ٹیگ کے محفوظات: کا

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
گونجتے ہیں شکیبؔ آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
ثاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
ہاۓ وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہاۓ وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے ، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
اس گلبدن کی بوۓ قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اب انہیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دکھ پہنچا ہے
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِٔ مظلوم صدا رکھتی ہے
کسی کا قرب اگر قربِ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
کمتر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جاۓ زندگی کے لیے
چلے تو آۓ ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیبؔ
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
شکیب جلالی

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں

مجھے کیا خبر تھی، مجھے دوسروں نے بتایا میں کیسا ہوں، کیا آدمی ہوں
یہ سب سُن کے مجھ کو بھی لگنے لگا ہے کہ میں واقعی اک بُرا آدمی ہوں
کسی کو سروکار کیا مجھ میں پھیلی ہوئی اس قیامت کی بے چارگی سے
اگر کوئی مجھ سے تعلق بھی رکھتا ہے تو یوں کہ میں کام کا آدمی ہوں
تمہیں یہ گلہ ہے کہ میں وہ نہیں جس سے تم نے محبت کے پیماں کیے تھے
مجھے بھی یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ میں وہ نہیں، دوسرا آدمی ہوں
سبھی حسبِ خواہش، بقدرِضرورت مجھے جانتے ہیں، مجھے چھانتے ہیں
کسی کو کہاں اتنی فرصت جو دیکھے کہ میں کتنا ٹوٹا ہُوا آدمی ہوں
میں اپنی حقیقت کو صندوق میں بند کرکے ہر اک صبح جاتا ہوں دفتر
کبھی شام کے بعد دیکھو کہ میں کیسا پُرحال، پُر ماجرا آدمی ہوں
میں سچ بولتا ہوں، کبھی ٹوکتا ہوں، تو کیوں آپ ایسے برا مانتے ہیں
عزیزانِ من آپ سمجھیں تو مجھ کو کہ میں اصل میں آپ کا آدمی ہوں
نجانے میں اقلیم کے اور تقویم کے کس غلط راستے سے یہاں آگیا تھا
میں اِس دور میں جی رہا ہوں تو بس یہ سمجھ لو کہ میں معجزہ آدمی ہوں
تمہیں سب خبر ہے، یہ دنیا ہے کیا، اور دنیا کو قابو میں رکھنا ہے کیسے
مری بات پر دھیان دینا بھی مت کیونکہ میں تو بس اک سرپھرا آدمی ہوں
اندھیرا، تحیؔر، خموشی، اُداسی، مجرؔد ہیولے، جنوں، بے قراری
یہ تفصیل سُن کر سمجھ تو گئے ہومیں دن کا نہیں، رات کا آدمی ہوں
تمہاری سمجھ میں نہیں آسکا تو یہ کوئی نیا واقعہ تو نہیں ہے
تمہاری مدد کیا کروں گا کہ میں خود بھی اپنے لیے مسئلہ آدمی ہوں
یہ کیا زندگی ہے، یہ کیسا تماشا ہے، میں اس تماشے میں کیا کررہا ہوں
میں روزِ ازل سے کچھ ایسے سوالوں کی تکلیف میں مبتلا آدمی ہوں
وہ اک رنگ جو تم سبھی دیکھتے ہو، وہ میرا نہیں، میرے ملبوس کا ہے
کبھی اُس سے پوچھو جو سب جانتی ہے کہ میں کیسا رنگوں بھرا آدمی ہوں
مری بددماغی منافق رویؔوں سے محفوظ رہنے کا ہے اک طریقہ
مرے پاس آؤ، مرے پاس بیٹھوکہ میں تو سراپا دعا آدمی ہوں
میں اپنے تصور میں تخلیق کرتا ہوں ایک ایسی دنیا، جو ہے میری دنیا
مری اپنی مرضی کی اک زندگی ہے، میں تنہائیوں میں خدا آدمی ہوں
مرا کیا تعارف، مرا نام عرفان ہے اور میری ہے اتنی کہانی
میں ہر دور کا واقعہ آدمی ہوں، میں ہر عہد کا سانحہ آدمی ہوں
عرفان ستار

وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا

غیر تو غیر خود اپنا نہیں رہنے دیتا
وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا
اُس کی آواز ہے دشمن مرے سنّاٹوں کی
اُس کا چہرہ مجھے تنہا نہیں رہنے دیتا
وہ مجھے بھول چکا ہے تو یہ سب کچھ کیا ہے
کیوں کوئی بزم میں مجھ سا نہیں رہنے دیتا
بھرنے لگتے ہیں تو یادوں پہ اثر پڑتا ہے
دل کے زخموں کو میں اچھا نہیں رہنے دیتا
وہ کہیں راہ میں مل جائے تو پوچھوں ضامنؔ
کیوں کبھی مجھ کو اکیلا نہیں رہنے دیتا
ضامن جعفری

پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تنہا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی

شہر کے نیچے شہر بسا تھا

پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا
شہر کے نیچے شہر بسا تھا
پیڑ بھی پتھر، پھول بھی پتھر
پتا پتا پتھر کا تھا
چاند بھی پتھر، جھیل بھی پتھر
پانی بھی پتھر لگتا تھا
لوگ بھی سارے پتھر کے تھے
رنگ بھی اُن کا پتھر سا تھا
پتھر کا اک سانپ سنہرا
کالے پتھر سے لپٹا تھا
پتھر کی اندھی گلیوں میں
میں تجھے ساتھ لیے پھرتا تھا
گونگی وادی گونج اُٹھتی تھی
جب کوئی پتھر گرتا تھا
ناصر کاظمی

یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے

بنے بنائے ہوئے راستوں پہ جا نکلے
یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے
چلے تھے اَور کسی راستے کی دُھن میں مگر
ہم اتفاق سے تیری گلی میں آ نکلے
غمِ فراق میں کچھ دیر رو ہی لینے دو
بخار کچھ تو دلِ بے قرار کا نکلے
نصیحتیں ہمیں کرتے ہیں ترکِ الفت کی
یہ خیرخواہ ہمارے کدھر سے آ نکلے
یہ خامشی تو رگ و پے میں رچ گئی ناصر
وہ نالہ کر کہ دلِ سنگ سے صدا نکلے
ناصر کاظمی

تونے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ

موسمِ گلزارِ ہستی اِن دنوں کیا ہے نہ پوچھ
تونے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ
ہاتھ زخمی ہیں تو پلکوں سے گلِ منظر اُٹھا
پھول تیرے ہیں نہ میرے باغ کس کا ہے نہ پوچھ
رات اندھیری ہے تو اپنے دھیان کی مشعل جلا
قافلے والوں میں کس کو کس کی پروا ہے نہ پوچھ
جو ترا محرم ملا اس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتا کس کس سے پوچھا ہے نہ پوچھ
ناصر کاظمی

کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا

سر میں جب عشق کا سودا نہ رہا
کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب ترا دھیان بھی اُتنا نہ رہا
قصۂ شوق سناؤں کس کو
راز داری کا زمانا نہ رہا
زندگی جس کی تمنا میں کٹی
وہ مرے حال سے بیگانہ رہا
ڈیرے ڈالے ہیں خزاں نے چوندیس
گل تو گل باغ میں کانٹا نہ رہا
دن دہاڑے یہ لہو کی ہولی
خلق کو خوف خدا کا نہ رہا
اب تو سو جاؤ ستم کے مارو
آسماں پر کوئی تارا نہ رہا
ناصر کاظمی

اگرچہ اب تو کسی بات کا نہیں افسوس

اُس ایک بات کا اب تک گیا نہیں افسوس
اگرچہ اب تو کسی بات کا نہیں افسوس
یہ دل کے زخم جو اب شرمسار کرتے ہیں
بہت پرانے ہیں پر لادوا نہیں، افسوس
چُنا تھا دیدہ و دانستہ رستۂ دشوار
کسی مقام پہ ہم نے کہا نہیں افسوس
فنا کے ڈر سے ہم اہلِ جفا سے آن ملے
زمانہ مونسِ اہلِ وفا نہیں افسوس
پھر اُس کے در پہ نظر آ رہے ہو باصرِؔ آج
تمہارا کام ابھی تک ہوا نہیں افسوس
باصر کاظمی

جو ہو رہا ہے کچھ اس پر بھی تم نے سوچا ہے

وہ ہو رہے گا بالآخر جو ہونے والا ہے
جو ہو رہا ہے کچھ اس پر بھی تم نے سوچا ہے
افُق کی آنکھ میں پھیلی ہوئی ہے لالی سی
یہ آسمان کہاں ساری رات جاگا ہے
سنو کہ آج تمہیں یاد کے دریچوں سے
صدائے رفتہ نے اک بار پھر پکارا ہے
گزر نسیمِ سحر اِس چمن سے آہستہ
کہ پتا پتا بہاروں کے دل کا ٹکڑا ہے
بھٹکتے پھرتے ہیں ہم جس کی دُھن میں مدت سے
جو سوچیے تو وہ منزل بھی ایک رَستا ہے
مرے سفر میں کئی منزلیں پڑیں لیکن
تری گلی میں عجب طرح دل دھڑکتا ہے
وہ قافلہ تو کبھی کا گزر چکا باصرِؔ
کھڑے ہو راہ میں اب انتظار کس کا ہے
باصر کاظمی

دریا میں وفور آب کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
ہر سُو جو چھلک چھلک چلا ہے
دریا میں وفور آب کا ہے
چُوزوں ہی پہ چِیل چِیل جِھپٹے
مظلوم ہی دار پر کِھنچا ہے
اب تک نہ لگا کسی کنارے
لب پر جو سفینۂ دُعا ہے
ذرّے مجھے مہر دیں دکھائی
قدموں میں لگے ،بِچھی ضیا ہے
چندا میں ہے اُس کا چاند چہرہ
اور ایلچی اُس کی یہ صبا ہے
مُونس ہے ہر اِک لُٹے پُٹے کا
ماجِد کہ نِعَم میں خود پلا ہے
ماجد صدیقی

