ٹیگ کے محفوظات: کار

زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو

یوں بھی دیا خراجِ عقیدت بہار کو
زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو
دنیا اسی کو تنگ نظر کہہ رہی ہے آج
جس نے پناہ دی ہے ترے اعتبار کو
کیسے کہیں کہ ہم سے ہے توقیرِ رنگ و بُو
اب تک چھپا رہے ہیں وہ رازِ بہار کو
منزل پہ آ کے خواہشِ منزل بدل گئی
پھر کوئی جستجو ہے مرے جذبِ کار کو
بروقت آگیا ہے کوئی وعدہ کوش آج
اک دن چُھپا لیا تھا غمِ انتظار کو
تسلیم وہ حَسیں ہیں مگر میرے ذوق نے
تشکیل دی ہے ایک نئے شاہکار کو
کرنے لگا ہے چھیڑ، غمِ عشق سے، شکیبؔ
یہ حوصلہ ہوا ہے غمِ روزگار کو
شکیب جلالی

وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے

کلی کلی کی نگاہوں میں مثلِ خار رہے
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
وہ جھرمٹوں میں ستاروں کے جلوہ گر ہیں آج
بَلا سے ان کی اگر کوئی اشک بار رہے
طِلسم اثر ہے فضا، چاندنی فسوں انداز
حضورِ دوست یہ ممکن نہیں قرار رہے
سیاہیوں کے بگولے چراغِ رَہ بن جائیں
جو حوصلہ شبِ غربت میں پختہ کار رہے
اب انتہاے اَلَم بھی گراں نہیں دل پر
مگر وہ غم جو ترے رُخ پہ جلوہ بار رہے
وہ بات کیا تھی ہمیں خود بھی اب تو یاد نہیں
نہ پوچھ ہم ترے کس درجہ راز دار رہے
خلوصِ عشق کے جذبات عام کرنا ہیں
کچھ اور دن یہ فضا مجھ کو سازگار رہے
یہ کشمکش، یہ بھلاوے حیات پرور ہیں
کسی کے دل میں اگر عشق کا وقار رہے
کسی کا قُرب اگر قُربِ عارضی ہے، شکیبؔ
فراقِ دوست کی لذّت ہی پائدار رہے
شکیب جلالی

حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ

عشق کے غم گُسا ر ہیں ہم لوگ
حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ
دستِ قدرت کو ناز ہے ہم پر
وقت کے شاہ کار ہیں ہم لوگ
ہم سے قائم ہے گُلستاں کا بھرَم
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
منزلیں ہیں ہمارے قدموں میں
حاصلِ رہ گزار ہیں ہم لوگ
ہم سے تنظیم ہے زمانے کی
محورِ روزگار ہیں ہم لوگ
ہم جو چاہیں گے اب وہی ہو گا
صاحبِ اختیار ہیں ہم لوگ
ہم سے روشن ہے کائنات، شکیبؔ
اصلِ لیل و نہار ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بے لوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انھیں مژدہ دینے
جو ہر اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں
بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خوددار نظر آتے ہیں
جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جنوں کے لیے شہ کار نظر آتے ہیں
کسبِ ثروت ہی، شکیبؔ، آج کا فن ہے شاید
طالبِ زر مجھے فن کار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی

اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں

یہ جھاڑیاں ، یہ خار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں
ہر عندلیب مرگِ تبسّم پہ نوحہ خواں
ہر پھول سوگوار، کہاں آگیا ہُوں میَں
کیا واقعی نہیں ہے یہ موسیقیوں کا شہر
کیوں چُپ ہیں نغمہ کار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
پُھولوں کی سرزمیں ہے نہ خوشبو کی رَہ گزر
اے حسرتِ بہار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
جا تو رہا تھا چشمہِ آبِ حیات پر
یہ دُھول، یہ غبار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
رَہ زَن مُجھی سے پوچھ رہے ہیں مرا پتا
اے حُسنِ اعتبار! کہاں آگیا ہُوں مَیں
شکیب جلالی

پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں

عشق پیشہ نہ رہے داد کے حقد ار یہاں
پیش آتے ہیں رُعونت سے جفا کار یہاں
کشتیِ زیست سلامت ہے نہ پتوار یہاں
موج درموج ہیں سو رنگ کے منجدھار یہاں
سرپٹک کر درِ زنداں پہ صبا نے یہ کہا
ہے دریچہ‘ نہ کوئی روزنِ دیوار یہاں
عہد و پیمانِ وفا‘ پیار کے نازک بندھن
توڑ دیتی ہے زر و سیم کی جھنکار یہاں
ننگ و ناموس کے بکتے ہوئے انمول رتن
لَب و رخسار کے سجتے ہوئے بازار یہاں
سرخیِ دامنِ گُل کس کو میّسر آئی؟
اپنے ہی خوں میں نہائے لَب و رُخسار یہاں
ہم سفر چھوٹ گئے‘ راہنما رُوٹھ گئے
یوں بھی آسان ہوئی منزلِ دشوار یہاں
تیرگی ٹوٹ پڑی‘ زور سے بادل گرجا
بجھ گئی سہم کے قندیلِ رُخِ یار یہاں
کتنے طوفان اُٹھے‘ کتنے ستارے ٹوٹے
پھر بھی ڈُوبا نہیں اب تک دلِ بیدار یہاں
میرے زخمِ کفِ پا چومنے آئے گی بہار
میں اگر مر بھی گیا وادیِ پُرخار! یہاں
شکیب جلالی

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے‘ پسِ دیوار گرے

آ کے پتّھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے‘ پسِ دیوار گرے
ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کُھلے پانی کی
آنکھ جھپکی بھی نہیں ‘ ہاتھ سے پتوار گرے
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے
تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط
یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے
کیا ہَوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی
کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے
دیکھ کر اپنے دروبام‘ لرز جاتا ہوں
میرے ہم سائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان
ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے‘ ناچار گرے
کیا کہوں دیدہِ تر‘ یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں ‘ بارش کی جہاں دھار گرے
ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا
ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے
وہ تجلّی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے تیر
آئنے ٹوٹ گئے‘ آئنہ بردار گرے
دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ! اتنی بلندی کی طرف
نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے
شکیب جلالی

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا

اب میں جو کہہ رہا ہوں یہ اشعار دیکھنا
یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا
پہلے تو ڈھونڈ روح کے آزار کی دوا
پھر آ کے اے طبیب یہ بیمار دیکھنا
جانے یہ کیسا شوق ہے مجھ کو کہ جاگ کر
شب بھر افق پہ صبح کے آثار دیکھنا
اب تک نہیں ہوا ہے تو کیا ہو سکے گا اب
یہ عمر جائے گی یونہی بے کار دیکھنا
اُس سمت دیکھنا ہی نہیں وہ ہو جس طرف
پھر جب وہ جاچکے تو لگاتار دیکھنا
ہے ایسا انہماک و توجہ نگاہ میں
اک بار دیکھنا بھی ہے سو بار دیکھنا
سب سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہے یہ
خود کو خود اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
اندر سے ٹوٹتے ہوئے اک عمر ہو چکی
اب کچھ دنوں میں ہی مجھے مسمار دیکھنا
کچھ تو کھلے کہ کوئی وہاں ہے بھی یا نہیں
ہے کوئی، جا کے وقت کے اُس پار دیکھنا
ویسے تو سارا شہر ہی دام و درم کا ہے
ہم ذوق مل ہی جائیں گے دوچار دیکھنا
وحشت میں جانے کون سی جانب گیا ہے وہ
اے میرے بھائی دیکھنا، اے یار دیکھنا
کیا مجھ پہ رونے والا نہیں ہے کوئی، ارے
وہ آرہے ہیں میرے عزادار دیکھنا
کوئی گیا ہے مجھ کو یہی کام سونپ کر
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاعر ہو تم، نہ دیکھنا دنیا کا حالِ زار
تم بس خیالی گیسو و رخسار دیکھنا
گو آندھیوں کی زد میں رہا ہوں تمام عمر
سر سے مگر گری نہیں دستار، دیکھنا
اپنی روایتوں کا کہاں تک منائیں سوگ
اب وقت جو دکھائے سو ناچار دیکھنا
دل اُوب سا گیا ہے اکیلے میں دوستو
میرے لیے کہیں کوئی دلدار دیکھنا
مضمون ہو نیا یہ ضروری نہیں میاں
ہاں شاعری میں ندرتِ اظہار دیکھنا
کوئی تسلی، کوئی دلاسا مرے لیے
جانے کہاں گئے مرے غم خوار دیکھنا
اے عاشقانِ میر کہاں جامرے ہو سب
غالب کے بڑھ گئے ہیں طرف دار، دیکھنا
زریون، یار دیکھ یہ عرفان کی غزل
عارف امام، بھائی یہ اشعار دیکھنا
عرفان ستار

