اے گردبادِ وقت! بکھرتا نہیں ہُوں میں
نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں
حیرت سرا ہُوں شہرِ تمنّا نہیں ہُوں میں
مایوس ہو نہ مجھ سے کہ تجھ سا نہیں ہُوں میں
دیکھا ضرور سب نے رُکا کوئی بھی نہیں
کہتا رہا ہر اِک سے تماشا نہیں ہُوں میں
رَستے میں مِل گیا ہُوں تَو کچھ استفادہ کر
ہُوں سنگِ مِیل پاؤں میں کانٹا نہیں ہُوں میں
بیٹھا جو لے کے خود کو تَو معلوم یہ ہُوا
تنہا دِکھائی دیتا ہُوں تنہا نہیں ہُوں میں
ہَمدَردِیوں کے خوف سے ضامنؔ یہ حال ہے
اب دل پہ ہاتھ رکھ کے نکلتا نہیں ہُوں میں
ضامن جعفری