جہان دیکھتا اپنا سلوک کیا ہوتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
ملا نہ تخت ہمیں اور اگر ملا ہوتا
جہان دیکھتا اپنا سلوک کیا ہوتا
کھلے کی دھوپ میں کوئی تو آسرا ہوتا
وہ چاہے سایہ کسی گرد باد کا ہوتا
نظامِ دہر نجانے سنبھالتا کیسے
ہُوا بہشت بدر جو اگر خدا ہوتا
ماجد صدیقی

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

آگے انت اُس کا دیکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
شاخ پہ پھول کھِلا دیکھا ہے
آگے انت اُس کا دیکھا ہے
زور رہا جب تک سینے میں
تھا نہ روا جو، روا دیکھا ہے
فریادی ہی رہا وہ ہمیشہ
جو بھی ہاتھ اُٹھا دیکھا ہے
ہم نے کہ شاکی، خلق سے تھے جو
اب کے سلوکِ خدا دیکھا ہے
سنگدلوں نے کمزوروں سے
جو بھی کہا ، وُہ کِیا ، دیکھا ہے
جس سے کہو، کہتا ہے وُہی یہ
کر کے بَھلا بھی ، بُرا دیکھا ہے
اور نجانے کیا کیا دیکھے
ماجد نے ، کیا کیا دیکھا ہے
ماجد صدیقی

بدن ، پیہم اُدھڑتا جا رہا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
گھُٹن کی آنچ میں جب سے جلا ہے
بدن ، پیہم اُدھڑتا جا رہا ہے
نگاہِ نا رسا تک پر کھُلا ہے
ہمارا درد ، پیوندِ قبا ہے
پہن لے دام ، لقمے کی ہوس میں
پرندہ عاقبت کب دیکھتا ہے
اثر ناؤ پہ جتلانے کو اپنا
سمندر ، ہم پہ موجیں تانتا ہے
بھنویں جس کی ، کمانوں سی تنی ہیں
قرابت دار وہ ، دربار کا ہے
کسی کے ذوق کی تسکین ٹھہرا
ہرن کا سر ، کہیں آ کر سجا ہے
دیا جھٹکا ذرا سا زلزلے نے
مکاں لیکن ابھی تک ، ڈولتا ہے
لگے سن کر سخن چاہت کا ماجد
کہیں تنّور میں ، چھینٹا پڑا ہے
ماجد صدیقی

لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
سن ذرا اے صنم! گنگناتی ہے کیا، رقص کرتی ہوا
لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا
چُھو کے تیر ا بدن تیری لہراتی زلفیں ترا پیرہن
تجھ سے کہتی ہے کیا کیا مرا مدّعا ،رقص کرتی ہوا
ساتھ لاتی ہے کیا کیا تم ایسے نہ گھونگھٹ بناتی ہوئی
تیرا رنگِ حیا تیرا رنگِ قبا رقص کرتی ہوا
ماجد صدیقی

دل کا ہر خواب سورج مکھی بن گیا پُھول کھلنے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جب کبھی میری جانب ترا رُخ پھرا پُھول کھلنے لگے
دل کا ہر خواب سورج مکھی بن گیا پُھول کھلنے لگے
چاپ میں تیرے قدموں کی پیغام تھا جانے کس کشف کا
تیری آمد کا جب بھی چلا ہے پتا پُھول کھلنے لگے
دیر اتنی تھی مائل ہوئی جب صبا تیرے الطاف کی
صحنِخواہش کے ہر کنج میں جا بجاپھول کھلنے لگے
پھر کہاں کی خزاں تیری خاموشیاں جب چٹکنے لگیں
دفعتاً سن کے سندیس و جدان کا پُھول کھلنے لگے
ماجد صدیقی

غارت گر ہی شاید سب سے اچّھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
جیسا بھی چاہے حصہ لے لیتا ہے
غارت گر ہی شاید سب سے اچّھا ہے
دُھوپ میں کون، کسی کو لے کر ساتھ چلے
چھاتا جس کے ہاتھ ہے سایہ اُس کا ہے
ہاتھ میں لانے، پھر اپنی ہریالی کو
پتّا پیڑ سے، بہتی نہر میں اُترا ہے
شہر میں اُڑتی گرد سے ہو کر آنے پر
چہرہ تو کیا دل بھی مَیلا لگتا ہے
اوٹ میں شب کی ماجدؔ، کچھ کچھ اور لگے
چور بھی ظاہر میں تو شخص ہمیں سا ہے
ماجد صدیقی

سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
تمہارے خُلق میں فتنے ہیں کیا کیا، ہم نہیں کہتے
سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے
ہوئے ہیں زرد پتے لفظ کیا کیا کچھ، نہ وعدوں کے
تمہاری شاخِ لب کا ہے یہ خاصا، ہم نہیں کہتے
نہیں زیبا بڑوں کو کاٹنا ڈوریں پتنگوں کی
چھتوں پر ہے، مگر ایسا ہی نقشہ، ہم نہیں کہتے
نظر آتا ہے، چھّتا خیر کا لپٹا ہوا شر میں
کہو کیسا ہے یہ طُرفہ تماشا، ہم نہیں کہتے
کسی غنچے کو بھی، مہلت ملے ہرگز نہ کھلنے کی
وطیرہ ہے یہ ماجدؔ، حبسِ شب کا، ہم نہیں کہتے
ماجد صدیقی

خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے
انگوٹھہ منہ سے نکلا ہے تو بچّہ
نجانے چیخنے کیوں لگ پڑا ہے
کسی کو پھر نگل بیٹھا ہے شاید
سمندر جھاگ سی دینے لگا ہے
گماں یہ ہے کہ بسمل کے بدن میں
کسی گھاؤ کا مُنہ پھر کُھل گیا ہے
ہوئی ہر فاختہ ہم سے گریزاں
نشاں جب سے عقاب اپنا ہوا ہے
وُہ دیکھو جبر کی شدّت جتانے
کوئی مجبور زندہ جل اٹھا ہے
بڑی مُدّت میں آ کر محتسب بھی
فقیہہِ شہر کے ہتّھے چڑھا ہے
لگے جیسے خطا ہر شخص اپنی
مِرے ہی نام لکھتا جا رہا ہے
بھُلا کر دشت کی غُّراہٹیں سب
ہرن پھر گھاٹ کی جانب چلا ہے
چلیں تو سیدھ میں بس ناک کی ہم
اِسی میں آپ کا، میرا بھلا ہے
دیانت کی ہمیں بھی تاب دے وُہ
شجر جس تاب سے پھُولا پھَلا ہے
بہلنے کو، یہ وُہ بستی ہے جس میں
بڑوں کے ہاتھ میں بھی جھنجھنا ہے
ملانے خاک میں، میری توقّع
کسی نے ہاتھ ٹھوڑی پر دھرا ہے
نہیں ہے سیج، دن بھی اُس کی خاطر
جو پہرہ دار شب بھر جاگتا ہے
کھِلے تو شاذ ہی مانندِ نرگس
لبوں پر جو بھی حرفِ مُدعّا ہے
نجانے ذکر چل نکلا ہے کس کا
قلم کاغذ تلک کو چُومتا ہے
اَب اُس سے قرب ہے اپنا کُچھ ایسا
بتاشا جیسے پانی میں گھُلا ہے
ہوئی ہے اُس سے وُہ لمس آشنائی
اُسے میں اور مجھے وُہ دیکھتا ہے
وُہ چاند اُترا ہوا ہے پانیوں میں
تعلّق اُس سے اپنا برملا ہے
نِکھر جاتی ہے جس سے رُوح تک بھی
تبسّم میں اُسی کے وُہ جِلا ہے
مَیں اُس سے لُطف کی حد پوچھتا ہوں
یہی کچُھ مجُھ سے وُہ بھی پُوچتھا ہے
بندھے ہوں پھُول رومالوں میں جیسے
مری ہر سانس میں وُہ یُوں رچا ہے
لگے ہے بدگماں مجھ سے خُدا بھی
وُہ بُت جس روز سے مجھ سے خفا ہے
جُدا ہو کر بھی ہوں اُس کے اثر میں
یہی تو قُرب کا اُس کے نشہ ہے
کہیں تارا بھی ٹوٹے تو نجانے
ہمارا خُون ہی کیوں کھولتا ہے
ہمارے رزق کا اِک ایک دانہ
تہِ سنگِ گراں جیسے دبا ہے
مِری چاروں طرف فریاد کرتی
مِری دھرتی کی بے دم مامتا ہے
رذالت بھی وراثت ہے اُسی کی
ہر اِک بچّہ کہاں یہ جانتا ہے
چھپا جو زہر تھا ذہنوں میں، اَب وُہ
جہاں دیکھو فضاؤں میں گھُلا ہے
اجارہ دار ہے ہر مرتبت کا
وُہی جو صاحبِ مکر و رِیا ہے
سِدھانے ہی سے پہنچا ہے یہاں تک
جو بندر ڈگڈگی پر ناچتا ہے
سحر ہونے کو شب جس کی، نہ آئے
اُفق سے تا اُفق وُہ جھٹپٹا ہے
نظر والوں پہ کیا کیا بھید کھولے
وُہ پتّا جو شجر پر ڈولتا ہے
وہاں کیا درسِ بیداری کوئی دے
جہاں ہر ذہن ہی میں بھُس بھرا ہے
ہوئی ہے دم بخود یُوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
جہاں جانیں ہیں کچھ اِک گھونسلے میں
وہیں اِک ناگ بھی پھُنکارتا ہے
شجر پر شام کے، چڑیوں کا میلہ
صدا کی مشعلیں سُلگا رہا ہے
کوئی پہنچا نہ اَب تک پاٹنے کو
دلوں کے درمیاں جو فاصلہ ہے
نجانے رشک میں کس گلبدن کے
چمن سر تا بہ سر دہکا ہوا ہے
بہ نوکِ خار تُلتا ہے جو ہر دم
ہمارا فن وُہ قطرہ اوس کا ہے
یہی عنواں، یہی متنِ سفر ہے
بدن جو سنگِ خارا سے چِھلا ہے
نہیں پنیچوں کو جو راس آسکا وُہ
بُرا ہے، شہر بھر میں وُہ بُرا ہے
پنہ سُورج کی حّدت سے دلانے
دہانہ غار کا ہر دَم کھُلا ہے
جو زور آور ہے جنگل بھی اُسی کی
صدا سے گونجتا چنگھاڑتا ہے
نجانے ضَو زمیں کو بخش دے کیا
ستارہ سا جو پلکوں سے ڈھلا ہے
نہیں ہے کچھ نہاں تجھ سے خدایا!
سلوک ہم سے جو دُنیا نے کیا ہے
نجانے یہ ہُنر کیا ہے کہ مکڑا
جنم لیتے ہی دھاگے تانتا ہے
نہیں ہے شرطِ قحطِ آب ہی کچھ
بھنور خود عرصۂ کرب و بلا ہے
عدالت کو وُہی دامانِ قاتل
نہ دکھلاؤ کہ جو تازہ دُھلا ہے
گرانی درد کی سہنے کا حامل
وُہی اَب رہ گیا جو منچلا ہے
بہ عہدِ نو ہُوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ کہا ہے
سُنو اُس کی سرِ دربار ہے جو
اُسی کا جو بھی فرماں ہے، بجا ہے
ہُوا ہے خودغرض یُوں جیسے انساں
ابھی اِس خاک پر آ کر بسا ہے
بتاؤ خلق کو ہر عیب اُس کا
یہی مقتول کا اَب خُوں بہا ہے
ہُوا ہے جو، ہُوا کیوں صید اُس کا
گرسنہ شیر کب یہ سوچتا ہے
بہم جذبات سوتیلے ہوں جس کو
کہے کس مُنہ سے وُہ کیسے پلا ہے
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کَسا ہے
جو خود کج رَو ہے کب یہ فرق رکھّے
روا کیا کچھ ہے اور کیا ناروا ہے
ذرا سی ضو میں جانے کون نکلے
اندھیرے میں جو خنجر گھونپتا ہے
سحر ہو، دوپہر ہو، شام ہو وُہ
کوئی بھی وقت ہو ہم پر کڑا ہے
جِسے کہتے ہیں ماجدؔ زندگانی
نجانے کس جنم کی یہ سزا ہے
کسی کا ہاتھ خنجر ہے تو کیا ہے
مرے بس میں تو بس دستِ دُعا ہے
جھڑا ہے شاخ سے پتّا ابھی جو
یہی کیا پیڑ کا دستِ دُعا ہے
اَب اُس چھت میں بھی، ہے جائے اماں جو
بہ ہر جا بال سا اک آ چلا ہے
وُہ خود ہر آن ہے نالوں کی زد میں
شجر کو جس زمیں کا آسرا ہے
نظر کیا ہم پہ کی تُو نے کرم کی
جِسے دیکھا وُہی ہم سے خفا ہے
بڑوں تک کو بنا دیتی ہے بونا
دلوں میں جو حسد جیسی وبا ہے
جو موزوں ہے شکاری کی طلب کو
اُسی جانب ہرن بھی دوڑتا ہے
گھِرے گا جور میں جب بھی تو ملزم
کہے گا جو، وُہی اُس کی رضا ہے
تلاشِ رزق میں نِکلا پرندہ
بہ نوکِ تیر دیکھو جا سجا ہے
کہے کیا حال کوئی اُس نگر کا
جہاں کُتّا ہی پابندِ وفا ہے
وُہ پھل کیا ہے بہ وصفِ سیر طبعی
جِسے دیکھے سے جی للچا رہا ہے
بظاہر بند ہیں سب در لبوں کے
دلوں میں حشر سا لیکن بپا ہے
جہاں رہتا ہے جلوہ عام اُس کا
بہ دشتِ دل بھی وُہ غارِ حرا ہے
نمائش کی جراحت سے نہ جائے
موادِ بد جو نس نس میں بھرا ہے
نہ پُوچھے گا، بکاؤ مغویہ سا
ہمیں کس کس ریا کا سامنا ہے
نجانے نیم شب کیا لینے، دینے
درِ ہمسایہ پیہم باجتا ہے
مہِ نو سا کنارِ بام رُک کر
وُہ رُخ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے
کرا کے ماں کو حج دُولہا عرب سے
ویزا کیوں ساس ہی کا بھیجتا ہے
لگے تازہ ہر اک ناظر کو کیا کیا
یہ چہرہ آنسوؤں سے جو دھُلا ہے
ہُوا جو حق سرا، اہلِ حشم نے
اُسی کا مُنہ جواہر سے بھرا ہے
بہن اَب بھی اُسے پہلا سا جانے
وُہ بھائی جو بیاہا جا چکا ہے
مسیحاؤں سے بھی شاید ہی جائے
چمن کو روگ اَب کے جو لگا ہے
ہمیں لگتا ہے کیوں نجمِ سحر سا
وُہ آنسو جو بہ چشمِ شب رُکا ہے
پھلوں نے پیڑ پر کرنا ہے سایہ
نجانے کس نے یہ قصّہ گھڑا ہے
اُترتے دیکھتا ہوں گُل بہ گُل وُہ
سخن جس میں خُدا خود بولتا ہے
بشارت ہے یہ فرعونوں تلک کو
درِ توبہ ہر اک لحظہ کھُلا ہے
نہیں مسجد میں کوئی اور ایسا
سرِ منبر ہے جو، اِک باصفا ہے
خُدا انسان کو بھی مان لوں مَیں
یہی شاید تقاضا وقت کا ہے
دیانت سے تقاضے وقت کے جو
نبھالے، وُہ یقینا دیوتا ہے
مداوا کیا ہمارے پیش و پس کا
جہاں ہر شخص دلدل میں پھنسا ہے
لگا وُہ گھُن یہاں بدنیّتی کا
جِسے اندر سے دیکھو کھوکھلا ہے
عناں مرکب کی جس کے ہاتھ میں ہے
وُہ جو کچھ بھی اُسے کہہ دے روا ہے
کشائش کو تو گرہیں اور بھی ہیں
نظر میں کیوں وُہی بندِ قبا ہے
بغیر دوستاں، سچ پُوچھئے تو
مزہ ہر بات ہی کا کرکرا ہے
بنا کر سیڑھیاں ہم جنس خُوں کی
وُہ دیکھو چاند پر انساں چلا ہے
پڑے چودہ طبق اُس کو اُٹھانے
قدم جس کا ذرا پیچھے پڑا ہے
مری کوتاہ دستی دیکھ کر وُہ
سمجھتا ہے وُہی جیسے خُدا ہے
تلاشِ رزق ہی میں چیونٹیوں سا
جِسے بھی دیکھئے ہر دم جُتا ہے
وُہی جانے کہ ہے حفظِ خودی کیا
علاقے میں جو دشمن کے گھِرا ہے
صبا منت کشِ تغئیرِ موسم
کلی کھِلنے کو مرہونِ صبا ہے
بصارت بھی نہ دی جس کو خُدا نے
اُسے روشن بدن کیوں دے دیا ہے
فنا کے بعد اور پہلے جنم سے
جدھر دیکھو بس اِک جیسی خلا ہے
ثمر شاخوں سے نُچ کر بے بسی میں
کن انگاروں پہ دیکھو جا پڑا ہے
یہاں جس کا بھی پس منظر نہیں کچھ
اُسے جینے کا حق کس نے دیا ہے
کوئی محتاج ہے اپنی نمو کا
کوئی تشنہ اُسی کے خُون کا ہے
وطن سے دُور ہیں گو مرد گھر کے
بحمداﷲ گھر تو بن گیا ہے
ٹلے خوں تک نہ اپنا بیچنے سے
کہو ماجدؔ یہ انساں کیا بلا ہے
ماجد صدیقی

کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
درِ ہجراں وہ دل پر آ کھُلا ہے
کسی اژدر سے جیسے سامنا ہے
جدھر ہے زندگی اور موت بھی ہے
پرندہ پھر اُسی جانب اُڑا ہے
اُدھر مہتاب سا چہرہ ہے اُس کا
اِدھر بے چین ساگر شوق کا ہے
جلائے جسم و جاں کو دمبدم جو
پسِ خواہش وہ پیکر آگ سا ہے
گیا ہے اَب کے یُوں وہ داغ دے کر
کہ جیسے پیڑ سے پتا گرا ہے
یہ وہ جانیں جنہیں نسبت ہے اُس سے
ہمیں کیا وہ بُرا ہے یا بھلا ہے
زباں پر نام ہے اُس کا کہ ماجدؔ
سرِ مژگاں کوئی آنسو رُکا ہے
ماجد صدیقی

ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 118
جھومتے ہیں یہ گل، ہوا اور مَیں
ہے نشہ اُس کی یاد کا اور میں
کھوجتے ہیں اسی کی خوشبو کو
مل کے باہم سحر، صبا اور میں
کس کی رہ دیکھتے ہیں ہم دونوں
موسموں سے دُھلی فضا اور میں
صورتِ موج، مضطرب ٹھہرے
اس سے ملنے کا مدّعا اور مَیں
صید ہیں کب سے نامرادی کے
کلبلاتی ہوئی دعا اور میں
زندگی بطن میں ہے کیا ماجدؔ
جانتے ہیں یہ ہم، خدا اور مَیں
ماجد صدیقی

