افسوس کرتے رہیے گا
عمر جاتی رہی شتاب بہت
مہر و لطف و کرم عنایت کم
ناز و خشم و جفا عتاب بہت
بے تفاوت ہے فرق آپس میں
وے مقدس ہیں میں خراب بہت
پشت پا پر ہے چشم شوخ اس کی
ہائے رے ہم سے ہے حجاب بہت
دختر رز سے رہتے ہیں محشور
شیخ صاحب ہیں کُس کباب بہت
آویں محشر میں کیوں نہ پاے حساب
ہم یہی کرتے ہیں حساب بہت
واں تک اپنی دعا پہنچتی نہیں
عالی رتبہ ہے وہ جناب بہت
گل کے دیکھے کا غش گیا ہی نہ میر
منھ پہ چھڑکا مرے گلاب بہت
میر تقی میر

کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر

دیوان چہارم غزل 1390
یہ لطف اور پوچھا مجھ سے خطاب کر کر
کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر
چھاتی جلی ہے کیسی اڑتی جو یہ سنی ہے
واں مرغ نامہ بر کا کھایا کباب کر کر
خوں ریزی سے کچھ آگے تشہیر کر لیا تھا
اس دل زدے کو ان نے مارا خراب کر کر
گنتی میں تو نہ تھا میں پر کل خجل ہوا وہ
کچھ دوستی کا میری دل میں حساب کر کر
روپوش ہی رہا وہ مرنے تک اپنے لیکن
منھ پر نہ رکھا اس کے کچھ میں حجاب کر کر
مستی و بے خودی میں آسودگی بہت تھی
پایا نہ چین میں نے ترک شراب کر کر
کیا جانیے کہ دل پر گذرے ہے میر کیا کیا
کرتا ہے بات کوئی آنکھیں پرآب کر کر
میر تقی میر

کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی

دیوان دوم غزل 954
آج کچھ بے حجاب ہے وہ بھی
کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی
میں ہی جلتا نہیں جدا دل سے
دور مجھ سے کباب ہے وہ بھی
سائل بوسہ سب گئے محروم
ایک حاضر جواب ہے وہ بھی
وہم جس کو محیط سمجھا ہے
دیکھیے تو سراب ہے وہ بھی
کم نہیں کچھ صبا سے اشک گرم
قاصد پرشتاب ہے وہ بھی
حسن سے دود دل نہیں خالی
زلف پرپیچ و تاب ہے وہ بھی
خانہ آباد کعبے میں تھا میر
کیا خدائی خراب ہے وہ بھی
میر تقی میر

وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو

دیوان دوم غزل 924
تاچند انتظار قیامت شتاب ہو
وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو
احوال کی خرابی مری پہنچی اس سرے
اس پر بھی وہ کہے ہے ابھی ٹک خراب ہو
یاں آنکھیں مندتے دیر نہیں لگتی میری جاں
میں کان کھولے رکھتا ہوں تیرے شتاب ہو
پھولوں کے عکس سے نہیں جوے چمن میں رنگ
گل بہ چلے ہیں شرم سے اس منھ کی آب ہو
یاں جرم گنتے انگلیوں کے خط بھی مٹ گئے
واں کس طرح سے دیکھیں ہمارا حساب ہو
غفلت ہے اپنی عمر سے تم کو ہزار حیف
یہ کاروان جانے پہ تم مست خواب ہو
شان تغافل اس کی لکھی ہم سے کب گئی
جب نامہ بر ہلاک ہو تب کچھ جواب ہو
لطف شراب ابر سے ہے سو نصیب دیکھ
جب لیویں جام ہاتھ میں تب آفتاب ہو
ہستی پر ایک دم کی تمھیں جوش اس قدر
اس بحرموج خیز میں تم تو حباب ہو
جی چاہتا ہے عیش کریں ایک رات ہم
تو ہووے چاندنی ہو گلابی شراب ہو
پرپیچ و تاب دود دل اپنا ہے جیسے زلف
جب اس طرح سے جل کے درونہ کباب ہو
آگے زبان یار کے خط کھینچے سب نے میر
پہلی جو بات اس کی کہیں تو کتاب ہو
میر تقی میر

اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں

دیوان دوم غزل 879
عشق میں جی کو صبر و تاب کہاں
اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
بے کلی دل ہی کی تماشا ہے
برق میں ایسے اضطراب کہاں
خط کے آئے پہ کچھ کہے تو کہے
ابھی مکتوب کا جواب کہاں
ہستی اپنی ہے بیچ میں پردہ
ہم نہ ہوویں تو پھر حجاب کہاں
گریۂ شب سے سرخ ہیں آنکھیں
مجھ بلانوش کو شراب کہاں
عشق ہے عاشقوں کے جلنے کو
یہ جہنم میں ہے عذاب کہاں
داغ رہنا دل و جگر کا دیکھ
جلتے ہیں اس طرح کباب کہاں
محو ہیں اس کتابی چہرے کے
عاشقوں کو سرکتاب کہاں
عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں
میر تقی میر

پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا

دیوان دوم غزل 760
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا
پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا
اے ابرتر یہ گریہ ہمارا ہے دیدنی
برسے ہے آج صبح سے چشم پرآب کیا
دم گنتے گنتے اپنی کوئی جان کیوں نہ دو
وہ پاس آن بیٹھے کسو کے حساب کیا
سو بار اس کے کوچے تلک جاتے ہیں چلے
دل ہے اگر بجا تو یہ ہے اضطراب کیا
بس اب نہ منھ کھلائو ہمارا ڈھکے رہو
محشر کو ہم سوال کریں تو جواب کیا
دوزخ سو عاشقوں کو تو دوزخ نہیں رہا
اب واں گئے پہ ٹھہرے ہے دیکھیں عذاب کیا
ہم جل کے ایک راکھ کی ڈھیری بھی ہو گئے
ہے اب تکلف آگے جلے گا کباب کیا
ہستی ہے اپنے طور پہ جوں بحر جوش میں
گرداب کیسا موج کہاں ہے حباب کیا
دیکھا پلک اٹھاکے تو پایا نہ کچھ اثر
اے عمر برق جلوہ گئی تو شتاب کیا
ہر چند میر بستی کے لوگوں سے ہے نفور
پر ہائے آدمی ہے وہ خانہ خراب کیا
میر تقی میر

دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا

دیوان دوم غزل 730
بالقوہ ٹک دکھایئے چشم پرآب کا
دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا
جو کچھ نظر پڑے ہے حقیقت میں کچھ نہیں
عالم میں خوب دیکھو تو عالم ہے خواب کا
دریا دلی جنھیں ہے نہیں ہوتے کاسہ لیس
دیکھا ہے واژگوں ہی پیالہ حباب کا
شاید کہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھرے
میں منتظر زمانے کے ہوں انقلاب کا
بارے نقاب دن کو جو رکھتا ہے منھ پہ تو
پردہ سا رہ گیا ہے کچھ اک آفتاب کا
تلوار بن نکلتے نہیں گھر سے ایک دم
خوں کر رہو گے تم کسو خانہ خراب کا
یہ ہوش دیکھ آگے مرے ساتھ غیر کے
رکھتا ہے پائوں مست ہو جیسے شراب کا
مجنوں میں اور مجھ میں کرے کیوں نہ فرق عشق
چھپتا نہیں مزہ تو جلے سے کباب کا
رو فرصت جوانی پہ جوں ابر بے خبر
انداز برق کا سا ہے عہد شباب کا
واں سے تو نامہ بر کو ہے کب کا جواب صاف
میں سادگی سے لاگو ہوں خط کے جواب کا
ٹپکاکرے ہے زہر ہی صرف اس نگاہ سے
وہ چشم گھر ہے غصہ و ناز و عتاب کا
لائق تھا ریجھنے ہی کے مصراع قد یار
میں معتقد ہوں میر ترے انتخاب کا
میر تقی میر

آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا

دیوان دوم غزل 688
اس موج خیز دہر میں تو ہے حباب سا
آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا
برقع اٹھاکے دیکھے ہے منھ سے کبھو ادھر
بارے ہوا ہے ان دنوں رفع حجاب سا
وہ دل کہ تیرے ہوتے رہے تھا بھرا بھرا
اب اس کو دیکھیے تو ہے اک گھر خراب سا
دس روز آگے دیکھا تھا جیسا سو اب نہیں
دل رہ گیا ہے سینے میں جل کر کباب سا
اس عمر میں یہ ہوش کہ کہنے کو نرم گرم
بگڑا رہے ہے ساختہ مست شراب سا
ہے یہ فریب شوق کہ جاتے ہیں خط چلے
واں سے وگرنہ کب کا ہوا ہے جواب سا
کیا سطر موج اشک روانی کے ساتھ ہے
مشتاق گریہ ابر ہے چشم پر آب سا
دوزخ ہوا ہے ہجر میں اس کے جہاں ہمیں
سوز دروں سے جان پہ ہے اک عذاب سا
مدت ہوئی کہ دل سے قرار و سکوں گئے
رہتا ہے اب تو آٹھ پہر اضطراب سا
مواج آب سا ہے ولیکن اڑے ہے خاک
ہے میر بحربے تہ ہستی سراب سا
میر تقی میر

دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا

دیوان دوم غزل 668
پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا
کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گردباد برسوں
گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا
کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش
اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا
انواع جرم میرے پھر بے شمار و بے حد
روز حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا
اک آگ لگ رہی ہے سینوں میں کچھ نہ پوچھو
جل جل کے ہم ہوئے ہیں اس بن کباب کیا کیا
افراط شوق میں تو رویت رہی نہ مطلق
کہتے ہیں میرے منھ پر اب شیخ و شاب کیا کیا
پھر پھر گیا ہے آکر منھ تک جگر ہمارے
گذرے ہیں جان و دل پر یاں اضطراب کیا کیا
آشفتہ اس کے گیسو جب سے ہوئے ہیں منھ پر
تب سے ہمارے دل کو ہے پیچ و تاب کیا کیا
کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میر جی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا
میر تقی میر

دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے

دیوان اول غزل 614
ہے خاک جیسے ریگ رواں سب نہ آب ہے
دریاے موج خیز جہاں کا سراب ہے
روز شمار میں بھی محاسب ہے گر کوئی
تو بے حساب کچھ نہ کر آخر حساب ہے
اس شہر دل کو تو بھی جو دیکھے تو اب کہے
کیا جانیے کہ بستی یہ کب کی خراب ہے
منھ پر لیے نقاب تو اے ماہ کیا چھپے
آشوب شہر حسن ترا آفتاب ہے
کس رشک گل کی باغ میں زلف سیہ کھلی
موج ہوا میں آج نپٹ پیچ و تاب ہے
کیا دل مجھے بہشت میں لے جائے گا بھلا
جس کے سبب یہ جان پہ میری عذاب ہے
سن کان کھول کر کہ تنک جلد آنکھ کھول
غافل یہ زندگانی فسانہ ہے خواب ہے
رہ آشناے لطف حقیقت کے بحر کا
ہے رشک زلف و چشم جو موج حباب ہے
آتش ہے سوز سینہ ہمارا مگر کہ میر
نامے سے عاشقوں کے کبوتر کباب ہے
میر تقی میر

دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے

دیوان اول غزل 571
رمق ایک جان وبال ہے کوئی دم جو ہے تو عذاب ہے
دل داغ گشتہ کباب ہے جگر گداختہ آب ہے
مری خلق محو کلام سب مجھے چھوڑتے ہیں خموش کب
مرا حرف رشک کتاب ہے مری بات لکھنے کا باب ہے
جو وہ لکھتا کچھ بھی تو نامہ بر کوئی رہتی منھ میں ترے نہاں
تری خامشی سے یہ نکلے ہے کہ جواب خط کا جواب ہے
رہے حال دل کا جو ایک سا تو رجوع کرتے کہیں بھلا
سو تو یہ کبھو ہمہ داغ ہے کبھو نیم سوز کباب ہے
کہیں گے کہو تمھیں لوگ کیا یہی آرسی یہی تم سدا
نہ کسو کی تم کو ہے ٹک حیا نہ ہمارے منھ سے حجاب ہے
چلو میکدے میں بسر کریں کہ رہی ہے کچھ برکت وہیں
لب ناں تو واں کا کباب ہے دم آب واں کا شراب ہے
نہیں کھلتیں آنکھیں تمھاری ٹک کہ مآل پر بھی نظر کرو
یہ جو وہم کی سی نمود ہے اسے خوب دیکھو تو خواب ہے
گئے وقت آتے ہیں ہاتھ کب ہوئے ہیں گنوا کے خراب سب
تجھے کرنا ہو وے سو کر تو اب کہ یہ عمر برق شتاب ہے
کبھو لطف سے نہ سخن کیا کبھو بات کہہ نہ لگا لیا
یہی لحظہ لحظہ خطاب ہے وہی لمحہ لمحہ عتاب ہے
تو جہاں کے بحر عمیق میں سرپرہوا نہ بلند کر
کہ یہ پنج روزہ جو بود ہے کسو موج پر کا حباب ہے
رکھو آرزو مئے خام کی کرو گفتگو خط جام کی
کہ سیاہ کاروں سے حشر میں نہ حساب ہے نہ کتاب ہے
مرا شور سن کے جو لوگوں نے کیا پوچھنا تو کہے ہے کیا
جسے میر کہتے ہیں صاحبو یہ وہی تو خانہ خراب ہے
میر تقی میر