اور بھید میں کائنات کا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 128
پانی یہ حباب سا اٹھا ہوں
اور بھید میں کائنات کا ہوں
خلوت میں وہ چاند دیکھنے کو
اشکوں میں کنول سا تیرتا ہوں
پانے کو فراز چاہتوں کا
مَیں دار پہ بارہا سجا ہوں
کیوں ہجر قبول کرکے اُس کا
پھر آگ میں کُودنے لگا ہوں
ہو کچھ بھی جو اختیار حاصل
خود وقت ہوں خود ہی مَیں خدا ہوں
کندن ہی مجھے کہو کہ لوگو!
مَیں دہر کی آگ میں جلا ہوں
رُکنے کا نہ ہو کہیں جو ماجدؔ
فریاد کا مَیں وہ سلسلہ ہوں
ماجد صدیقی

بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
لہُو کے ساتھ رگوں میں بھی سر سرانے لگا
بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا
عجیب سادہ و معصوم و دلنواز تھا وُہ
کہ ساتھ کھِلتے شگوفوں کے یاد آنے لگا
یہ اُس کی یاد ہے دل میں کہ واہمہ ہے کوئی
اُجاڑ گھر میں دیا سا ہے جھلملانے لگا
بغیرِ مُزد ملا اور پھر گیا بھی یونہی
گہر وہ ہاتھ مرے جانے کس بہانے لگا
اجاڑ پن سے ٹھٹک کر گیا تو پھر کیسے
غزال دشت میں دل کے مرے وہ آنے لگا
مجھے بھی کام ہے درپیش اب اُسی جیسا
وہی نہیں ہے مجھے جی سے کچھ بھُلانے کا
بچھڑ بھی جاؤں اُسے یاد بھی رہوں ماجدؔ
یہ سارے ناز مرے وہ کہاں اُٹھانے لگا
ماجد صدیقی

اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 9
برسوں کے بعد دیکھا اک شخص دلربا سا
اب ذہن میں نہیں ہے پر، نام تھا بھلا سا
ابرو کھچے کھچے سے آنکھیں جھکی جھکی سی
باتیں رکی رکی سی، لہجہ تھکا تھکا سا
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
پہلے بھی لوگ آئے کتنے ہی زندگی میں
وہ ہر طرح سے لیکن اوروں سے تھا جدا سا
اگلی محبتوں نے وہ نا مرادیاں دیں
تازہ رفاقتوں سے دل تھا ڈرا ڈرا سا
کچھ یہ کہ مدتوں سے ہم بھی نہیں تھے روئے
کچھ زہر میں بُجھا تھا احباب کا دلاسا
پھر یوں ہوا کے ساون آنکھوں میں آ بسے تھے
پھر یوں ہوا کہ جیسے دل بھی تھا آبلہ سا
اب سچ کہیں تو یارو ہم کو خبر نہیں تھی
بن جائے گا قیامت اک واقعہ ذرا سا
تیور تھے بے رُخی کے انداز دوستی کے
وہ اجنبی تھا لیکن لگتا تھا آشنا سا
ہم دشت تھے کہ دریا ہم زہر تھے کہ امرت
ناحق تھا زعم ہم کو جب وہ نہیں تھا پیاسا
ہم نے بھی اُس کو دیکھا کل شام اتفاقاً
اپنا بھی حال ہے اب لوگو فراز کا سا
احمد فراز

مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 97
عجب ہے رنگِ چمن، جا بجا اُداسی ہے
مہک اُداسی ہے، بادِ صبا اُداسی ہے
نہیں نہیں، یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے؟
میں ٹھیک ٹھاک ہوں، ہاں بس ذرا اُداسی ہے
میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اُداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اُداسی ہے
طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا، اُداسی ہے
گدازِ قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا؟
عظیم وصف ہی انسان کا اُداسی ہے
شدید درد کی رو ہے رواں رگِ جاں میں
بلا کا رنج ہے، بے انتہا اُداسی ہے
فراق میں بھی اُداسی بڑے کمال کی تھی
پسِ وصال تو اُس سے سِوا اُداسی ہے
تمہیں ملے جو خزانے، تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اُداسی ہے
چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیرِ قبا اُداسی ہے
مجھے مسائلِ کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اُداسی ہے
فلک ہے سر پہ اُداسی کی طرح پھیلا ہُوا
زمیں نہیں ہے مرے زیرِ پا، اُداسی ہے
غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرمِ درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا، اُداسی ہے
عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اُداسی ہے
وہ کیفِ ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اُداسی ہے
وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفان
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے، کیا اُداسی ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

ہجر کی شب اورایسا چاند؟

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 36
پُورا دکھ اور آدھا چاند!
ہجر کی شب اورایسا چاند؟
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہُوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہو گا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے مُنہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
آنسو روکے نُور نہائے
دل دریا،تن صحرا چاند
اِتنے روشن چہرے پر بھی
سُورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تونے کِس کو سوچا چاند
برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جُھولے میں
بھورسمے تک سویا چاند
رات کے شانوں پرسر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سُوکھے پتوں کے جُھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اُس کی صُورت ہجر کا چاند
صحر اصحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق کا سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہو گا میرا چاند
پروین شاکر

تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 9
یہ تو نے کیا کہا خونِ تمنا ہو نہیں سکتا
تری مہندی تو سلامت ہے تو کیا کیا ہو نہیں سکتا
پڑھے گر لاکھ ماہِ چرخ تم سا ہو نہیں سکتا
یہ صورت ہو نہیں سکتی یہ نقشہ ہو نہیں سکتا
کروں سجدے میں اے بت مجھ سے ایسا ہو نہیں سکتا
خدا تو ہو نہیں سکتا میں بندہ ہو نہیں سکتا
قفس سے چھوٹ کر صیاد جائیں تو کیا جائیں
ہمیں تو آشیاں بھی اب مہیا ہو نہیں سکتا
گناہ گاروں کا مجمع سب سے آگے ہو گا اے واعظ
تجھے دیدار بھی پہلے خدا کا ہو نہیں سکتا
نہ دینا آشیاں کو آگ ورنہ جان دے دیں گے
ہمارے سامنے صیاد ایسا ہو نہیں سکتا
انہیں پر منحصر کیا آزما بیٹھے زمانے کو
قمر سچ تو یہ ہے کوئی کسی کا ہو نہیں سکتا
قمر جلالوی

رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 51
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر
ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر
خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر
سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر
ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر
ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر
اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر
میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر
التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر
دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر
بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر
پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر
یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر
ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
مصطفٰی خان شیفتہ

مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 34
یار کو محرومِ تماشا کیا
مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا
آپ جو ہنستے رہے شب بزم میں
جان کو دشمن کی میں رویا کیا
عرضِ تمنا سے رہا بے قرار
شب وہ مجھے، میں اسے چھیڑا کیا
سرد ہوا دل، وہ ہے غیروں سے گرم
شعلے نے الٹا مجھے ٹھنڈا کیا
مہرِ قمر کا ہے اب ان کو گمان
آہِ فلک سیر نے یہ کیا کیا
ان کو محبت ہی میں شک پڑ گیا
ڈر سے جو شکوہ نہ عدو کا کیا
دیکھئے اب کون ملے خاک میں
یار نے گردوں سے کچھ ایما کیا
حسرتِ آغوش ہے کیوں ہم کنار
غیر سے کب اس نے کنارا کیا
چشمِ عنایت سے بچی جاں مجھے
نرگسِ بیمار نے اچھا کیا
غیر ہی کو چاہیں گے اب شیفتہ
کچھ تو ہے جو یار نے ایسا کیا
مصطفٰی خان شیفتہ

انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 21
کیا لائقِ زکوٰۃ کوئی بے نوا نہ تھا
انفاسِ باد میں نفسِ آشنا نہ تھا
اس قوم کی سرشت میں ہے کم محبتی
شکوہ جو اس سے تھا مجھے ہرگز بجا نہ تھا
تاثیرِ نالہ نکتۂ بعد الوقوع ہے
یاں غیرِ رسم اور کوئی مدعا نہ تھا
وحشت تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ تپش نہ تھی
شورش تھی مجھ کو پہلے بھی، پر یہ مزا نہ تھا
ان کی نگاہِ ناز عجب تازیانہ تھی
مقدور پھر اُدھر نظرِ شوق کا نہ تھا
افسوس وہ مظاہرِ کونی میں پھنس گیا
جو عالمِ عقول سے نا آشنا نہ تھا
شرماتے اس قدر رہے کیوں آپ رات کو
مدت سے گو ملے تھے مگر میں نیا نہ تھا
بے پردہ ان کے آنے سے حیرت ہوئی مجھے
وصلِ عدو کی رات تھی روزِ جزا نہ تھا
نان و نمک کی تھی ہمیں توفیق شیفتہ
ساز و نوا کے واسطے برگ و نوا نہ تھا
مصطفٰی خان شیفتہ

اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 109
غم ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آ رہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب غم شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے زندگی بتا کہ سرِ جادہ ءِ شتاب
یہ کون کھو گیا ہے کسے ڈھونڈتا ہوں میں
اے وحشتو! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آ گیا ہوں میں
شعر و شعور اور یہ شہرِ شمار شور
بس ایک قرض ہے جو ادا کر رہا ہوں میں
یہ تلخیاں یہ زخم، یہ ناکامیاں یہ غم
یہ کیا ستم کہ اب بھی ترا مدعا ہوں میں
میں نے غم حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
معصوم کس قدر تھا میں آغازِ عشق میں
اکثر تو اس کے سامنے شرما گیا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
وہ اہلِ شہر کون تھے وہ شہر تھا کہاں
ان اہلِ شہر میں سے ہوں اس شہر کا ہوں میں
جون ایلیا

عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 96
یہاں معنی کا بے صورت صلا نئیں
عجب کچھ میں نے سوچا ہے لکھا نئیں
ہیں سب اک دوسرے کی جستجو میں
مگر کوئی کسی کو بھی ملا نئیں
ہمارا ایک ہی تو مدعا تھا
ہمارا اور کوئی مدعا نئیں
کبھی خود سے مکر جانے میں کیا ہے
میں دستاویز پر لکھا ہوا نئیں
یہی سب کچھ تھا جس دم وہ یہاں تھا
چلے جانے پہ اس کے جانے کا نئیں
بچھڑ کے جان تیرے آستاں سے
لگا جی بہت پر جی لگا نئیں
جدائی اپنی بے روداد سی تھی
کہ میں رویا نہ تھا اور پھر ہنسا نئیں
وہ ہجر و وصل تھا سب خواب در خواب
وہ سارا ماجرا جو تھا، وہ تھا نئیں
بڑا بے آسرا پن ہے سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ خدا نئیں
جون ایلیا

حالتِ حال یک صدا مانگو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 72
کوئے جاناں میں اور کیا مانگو
حالتِ حال یک صدا مانگو
ہر نفس تم یقینِ منعم سے
رزق اپنے گمان کا مانگو
ہے اگر وہ بہت ہی دل نزدیک
اس سے دُوری کا سلسلہ مانگو
درِ مطلب ہے کیا طلب انگیز
کچھ نہیں واں سو کچھ بھی جا مانگو
گوشہ گیرِ غبارِ ذات ہوں میں
مجھ میں ہو کر مرا پتا مانگو
مُنکرانِ خدائے بخشزہ
اس سے تو اور اک خدا مانگو
اُس شکمِ رقص گر کے سائل ہو
ناف پیالے کی تم عطا مانگو
لاکھ جنجال مانگنے میں ہیں
کچھ نہ مانگو فقط دُعا مانگو
جون ایلیا

جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 258
مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے، اور ماتم بال و پر کا ہے
وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہاے حزیں کا کس نے دیکھا ہے
نہ لائی@ شوخئ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی
کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے
@ نہ لائے ۔ نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 243
بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے
یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں
ہُما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے
غلط ہی ہو گئ تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے
اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کو جٹا سمجھے
نباتاتِ زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذاللہ
اسے برق اور اُسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے
گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹاکر ان کو نسبت دیں
اسے ظلمات، اُسے ہم چشمۂ آبِ بقا سمجھے
جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے
یدِ بیضا اسے اور اُس کو موسیٰ کا عصا سمجھے
جو اس تشبیہ سے بھی داغ اُن کو آتا ہو
اسے وقتِ نمازِ صبح اور اُس کو عشاء سمجھے
جو یہ نسبت پسندِ خاطرِ والا نہ ہو تو پھر
اسے قندیلِ کعبہ، اُس کو کعبے کی ردا سمجھے
اسدؔ ان ساری تشبیہوں کو رد کرکے یہ کہتا ہے
سویدا اِس کو سمجھے اُس کو ہم نورِ خدا سمجھے
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 234
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے
جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستئِ اشیا مرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گِھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیو ں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئنہ سیما مرے آگے
پھر دیکھیے اندازِ گل افشانئِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں، لو نام نہ ان کا مرے آگے
ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 217
درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے
ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے
ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے
رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے
عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے
دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے
موت آتی نہیں کہیں غالب
کب تک افسوس زیست کا کیجے
نوٹ از مولانا مہر: یہ غزل مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہے لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 153
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہو جیو
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی ، واہ واہ !
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک
غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِ درد
زخم ، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک
یاد ہیں غالب ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک
مرزا اسد اللہ خان غالب

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 70
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز”
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، "کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا”
شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن” نقّاشِ یک تمثالِ شیریں” تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
مرزا اسد اللہ خان غالب

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 69
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا
ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا
گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا
تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا
بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالب
چشم کو چاہئے ہر رنگ میں وا ہو جانا
مرزا اسد اللہ خان غالب

رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہواداروں کا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 3
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہواداروں کا
مرزا اسد اللہ خان غالب

دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے

دیوان چہارم غزل 1520
جب سے ستارہ صبح کا نکلا تب سے آنسو جھمکا ہے
دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے
آمد ورفت دم کے اوپر ہم نے بناے زیست رکھی
دم سو ہوا ہے آوے نہ آوے کس کو بھروسا دم کا ہے
گہ صوفی چل میخانے میں لطف نہیں اب مسجد میں
ابر ہے باراں بائو ہے نرمک رنگ بدن میں جھمکا ہے
کیا امید رہائی رکھے ہم سا رفتہ وارفتہ
دل اپنا تو زنجیری اس زلف خم در خم کا ہے
دل کی نہیں بیماری ایسی جس میں ہو امیدبہی
کیا سنبھلے گا میر ستم کش وہ تو مارا غم کا ہے
میر تقی میر

سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا

دیوان چہارم غزل 1312
کرتا ہوں اللہ اللہ درویش ہوں سدا کا
سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی
زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا
یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد
جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا
کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن
ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا
ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی
ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا
ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں
مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا
آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو
جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا
یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا
کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے
مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا
زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی
میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے
آگے بھی میر سید کرتے گئے ہیں ساکا
میر تقی میر

حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق

دیوان سوم غزل 1158
کیا حقیقت کہوں کہ کیا ہے عشق
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
دل لگا ہو تو جی جہاں سے اٹھا
موت کا نام پیار کا ہے عشق
اور تدبیر کو نہیں کچھ دخل
عشق کے درد کی دوا ہے عشق
کیا ڈبایا محیط میں غم کے
ہم نے جانا تھا آشنا ہے عشق
عشق سے جا نہیں کوئی خالی
دل سے لے عرش تک بھرا ہے عشق
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق
عشق ہے عشق کرنے والوں کو
کیسا کیسا بہم کیا ہے عشق
کون مقصد کو عشق بن پہنچا
آرزو عشق مدعا ہے عشق
میر مرنا پڑے ہے خوباں پر
عشق مت کر کہ بدبلا ہے عشق
میر تقی میر

خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا

دیوان سوم غزل 1100
کل رات رو کے صبح تلک میں رہا گرا
خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا
اب شہر خوش عمارت دل کا ہے کیا خیال
ناگاہ آ کے عشق نے مارا جلا گرا
کیا طے ہو راہ عشق کی عاشق غریب ہے
مشکل گذر طریق ہے یاں رہگرا گرا
لازم پڑی ہے کسل دلی کو فتادگی
بیمار عشق رہتا ہے اکثر پڑا گرا
ٹھہرے نہ اس کے عشق کا سرگشتہ و ضعیف
ٹھوکر کہیں لگی کہ رہا سرپھرا گرا
دے مارنے کو تکیہ سے سر ٹک اٹھا تو کیا
بستر سے کب اٹھے ہے غم عشق کا گرا
پھرتا تھا میر غم زدہ یک عمر سے خراب
اب شکر ہے کہ بارے کسی در پہ جا گرا
میر تقی میر

کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل

دیوان دوم غزل 853
بہت مدت گئی ہے اب ٹک آ مل
کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل
ٹک اس بے رنگ کے نیرنگ تو دیکھ
ہوا ہر رنگ میں جوں آب شامل
نہیں بھاتا ترا مجلس کا ملنا
ملے تو ہم سے تو سب سے جدا مل
غنیمت جان فرصت آج کے دن
سحر کیا جانے کیا ہو شب ہے حامل
اگرچہ ہم نہیں ملنے کے لائق
کسو تو طرح ہم سے بھی بھلا مل
لیا زاہد نے جام بادہ کف پر
بحمد اللہ کھلا عقد انامل
وہی پہنچے تو پہنچے آپ ہم تک
نہ یاں طالع رسا نے جذب کامل
ہوا دل عشق کی سختی سے ویراں
ملائم چاہیے تھا یاں کا عامل
پس از مدت سفر سے آئے ہیں میر
گئیں وہ اگلی باتیں تو ہی جا مل
میر تقی میر

گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا

دیوان اول غزل 117
تیرے قدم سے جا لگی جس پہ مرا ہے سر لگا
گو کہ مرے ہی خون کی دست گرفتہ ہو حنا
سنگ مجھے بجاں قبول اس کے عوض ہزار بار
تابہ کجا یہ اضطراب دل نہ ہوا ستم ہوا
کس کی ہوا کہاں کاگل ہم تو قفس میں ہیں اسیر
سیر چمن کی روز و شب تجھ کو مبارک اے صبا
کن نے بدی ہے اتنی دیر موسم گل میں ساقیا
دے بھی مئے دوآتشہ زورہی سرد ہے ہوا
وہ تو ہماری خاک پر آ نہ پھرا کبھی غرض
ان نے جفا نہ ترک کی اپنی سی ہم نے کی وفا
فصل خزاں تلک تو میں اتنا نہ تھا خراب گرد
مجھ کو جنون ہو گیا موسم گل میں کیا بلا
جان بلب رسیدہ سے اتنا ہی کہنے پائے ہم
جاوے اگر تو یار تک کہیو ہماری بھی دعا
بوے کباب سوختہ آتی ہے کچھ دماغ میں
ہووے نہ ہووے اے نسیم رات کسی کا دل جلا
میں تو کہا تھا تیرے تیں آہ سمجھ نہ ظلم کر
آخرکار بے وفا جی ہی گیا نہ میر کا
میر تقی میر

یا تو بیگانے ہی رہیے ہوجیے یا آشنا

دیوان اول غزل 30
کیا طرح ہے آشنا گاہے گہے نا آشنا
یا تو بیگانے ہی رہیے ہوجیے یا آشنا
پائمال صد جفا ناحق نہ ہو اے عندلیب
سبزئہ بیگانہ بھی تھا اس چمن کا آشنا
کون سے یہ بحرخوبی کی پریشاں زلف ہے
آتی ہے آنکھوں میں میری موج دریا آشنا
رونا ہی آتا ہے ہم کو دل ہوا جب سے جدا
جاے رونے ہی کی ہے جاوے جب ایسا آشنا
ناسمجھ ہے تو جو میری قدر نئیں کرتا کہ شوخ
کم بہت ملتا ہے پھر دلخواہ اتنا آشنا
بلبلیں پائیز میں کہتی تھیں ہوتا کاشکے
یک مژہ رنگ فراری اس چمن کا آشنا
کو گل و لالہ کہاں سنبل سمن ہم نسترن
خاک سے یکساں ہوئے ہیں ہائے کیا کیا آشنا
کیا کروں کس سے کہوں اتنا ہی بیگانہ ہے یار
سارے عالم میں نہیں پاتے کسی کا آشنا
جس سے میں چاہی وساطت ان نے یہ مجھ سے کہا
ہم تو کہتے گر میاں ہم سے وہ ہوتا آشنا
یوں سنا جا ہے کہ کرتا ہے سفر کا عزم جزم
ساتھ اب بیگانہ وضعوں کے ہمارا آشنا
شعر صائبؔ کا مناسب ہے ہماری اور سے
سامنے اس کے پڑھے گر یہ کوئی جا آشنا
تابجاں ما ہمرہیم و تا بمنزل دیگراں
فرق باشد جان ما از آشنا تا آشنا
داغ ہے تاباں علیہ الرحمہ کا چھاتی پہ میر
ہو نجات اس کو بچارا ہم سے بھی تھا آشنا
میر تقی میر

رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 32
صحن گلشن میں گونجی صدائے صبا، ہر کوئی ناچتا ہے
رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے
کچھ گھڑی پیشتر حبس ہی حبس تھا، پھر اچانک ہوا کا
نعرۂ مست بستی میں اونچا ہوا، ہر کوئی ناچتا ہے
پھر بپا ہو گیا ایک جشن کہن قریۂ پُر فضا میں
پھر قبیلۂ نخلاں ہے نغمہ سرا، ہر کوئی ناچتا ہے
آبجوئے سرِ شہر نے لہر میں آ کے سرگوشیاں کیں
خود میں ٹھہرے ہوئے جوہڑوں کے سوا ہر کوئی ناچتا ہے
ایک پردے کا ہے فاصلہ زاہد و زہد کے درمیاں بھی
کوئی مانے نہ مانے درونِ قبا، ہر کوئی ناچتا ہے
پھر بدن کا لہو وجد میں آ گیا، دیکھ کر اُس حسیں کو
دھڑکنوں نے کہا دھڑکنوں نے سنا، ہر کوئی ناچتا ہے
عرش و ابر و ستارہ و مہتاب سب، ڈگمگانے لگے جب
سمفنی چھیڑ دے نغمہ گر بحر کا، ہر کوئی ناچتا ہے
ژن ژن تھیاؤ کی خالق محترمہ تائے آوے لیان کی نذر
آفتاب اقبال شمیم

دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 13
راہ کی بے سمتیوں کا ہر گھڑی کھٹکا ہوا
دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا
چاندنی جیسی کوئی شے پی کے نکلیں سیر کو
جب ستاروں سے ہو باغِ آسماں چٹکا ہوا
چشم و لب پر مُسکراتی رغبتیں تسخیر کی
اور گردن میں سنہرا سا فسوں لٹکا ہوا
رہ گیا آنکھوں میں وُہ نقشِ تمام و ناتمام
طرۂ کا کُل رُخِ دیوار پر جھٹکا ہوا
ٹوٹ کر جینے کی حسرت میں جیا ہوں اس طرح
جیسے بچّے کی زباں پر لفظ ہو اٹکا ہوا
آنکھ میں سپنا ترا اُترا تو اس سے پیشتر
کچھ گماں سا کاسنی رنگوں کی آہٹ کا ہوا
آفتاب اقبال شمیم

موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 26
رنگ پیرہن کا خوشبو ، زلف لہرانے کا نام
موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
دوستو ، اُس چشم و لب کی کچھ کہو جس کے بغیر
گلستاں کی بات رنگیں ہے، نہ میخانے کا نام
پھر نظر میں پھول مہکے، دل میں پھر شمعیں جلیں
پھر تصور نے لیا اُس بزم میں جانے کا نام
دلبری ٹھہرا زبانِ خلق کھلوانے کا نام
اب نہیں لیتے پری رُو زلف بکھرانے کا نام
اب کسی لیلیٰ کو بھی اقرارِ محبوبی نہیں
ان دنوں بدنام ہے ہر ایک دیوانے کا نام
محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا ، ساقی کا، مے کا، خُم کا ،پیمانے کانام
ہم سے کہتے ہیں چمن والے، غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
فیض اُن کو ہے تقاضائے وفا ہم سے جنہیں
آشنا کے نام سے پیارا ہے بیگانے کا نام
فیض احمد فیض

اپنے طغیان کی سزا یہ خیال

مجید امجد ۔ غزل نمبر 193
نئی صبحوں کی سیر کا یہ خیال
اپنے طغیان کی سزا یہ خیال
میّتوں کو لحد میں کلپائے
ہو سکے سجدہ اک ادا، یہ خیال
سب کی روحیں تھیں ریت کے بربط
اک مری زیست میں جیا یہ خیال
اتنے رنگوں میں یہ گلاب کے پھول
اتنے رنگوں میں موت کا یہ خیال
ابر ہیں امجد اور یہ جنتِ برگ
دیکھ سمتوں کو ربط کا یہ خیال
وفات کے بعد نامکمل شکل میں ملی
مجید امجد

میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 174
اور اَب یہ کہتا ہوں، یہ جرم تو روا رکھتا
میں عمر اپنے لیے بھی تو کچھ بچا رکھتا
خیال صبحوں، کرن ساحلوں کی اوٹ سدا
میں موتیوں جڑی بنسی کی لے جگا رکھتا
جب آسماں پہ خداؤں کے لفظ ٹکراتے
میں اپنی سوچ کی بےحرف لو جلا رکھتا
ہوا کے سایوں میں، ہجر اور ہجرتوں کے وہ خواب
میں اپنے دل میں وہ سب منزلیں سجا رکھتا
انھی حدوں تک ابھرتی یہ لہر جس میں ہوں میں
اگر میں سب یہ سمندر بھی وقت کا رکھتا
پلٹ پڑا ہوں شعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے
نشیبِ زینۂ ایام پر عصا رکھتا
یہ کون ہے جو مری زندگی میں آ آ کر
ہے مجھ میں کھوئے مرے جی کو ڈھونڈھتا، رکھتا
غموں کے سبز تبسم سے کنج مہکے ہیں
سمے کے سم کے ثمر ہیں، میں اور کیا رکھتا
کسی خیال میں ہوں یا کسی خلا میں ہوں
کہاں ہوں، کوئی جہاں تو مرا پتا رکھتا
جو شکوہ اب ہے، یہی ابتدا میں تھا امجد
کریم تھا، مری کوشش میں انتہا رکھتا
مجید امجد

یہ صراحی میں پھول نرگس کا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 44
میری مانند خودنگر، تنہا
یہ صراحی میں پھول نرگس کا
اتنی شمعیں تھیں تیری یادوں کی
اپنا سایہ بھی اپنا سایہ نہ تھا
میرے نزدیک تیری دوری تھی
کوئی منزل تھی، کوئی عالم تھا
ہائے وہ زندگی فریب آنکھیں
اس نے کیا سوچا، میں نے کیا سمجھا
صبح کی دھوپ ہے کہ رستوں پر
منجمد بجلیوں کا اک دریا
گھنگھروؤں کی جھنک منک میں بسی
تیری آہٹ، میں کس خیال میں تھا
کون یاد آ گیا تھا، یاد نہیں
دل بھی اک ضرب بھول بھول گیا
سارے بندھن کڑے سہی، لیکن
تجھ سے یہ ربط، دھندلا اور گہرا
پھر کہیں دل کے برج پر کوئی عکس
فاصلوں کی فصیل سے ابھرا
پھول مرجھا نہ جائیں بجروں میں
مانجھیو! کوئی گیت ساحل کا
وقت کی سرحدیں سمٹ جاتیں
تیری دوری سے کچھ بعید نہ تھا
عمر جلتی ہے، بخت جلووں کے
زیست مٹتی ہے، بھاگ مٹی کا
رہیں دردوں کی چوکیاں چوکس
پھول لوہے کی باڑ پر بھی کھلا
جو خود ان کے دلوں میں تھا تہہِ سنگ
وہ خزانہ کسی کسی کو ملا
لاکھ قدریں تھیں زندگانی کی
یہ محیط اک عجیب زاویہ تھا
سانس کی رو میں رونما طوفاں
تیغ کی دھار پر بہے دھارا
ہے جو یہ سر پہ گیان کی گٹھڑی
کھول کر بھی اسے کبھی دیکھا؟
روز جھکتا ہے کوئے دِل کی طرف
کاخِ صد بام کا کوئی زینہ
امجد، ان آنسوؤں کو آگ لگے
کتنا نرم اور گراں ہے یہ دریا
مجید امجد

کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا

مجید امجد ۔ غزل نمبر 35
چہرہ اداس اداس تھا، میلا لباس تھا
کیا دن تھے، جب خیالِ تمنا لباس تھا
عریاں، زمانہ گیر، شررگوں جبلتیں
کچھ تھا تو ایک برگ دِل ان کا لباس تھا
اس موڑ پر ابھی جسے دیکھا ہے، کون تھا؟
سنبھلی ہوئی نگاہ تھی، سادہ لباس تھا
یادوں کے دھندلے دیس! کھلی چاندنی میں رات
تیرا سکوت کس کی صدا کا لباس تھا؟
ایسے بھی لوگ ہیں جنہیں پرکھا تو ان کی روح
بےپیرہن تھی، جسم سراپا لباس تھا
صدیوں کے گھاٹ پر، بھرے میلوں کی بھیڑ میں
اے دردِ شادماں، ترا کیا کیا لباس تھا
دیکھا تو دل کے سامنے، سایوں کے جشن میں
ہر عکسِ آرزو کا انوکھا لباس تھا
امجد، قبائے شہ تھی کہ چولا فقیر کا
ہر بھیس میں ضمیر کا پردا لباس تھا
مجید امجد