یہ نمائش سراب کی سی ہے

دیوان اول غزل 485
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میر ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
میر تقی میر

پر تمامی عتاب ہیں دونوں

دیوان اول غزل 366
لب ترے لعل ناب ہیں دونوں
پر تمامی عتاب ہیں دونوں
رونا آنکھوں کا رویئے کب تک
پھوٹنے ہی کے باب ہیں دونوں
ہے تکلف نقاب وے رخسار
کیا چھپیں آفتاب ہیں دونوں
تن کے معمورے میں یہی دل و چشم
گھر تھے دو سو خراب ہیں دونوں
کچھ نہ پوچھو کہ آتش غم سے
جگر و دل کباب ہیں دونوں
سو جگہ اس کی آنکھیں پڑتی ہیں
جیسے مست شراب ہیں دونوں
پائوں میں وہ نشہ طلب کا نہیں
اب تو سرمست خواب ہیں دونوں
ایک سب آگ ایک سب پانی
دیدہ و دل عذاب ہیں دونوں
بحث کاہے کو لعل و مرجاں سے
اس کے لب ہی جواب ہیں دونوں
آگے دریا تھے دیدۂ تر میر
اب جو دیکھو سراب ہیں دونوں
میر تقی میر

نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن

دیوان اول غزل 357
یہ غلط کہ میں پیا ہوں قدح شراب تجھ بن
نہ گلے سے میرے اترا کبھو قطرہ آب تجھ بن
یہی بستی عاشقوں کی کبھو سیر کرنے چل تو
کہ محلے کے محلے پڑے ہیں خراب تجھ بن
میں لہو پیوں ہوں غم میں عوض شراب ساقی
شب میغ ہو گئی ہے شب ماہتاب تجھ بن
گئی عمر میری ساری جیسے شمع بائو کے بیچ
یہی رونا جلنا گلنا یہی اضطراب تجھ بن
سبھی آتشیں ہیں نالے سبھی زمہریری آہیں
مری جان پر رہا ہے غرض اک عذاب تجھ بن
ترے غم کا شکر نعمت کروں کیا اے مغبچے میں
نہ ہوا کہ میں نہ کھایا جگر کباب تجھ بن
نہیں جیتے جی تو ممکن ہمیں تجھ بغیر سونا
مگر آنکہ مر کے کیجے تہ خاک خواب تجھ بن
برے حال ہوکے مرتا جو درنگ میر کرتا
یہ بھلا ہوا ستمگر کہ موا شتاب تجھ بن
میر تقی میر

محتسب کو کباب کرتا ہوں

دیوان اول غزل 324
عام حکم شراب کرتا ہوں
محتسب کو کباب کرتا ہوں
ٹک تو رہ اے بناے ہستی تو
تجھ کو کیسا خراب کرتا ہوں
بحث کرتا ہوں ہو کے ابجدخواں
کس قدر بے حساب کرتا ہوں
کوئی بجھتی ہے یہ بھڑک میں عبث
تشنگی پر عتاب کرتا ہوں
سر تلک آب تیغ میں ہوں غرق
اب تئیں آب آب کرتا ہوں
جی میں پھرتا ہے میر وہ میرے
جاگتا ہوں کہ خواب کرتا ہوں
میر تقی میر

غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہوکر

دیوان اول غزل 219
غیروں سے مل چلے تم مست شراب ہوکر
غیرت سے رہ گئے ہم یک سو کباب ہوکر
اس روے آتشیں سے برقع سرک گیا تھا
گل بہ گیا چمن میں خجلت سے آب ہوکر
کل رات مند گئی تھیں بہتوں کی آنکھیں غش سے
دیکھا کیا نہ کر تو سرمست خواب ہوکر
پردہ رہے گا کیونکر خورشید خاوری کا
نکلے ہے صبح وہ بھی اب بے نقاب ہوکر
یک قطرہ آب میں نے اس دور میں پیا ہے
نکلا ہے چشم تر سے وہ خون ناب ہوکر
آ بیٹھتا تھا صوفی ہر صبح میکدے میں
شکر خدا کہ نکلا واں سے خراب ہوکر
شرم و حیا کہاں تک ہیں میر کوئی دن کے
اب تو ملا کرو تم ٹک بے حجاب ہوکر
میر تقی میر

ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب

دیوان اول غزل 178
کس کی مسجد کیسے میخانے کہاں کے شیخ و شاب
ایک گردش میں تری چشم سیہ کے سب خراب
تو کہاں اس کی کمر کیدھر نہ کریو اضطراب
اے رگ گل دیکھیو کھاتی ہے جو تو پیچ و تاب
موند رکھنا چشم کا ہستی میں عین دید ہے
کچھ نہیں آتا نظر جب آنکھ کھولے ہے حباب
تو ہو اور دنیا ہو ساقی میں ہوں مستی ہو مدام
پر بط صہبا نکالے اڑ چلے رنگ شراب
ہے ملاحت تیرے باعث شور پر تجھ سے نمک
ٹک تو رہ پیری چلی آتی ہے اے عہد شباب
کب تھی یہ بے جرأتی شایان آہوے حرم
ذبح ہوتا تیغ سے یا آگ میں ہوتا کباب
کیا ہو رنگ رفتہ کیا قاصد ہو جس کو خط دیا
جز جواب صاف اس سے کب کوئی لایا جواب
واے اس جینے پر اے مستی کہ دور چرخ میں
جام مے پر گردش آوے اور میخانہ خراب
چوب حرفی بن الف بے میں نہیں پہچانتا
ہوں میں ابجد خواں شناسائی کو مجھ سے کیا حساب
مت ڈھلک مژگاں سے اب تو اے سرشک آبدار
مفت میں جاتی رہے گی تیری موتی کی سی آب
کچھ نہیں بحرجہاں کی موج پر مت بھول میر
دور سے دریا نظر آتا ہے لیکن ہے سراب
میر تقی میر

ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 28
قاضی بھی اب تو آئے ہیں بزمِ شراب میں
ساقی ہزار شکر خدا کی جناب میں
جا پائی خط نے اس کے رخِ بے نقاب میں
سورج گہن پڑا شرفِ آفتاب میں
دامن بھرا ہوا تھا جو اپنا شراب میں
محشر کے دن بٹہائے گئے آفتاب میں
رکھا یہ تم نے پائے حنائی رکاب میں
یا پھول بھر دئیے طبقِ آفتاب میں
تیرِ دعا نشانے پہ کیونکر نہ بیٹھتا
کچھ زور تھا کماں سے سوا اضطراب میں
وہ ناتواں ہوں قلعۂ آہن ہو وہ مجھے
کر دے جو کوئی بند مکانِ حباب میں
حاجت نہیں تو دولتِ دنیا سے کام کیا
پھنستا ہے تشنہ دام فریبِ سراب میں
مثلِ نفس نہ آمد و شد سے ملا فراغ
جب تک رہی حیات، رہے اضطراب میں
سرکش کا ہے جہاں میں دورانِ سر مآل
کیونکر نہ گرد باد رہے پیچ و تاب میں
چاہے جو حفظِ جان تو نہ کر اقربا سے قطع
کب سوکھتے ہیں برگِ شجر آفتاب میں
دل کو جلا تصور حسنِ ملیح سے
ہوتی ہے بے نمک کوئی لذت، کباب میں
ڈالی ہیں نفسِ شوم نے کیا کیا خرابیاں
موذی کو پال کر میں پڑا کس عذاب میں
اللہ رے تیز دستیِ مژگانِ رخنہ گر
بے کار بند ہو گئے ان کی نقاب میں
چلتا نہیں ہے ظلم تو عادل کے سامنے
شیطاں ہے پردہ در کہ ہیں مہدی حجاب میں
کچھ ربط حسن و عشق سے جائے عجب نہیں
بلبل بنے جو بلبلہ اٹھّے گلاب میں
چومے جو اس کا مصحفِ رخ زلف میں پھنسے
مارِ عذاب بھی ہے طریقِ ثواب میں
ساقی کچھ آج کل سے نہیں بادہ کش ہیں بند
اس خاک کا خمیر ہوا ہے شراب میں
جب نامہ بر کیا ہے کبوتر کو اے امیر
اس نے کباب بھیجے ہیں خط کے جواب میں
امیر مینائی