اک تو کہ ہے طلسمِ شب و روز کا شکار

مجید امجد ۔ غزل نمبر 73
اک وہ کہ جن کی فکر ہے ارض و سما شکار
اک تو کہ ہے طلسمِ شب و روز کا شکار
لاؤ کہیں سے کوئی ضمیرِ فرشتہ صید
ڈھونڈو کہیں سے کوئی نگاہِ خدا شکار
اس انجمن میں دیکھیے اہلِ وفا کے ظرف
کوئی اداشناس ہے کوئی اداشکار
آتا ہے خود ہی چوٹ پہ صیدِ سبک مراد
ہوتا ہے ورنہ کون ز کارِ قضا شکار
ظلِ ہما کی اوٹ میں چلّے پہ تیر رکھ
آساں نہیں نگاہ کے نخچیر کا شکار
جولاں گہِ حیات انھی کی ہے، دوستو
فتراک میں ہے جن کے دلِ مدعا شکار
مجید امجد

ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گھٹی میں ہے وِلا کا وہ نشہ پڑا ہوا
ٹھوکر پہ مارتا ہوں خزانہ پڑا ہوا
صدیوں سے چاکرِ درِ حیدرؑ ہوں دیکھ لو
گردن میں میری طوق ہے اُن کا پڑا ہوا
اور یہ بھی دیکھ لو اسی نسبت کے فیض سے
پیروں پہ ہے مرے سگِ دُنیا پڑا ہوا
سورج کے بعد ماہِ منوّر ہوا طلوُع
تھا بزمِ چار سوُ میں اندھیرا پڑا ہوا
باطل تمام حق سے الگ ہو کے جا گرا
کیا دستِ ذوالفقار تھا سچا پڑا ہوا
اُن کا فقیر دولتِ عالم سے بے نیاز
کاسے میں کائنات کا ٹکڑا پڑا ہوا
اپنے لہو میں مست ہیں تشنہ لبانِ عشق
صحرا میں چھوڑ آئے ہیں دریا پڑا ہوا
بخشش سو بے حساب، نوازش سو بے حساب
ہے مدح گو کو مدح کا چسکا پڑا ہوا
عرفان صدیقی

اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 15
رُکا ہوا ہے یہ صحرا میں قافلہ کیسا
اور ایک شور سا خیموں میں ہے بپا کیسا
اسیر کس نے کیا موج موج پانی کو
کنارِ آپ ہے پہرا لگا ہوا کیسا
ابھی سیاہ، ابھی سیم گوں، ابھی خوُنبار
اُفق اُفق ہے یہ منظر گریز پا کیسا
اذان ہے کہ علم کیا بلند ہوتا ہے
یہ جل رہا ہے ہوا میں چراغ سا کیسا
یہ لوگ دشت جفا میں کسے پُکارتے ہیں
یہ بازگشت سناتی ہے مرثیہ کیسا
گلوئے خشک میں سوکھی پڑی ہے پیاس کی نہر
خبر نہیں کہ ہے پانی کا ذائقہ کیسا
وہ مہربان اجازت تو دے رہا ہے مگر
یہ جاں نثار ہیں مقتل سے لوٹنا کیسا
یہ ایک صف بھی نہیں ہے، وہ ایک لشکر ہے
یہاں تو معرکہ ہو گا، مقابلہ کیسا
سلگتی ریت میں جو شاخ شاخ دفن ہوا
رفاقتوں کا شجر تھا ہرا بھرا کیسا
یہ سرُخ بوُند سی کیا گھل رہی ہے پانی میں
یہ سبز عکس ہے آنکھوں میں پھیلتا کیسا
کھڑا ہے کون اکیلا حصارِ غربت میں
گھرا ہوا ہے اندھیروں میں آئنہ کیسا
یہ ریگِ زرد ردا ہے برہنہ سر کے لیے
اُجاڑ دشت میں چادر کا آسرا کیسا
سیاہ نیزوں پہ سورج اُبھرتے جاتے ہیں
سوادِ شام ہے منظر طلوع کا کیسا
تجھے بھی یاد ہے اے آسماں کہ پچھلے برس
مری زمین پہ گزرا ہے سانحہ کیسا
عرفان صدیقی

زندگی کا کہیں ہو گیا قتل ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 618
اک دیے کا ہوانے کیا قتل ہے
زندگی کا کہیں ہو گیا قتل ہے
تیرے کالر پہ جو سج گیا ہے گلاب
تیلیوں کیلئے پھول کا قتل ہے
دین نے ایک انسان کے قتل کو
ساری انسانیت کا کہا قتل ہے
دل نے چاہا اسی وقت اس کاقصاص
جب کسی بے گنہ کا ہوا قتل ہے
اپنے نزدیک انسانی اعمال میں
جرم کی آخری انتہا قتل ہے
بے گناہی کا جو شخص قاتل ہوا
صرف منصور اس کا روا قتل ہے
منصور آفاق

میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 476
میں نے کیا دیکھنا تھا ویسے بھی
میں وہاں سو رہا تھا ویسے بھی
اس کی آنکھیں بدلنے والی تھیں
اور میں بے وفا تھا ویسے بھی
اس نے مجھ کو پڑھانا چھوڑ دیا
میں بڑا ہو گیا تھا ویسے بھی
کچھ مزاج آشنا نہ تھی دنیا
کچھ تعلق نیا تھا ویسے بھی
کچھ ضروری نہیں تھے درد و الم
میں اسے پوجتا تھا ویسے بھی
چاند شامل ہوا صفِ شب میں
دن اکیلا کھڑا تھا ویسے بھی
ذکر چل نکلا خوبروئی کا
یاد وہ آ رہا تھا ویسے بھی
میں اکیلا کبھی نہیں سویا
میں نے اس کو کہا تھا ویسے بھی
اس نے چاہا نہیں مجھے منصور
میں کسی اور کا تھا ویسے بھی
منصور آفاق

یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 231
اجنبی ہے کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
یہ تو منصور کا چہرہ نہیں لگتا مجھ کو
اتنے ناپاک خیالات سے لتھڑی ہے فضا
حرفِ حق کہنا بھی اچھا نہیں لگتا مجھ کو
قتل تو میں نے کیا رات کے کمرے میں اسے
اور یہ واقعہ سپنا نہیں لگتا مجھ کو
پھر قدم وقت کے مقتل کی طرف اٹھے ہیں
یہ کوئی آخری نوحہ نہیں لگتا مجھ کو
وقت نے سمت کو بھی نوچ لیا گھاس کے ساتھ
چل رہا ہوں جہاں رستہ نہیں لگتا مجھ کو
کیسی تنہائی سی آنکھوں میں اتر آئی ہے
میں ہی کیا کوئی اپنا نہیں لگتا مجھ کو
موت کا کوئی پیالہ تھا کہ وہ آبِ حیات
جسم سقراط کا مردہ نہیں لگتا مجھ کو
اب تو آنکھیں بھی ہیں سورج کی طنابیں تھامے
اب تو بادل بھی برستا نہیں لگتا مجھ کو
ٹین کی چھت پہ گرا ہے کوئی کنکر منصور
شور ٹوٹے ہوئے دل کا نہیں لگتا مجھ کو
منصور آفاق

عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 218
سچ کہوں کیا کہ موسیٰ عصا دار ہم
عہدِ فرعون کے بھی فسوں کا ہم
ہم خذف ریزے مٹی کے ہم ٹھیکرے
نقشِ تہذیب کے کہنہ آثار ہم
ہم ہی تختِ سلیماں کی تاریخ ہیں
اشک آباد ہیکل کی دیوار ہم
ہم حسن کوزہ گر ہم ہی بغداد ہیں
اک گذشتہ خلافت کی دستار ہم
ہم ہیں خاک نگاراں کی تشکیل گاہ
موت کی گرد سے لکھے کردار ہم
ہر طرف سرخ پانی کے سیلا ب میں
تربتر،ٹوٹے کوزوں کے انبار ہم
ٹوٹنے کی صدائے ستم،ہرطرف
ایک آوازِ تخریب کا وار ہم
جو صلیبوں کی میخوں میں مردہ ہوا
اُس خدا زاد عیسیٰ کا انکار ہم
اک طرف ہم ہی منصور گرداب ہیں
اک طرف بہتی کشتی کے پتوار ہم
منصور آفاق

ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 145
کسی نے کچھ کہا ہے کیا، کہاں یہ چل دیا سورج
ابھی دیکھا تھا اپنی روشنی کے ساتھ تھا سورج
اسے معلوم تھی شاید مری راتوں کی برفابی
مری آنکھوں کے بالکل سامنے دن بھر رہا سورج
چپک جاتا ہے خاموشی سے میرے ساتھ بستر میں
یہ نم دیدہ دسمبر کی اداسی سے بھرا سورج
برہنہ پانیوں پر شام کی کرنیں ٹپکتی تھیں
مگر پھر یوں ہوا نیلا سمندر ہو گیا سورج
مرے دریا کے پانی کو ہوا ہونے نہیں دیتا
کہیں برفیلے کہساروں کو پگھلاتا ہوا سورج
یہ کافی دیر سے کھڑکی کھلی ہے میرے کمرے کی
ابھی نکلا نہیں ہے اِس گلی میں صبح کا سورج
ابھی کچھ دیر رہنا چاہتا ہوں میں اجالوں میں
بلاتا ہے مجھے اپنی طرف پھر ڈوبتا سورج
مجھے دل کی گلی میں بھی تپش محسوس ہوتی ہے
خود اپنے ہجر میں اتنا زیادہ جل بجھا سورج
اُدھر پوری طرح اترا نہیں وہ روشنی کا تھال
نکلتا آ رہا ہے یہ کدھر سے دوسرا سورج
رکھا ہے ایک ہی چہرہ بدن کے بام پر میں نے
کوئی مہتاب کہتا ہے کسی کا تبصرہ سورج
نگاہوں کو شعاعوں کی ضرورت تھی بہت لیکن
کہاں تک میری گلیوں میں مسلسل جاگتا سورج
جہاں اس وقت روشن ہے تبسم تیرے چہرے کا
انہی راتوں میں برسوں تک یہ آوارہ پھرا سورج
اسے اچھے نہیں لگتے سلگتے رتجگے شاید
اکیلا چھوڑ جاتا ہے ہمیشہ بے وفا سورج
اجالے کا کفن بُننا کوئی آساں نہیں ہوتا
نظر آتا ہے شب کے پیرہن سے جا بجا سورج
ابھرنا ہی نہیں میں نے نکلنا ہی نہیں میں نے
اتر کر عرش کے نیچے یہی ہے سوچتا سورج
افق پر اک ذرا آندھی چلی تھی شام کی منصور
کہیں ٹوٹی ہوئی ٹہنی کی صورت گر پڑا سورج
منصور آفاق

چلنے لگے تو راستہ تقسیم ہو گیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 129
دونوں طرف ذرا ذرا تقسیم ہو گیا
چلنے لگے تو راستہ تقسیم ہو گیا
کچھ دیدئہ سیاہ میں کچھ تیرہ بخت میں
کاجل شبِ فراق کا تقسیم ہو گیا
پہلے پہل تو ہنس پڑے سن کر کسی کی بات
پھر آنسوئوں میں حوصلہ تقسیم ہو گیا
خود کو کیا تھا جمع بڑی مشکلوں کے ساتھ
پھر کرچیوں میں بٹ گیا تقسیم ہو گیا
محسوس یوں ہوا کسی زلفِ سیہ کا لمس
شانوں پہ جیسے ابر سا تقسیم ہو گیا
منصور یادِ یار کے انبوہ میں کہیں
وہ دل جو دوست اپنا تھا تقسیم ہو گیا
منصور آفاق

گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 127
خوابِ وصال میں بھی خرابہ اتر گیا
گالی لہک اٹھی کبھی جوتا اتر گیا
میں نے شبِ فراق کی تصویر پینٹ کی
کاغذ پہ انتظار کا چہرہ اتر گیا
کوئی بہشتِ دید ہوا اور دفعتاً
افسوس اپنے شوق کا دریا اتر گیا
رش اتنا تھا کہ سرخ لبوں کے دباؤ سے
اندر سفید شرٹ کے بوسہ اتر گیا
اس خواب کے مساج کی وحشت کا کیا کہوں
سارا بخار روح و بدن کا اتر گیا
کچھ تیز رو گلاب تھے کھائی میں جا گرے
ڈھلوان سے بہار کا پہیہ اتر گیا
منصور جس میں سمت کی مبہم نوید تھی
پھر آسماں سے وہ بھی ستارہ اتر گیا
منصور آفاق

وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 125
وہ چشم سراپا حیرت تھی کیا میں نے کیا
وہ اس کا مکاں تھا اپنا پتہ جا میں نے کیا
ہے فکر مجھے انجام مرے ہاتھوں سے نہ ہو
آغاز کا کیا ہے اس نے کیا یا میں نے کیا
کچھ زخم گلی کے بلب تلے تحریر کیے
پھر اپنے لہو سے اپنا تماشا میں نے کیا
صد شکر دیے کی آخری لو محفوظ ہوئی
ہے فخر مجھے دربند ہوا کا میں نے کیا
منصور وہ میری آنکھ کو اچھی لگتی تھی
سو ہجر کی کالی رات سے رشتہ میں نے کیا
منصور آفاق

نیند کی نوٹ بک میں تھا، کچھ تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 98
یاد کچھ بھی نہیں کہ کیا کچھ تھا
نیند کی نوٹ بک میں تھا، کچھ تھا
میں ہی کچھ سوچ کر چلا آیا
ورنہ کہنے کو تھا ، بڑا کچھ تھا
چاند کچھ اور کہتا جاتا تھا
دلِ وحشی پکارتا کچھ تھا
اس کی پاؤں کی چاپ تھی شاید
یا یونہی کان میں بجا کچھ تھا
میں لپٹتا تھا ہجر کی شب سے
میرے سینے میں ٹوٹتا کچھ تھا
کُن سے پہلے کی بات ہے کوئی
یاد پڑتا ہے کچھ، کہا کچھ تھا
پھرفلک سے بھی ہو گئے مایوس
پہلے پہلے تو آسرا کچھ تھا
ہے گواہی کو اک سیہ پتھر
آسماں سے کبھی گرا کچھ تھا
لوگ بنتے تھے گیت پہلے بھی
مجھ سے پہلے بھی سلسلہ کچھ تھا
موسمِ گل سے پہلے بھی موسم
گلستاں میں بہار کا کچھ تھا
اس کی آنکھیں تھیں پُر خطر اتنی
کہہ دیا کچھ ہے مدعا کچھ تھا
آنکھ کیوں سوگوار ہے منصور
خواب میں تو معاملہ کچھ تھا
منصور آفاق

جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 261
دل کے ہر داغ کو غنچہ کہیے
جیسا وہ کہتے ہیں ویسا کہیے
جذب دل کے کوئی معنی نہ رہے
کس سے عجز لب گویا کہیے
کوئی آواز بھی آواز نہیں
دل کو اب دل کی تمنا کہیے
اتنا آباد کہ ہم شور میں گم
اتنا سنسان کہ صحرا کہیے
ہے حقیقت کی حقیقت دنیا
اور تماشے کا تماشا کہیے
لوگ چلتی ہوئی تصویریں ہیں
شہر کو شہر کا نقشہ کہیے
خون دل حاصل نظارہ ہے
نگہ شوق کو پردا کہیے
شاخ جب کوئی چمن میں ٹوٹے
اسے انداز صبا کا کہیے
دیدہ ور کون ہے ایسا باقیؔ
چشم نرگس کو بھی بینا کہیے
باقی صدیقی

کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 223
آ گیا ہر رنگ اپنا سامنے
کارواں اک آ کے ٹھہرا سامنے
کہہ نہیں سکتے محبت میں سراب
دیر سے ہے ایک دریا سامنے
کٹ رہا ہے رشتہ قلب و نظر
ہو رہا ہے اک تماشا سامنے
دل ہے کچھ نا آشنا، کچھ آشنا
تو ہے یا اک شخص تجھ سا سامنے
فاصلہ در فاصلہ ہے زندگی
سامنے ہم ہیں نہ دنیا سامنے
کس نے دیکھا ہے لہو کا آئنہ
آدمی پردے میں سایہ سامنے
اپنے غم کے ساتھ باقیؔ چل دئیے
ہے سفر شام و سحر کا سامنے
باقی صدیقی

یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 217
سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے،کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رُخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
دیکھتے رہتے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
باقی صدیقی

رات بھر کیا صدائے پا سنتے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 197
سو گئے دل کا ماجرا سنتے
رات بھر کیا صدائے پا سنتے
گو خموشی نہیں غموں کا علاج
پھر بھی کیا کہتے اور کیا سنتے
کارواں بھی گریز پا نکلا
ورنہ کیا کیا شکستہ پا سنتے
غم ہستی کا روگ کیا معنی
چل کے نغمہ بہار کا سنتے
کسی کنج طرب میں دم لیتے
مرغ آزاد کی نوا سنتے
حسن سرو و سمن کے پردے ہیں
داستان غم صبا سنتے
جرس غنچۂ امید کے ساتھ
طوق و زنجیر کی صدا سنتے
گاؤں جا کر کرو گے کیا باقیؔ
شور کچھ دیر شہر کا سنتے
باقی صدیقی

ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 92
غم بنا دے نہ تماشا ہم کو
ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو
ہم ابھی تک ہیں وہیں راہ نشیں
جس جگہ آپ نے چھوڑا ہم کو
اک صدا تک تھی عنایت ساری
پھر کسی نے بھی نہ پوچھا ہم کو
آج دیکھا ہے نیا رنگ ان کا
دو گھڑی چھوڑ دو تنہا ہم کو
زندگی لے گئی طوفانوں میں
دے کے تنکے کا سہارا ہم کو
تیری محفل کے چراغوں کے تلے
کچھ نشاں ملتا ہے اپنا ہم کو
ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر
جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو
بات ہو، شعر ہو، افسانہ ہو
ہے بہت کچھ ابھی کہنا ہم کو
کوئی روزن ہو کہ دروازہ ہو
چاہئے ایک شرارا ہم کو
فصل گل آئی مگر کیا آئی
رنگ بھولا نہ خزاں کا ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو
باقی صدیقی

لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 91
صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوق نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو
بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو
تلخی غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو
تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو
گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو
ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
جلوہ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سر صحرا ہم کو
لے اڑی دل کو نسیم سحری
بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو
سیر گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گل تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتا ہم کو
باقی صدیقی

رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 47
ہم چھپائیں گے بھید کیا دل کا
رنگ آنکھوں میں آ گیا دل کا
زندگی تیرگی میں ڈوب گئی
ہم جلاتے رہے دیا دل کا
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
زندگی بھر کوئی پتہ نہ چلا
دور گردوں کا، آپ کا، دل کا
وقت اور زندگی کا آئینہ
نوک غم اور آبلہ دل کا
آنکھ کھلتے ہی سامنے باقیؔ
ایک سنسان دشت تھا دل کا
باقی صدیقی