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 90
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 75
روز خوں ہوتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
ایک ہنگامہ ہے اے یار ترے کوچے میں
فرشِ رہ ہیں جو دل افگار ترے کوچے میں
خاک ہو رونقِ گلزار ترے کوچے میں
سرفروش آتے ہیں اے یار ترے کوچے میں
گرم ہے موت کا بازار ترے کوچے میں
شعر بس اب نہ کہوں گا کہ کوئی پڑھتا تھا
اپنے حالی مرے اشعار ترے کوچے میں
نہ ملا ہم کو کبھی تیری گلی میں آرام
نہ ہوا ہم پہ جز آزار ترے کوچے میں
ملک الموت کے گھر کا تھا ارادہ اپنا
لے گیا شوقِ غلط کار ترے کوچے میں
تو ہے اور غیر کے گھر جلوہ طرازی کی ہوس
ہم ہیں اور حسرتِ دیدار ترے کوچے میں
ہم بھی وارستہ مزاجی کے ہیں اپنی قائل
خلد میں روح، تنِ زار ترے کوچے میں
کیا تجاہل سے یہ کہتا ہے "کہاں رہتے ہو؟”
ترے کوچے میں ستم گار! ترے کوچے میں
شیفتہ ایک نہ آیا تو نہ آیا کیا ہے
روز آ رہتے ہیں دو چار ترے کوچے میں
مصطفٰی خان شیفتہ

بیقراری قرار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 87
جبر پُر اختیار ہے اماں ہاں
بیقراری قرار ہے اماں ہاں
ایزدِ ایزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے اماں ہاں
میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے اماں ہاں
ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے اماں ہاں
یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے اماں ہاں
لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے اماں ہاں
سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے اماں ہاں
اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 86
ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں
ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے اماں ہاں
وہ جو ہے جو کہیں نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے اماں ہاں
اپنی بے روزگارئ جاوید
اک عجب روزگار ہے اماں ہاں
شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے اماں ہاں
کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے اماں ہاں
بُھولے بُھولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل

دیوان ششم غزل 1834
چپ رہ اب نالوں سے اے بلبل نہ کر آزار دل
کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل
ابتداے خبط میں ہوتا تدارک کچھ تو تھا
اب کوئی سنبھلے ہے مجھ سے وحشت بسیار دل
یک توجہ میں رہے ہے سیر اس کی عرش پر
عقل میں آتے نہیں ہیں طرفہ طرفہ کار دل
باغ سے لے دشت تک رکھتے ہیں اک شور عجب
ہم اسیران قفس کے نالہ ہاے زار دل
اس سبک روحی پہ جوں باد سحر در در پھرے
زندگی اب یار بن اپنی ہوئی ہے بار دل
تنگی و وسعت سے اس کی اے عبارت ساز فہم
میر کچھ سمجھے گئے نہ معنی اسرار دل
میر تقی میر

تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا

دیوان ششم غزل 1798
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہو گا
تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا
غم ہجر رکھے گا بیتاب دل کو
ہمیں کڑھتے کڑھتے کچھ آزار ہو گا
جو افراط الفت ہے ایسا تو عاشق
کوئی دن میں برسوں کا بیمار ہو گا
اچٹتی ملاقات کب تک رہے گی
کبھو تو تہ دل سے بھی یار ہو گا
تجھے دیکھ کر لگ گیا دل نہ جانا
کہ اس سنگدل سے ہمیں پیار ہو گا
لگا کرنے ہجران سختی سی سختی
خدا جانے کیا آخر کار ہو گا
یہی ہو گا کیا ہو گا میر ہی نہ ہوں گے
جو تو ہو گا بے یار و غم خوار ہو گا
میر تقی میر

رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں

دیوان چہارم غزل 1466
کیا کیا جھمک گئے ہیں رخسار یار دونوں
رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں
تصویر قیس و لیلیٰ ٹک ہاتھ لے کے دیکھو
کیسے ہیں عاشقی کے حیران کار دونوں
دست جنوں نے اب کے کپڑوں کی دھجیاں کیں
دامان و جیب میرے ہیں تار تار دونوں
پر سال کی سی بارش برسوں میں پھر ہوئی تھی
ابر اور دیدئہ تر روتے ہیں زار دونوں
دن ہیں بڑے کبھو کے راتیں بڑی کبھو کی
رہتے نہیں ہیں یکساں لیل و نہار دونوں
دل اور برق ابر و فصل گل ایک سے ہیں
یعنی کہ بے کلی سے ہیں بے قرار دونوں
خوش رنگ اشک خونیں گرتے رہے برابر
باغ و بہار ہیں اب جیب و کنار دونوں
اس شاخ گل سے قد کی کیا چوٹ لگ گئی ہے
جو دل جگر ہوئے ہیں خون ایک بار دونوں
چلتے جو اس کو دیکھا جی اپنے کھنچ گئے ہیں
ہم اور میر یاں ہیں بے اختیار دونوں
میر تقی میر

اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم

دیوان سوم غزل 1172
بیماری دلی سے زار و نزار ہیں ہم
اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم
مارا تڑپتے چھوڑا فتراک سے نہ باندھا
بے چشم و رو کسو کے شاید شکار ہیں ہم
ہر دم جبیں خراشی ہر آن سینہ کاوی
حیران عشق تو ہیں پر گرم کار ہیں ہم
حور و قصور و غلماں نہر و نعیم وجنت
یہ کلہم جہنم مشتاق یار ہیں ہم
بے حد و حصر گردش اپنی ہے عاشقی میں
رسواے شہر و دیہ، و دشت و دیار ہیں ہم
اب سیل سیل آنسو آتے ہیں چشم تر سے
دیوار و در سے کہہ دو بے اختیار ہیں ہم
روتے ہیں یوں کہ جیسے شدت سے ابر برسے
کیا جانیے کہ کیسے دل کے بخار ہیں ہم
اب تو گلے بندھا ہے زنجیر و طوق ہونا
عشق و جنوں کے اپنے ناموس دار ہیں ہم
لیتا ہے میر عبرت جو کوئی دیکھتا ہے
کیا یار کی گلی میں بے اعتبار ہیں ہم
میر تقی میر

یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش

دیوان دوم غزل 826
کیا کہیے کیا رکھیں ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک صیاد چل چمن تک
مدت سے ہے ہمیں بھی سیر بہار خواہش
نے کچھ گنہ ہے دل کا نے جرم چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالانکہ عمر ساری مایوس گذری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے امیدوار خواہش
غیرت سے دوستی کی کس کس سے ہوجے دشمن
رکھتا ہے یاری ہی کی سارا دیار خواہش
ہم مہرورز کیونکر خالی ہوں آرزو سے
شیوہ یہی تمنا فن و شعار خواہش
اٹھتی ہے موج ہر یک آغوش ہی کی صورت
دریا کو ہے یہ کس کا بوس و کنار خواہش
صد رنگ جلوہ گر ہے ہر جادہ غیرت گل
عاشق کی ایک پاوے کیونکر قرار خواہش
یک بار بر نہ آئی اس سے امید دل کی
اظہار کرتے کب تک یوں بار بار خواہش
کرتے ہیں سب تمنا پر میر جی نہ اتنی
رکھے گی مار تم کو پایان کار خواہش
میر تقی میر

کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار

دیوان دوم غزل 804
اے صبا گر شہر کے لوگوں میں ہو تیرا گذار
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
خاک دہلی سے جدا ہم کو کیا یک بارگی
آسماں کو تھی کدورت سو نکالا یوں غبار
منصب بلبل غزل خوانی تھا سو تو ہے اسیر
شاعری زاغ و زغن کا کیوں نہ ہووے اب شعار
طائر خوش زمزمہ کنج قفس میں ہے خموش
چہچہے چہیاں کریں ہیں صحن گلشن میں ہزار
برگ گل سے بھی کیا نہ ایک نے ٹک ہم کو یاد
نامہ و پیغام و پرسش بے مراتب درکنار
بے خلش کیونکر نہ ہو گرم سخن گلزار میں
میں قفس میں ہوں کہ میرا تھا دلوں میں خارخار
بلبل خوش لہجہ کے جائے پہ گو غوغائیاں
طرح غوغا کی چمن میں ڈالیں پر کیا اعتبار
طائران خوش لب و لہجہ نہیں رہتے چھپے
شور سے ان کے بھرے ہیں قریہ و شہر و دیار
شہر کے کیا ایک دو کوچوں میں تھی شہرت رہی
شہروں شہروں ملکوں ملکوں ہے انھوں کا اشتہار
کیا کہوں سوے چمن ہوتا جو میں سرگرم گشت
پھول گل جب کھلنے لگتے جوش زن ہوتی بہار
شور سن سن کر غزل خوانی کا میری ہم صفیر
غنچہ ہو آتے جو ہوتا آب و رنگ شاخسار
خوش نوائی کا جنھیں دعویٰ تھا رہ جاتے خموش
جن کو میں کرتا مخاطب ان کو ہوتا افتخار
بعضوں کو رشک قبول خاطر و لطف سخن
بعضوں کا سینہ فگار و بعضوں کا دل داغدار
ایکوں کے ہونٹوں کے اوپر آفریں استاد تھا
ایک کہتے تھے رسوخ دل ہے اپنا استوار
ربط کا دعویٰ تھا جن کو کہتے تھے مخلص ہیں ہم
جانتے ہیں ذات سامی ہی کو ہم سب خاکسار
نقل کرتے کیا یہ صحبت منعقد جب ہوتی بزم
بیٹھ کر کہتے تھے منھ پر میرے بعضے بعضے یار
بندگی ہے خدمت عالی میں ہم کو دیر سے
کر رکھی ہے جان اپنی ہم نے حضرت پر نثار
سو نہ خط ان کا نہ کوئی پرچہ پہنچا مجھ تلک
واہ وا ہے رابطہ رحمت ہے یہ اخلاص و پیار
رفتہ رفتہ ہو گئیں آنکھیں مری دونوں سفید
بسکہ نامے کا کیا یاروں کے میں نے انتظار
لکھتے گر دو حرف لطف آمیز بعد از چند روز
تو بھی ہوتا اس دل بے تاب و طاقت کو قرار
سو تو یک ننوشتہ کاغذ بھی نہ آیا میرے پاس
ان ہم آوازوں سے جن کا میں کیا ربط آشکار
خط کتابت سے یہ کہتے تھے نہ بھولیں گے تجھے
آویں گے گھر بار کی تیرے خبر کو بار بار
جب گیا میں یاد سے تب کس کا گھر کاہے کا پاس
آفریں صد آفریں اے مردمان روزگار
اب بیاباں در بیاباں ہے مرا شور و فغاں
گو چمن میں خوش کی تم نے میری جاے نالہ وار
ہے مثل مشہور یہ عمر سفر کوتاہ ہے
طالع برگشتہ بھی کرتے ہیں اب امداد کار
اک پر افشانی میں بھی ہے یہ وطن گلزار سا
سامعوں کی چھاتیاں نالوں سے ہوویں گی فگار
منھ پہ آویں گے سخن آلودئہ خون جگر
کیونکہ یاران زماں سے چاک ہے دل جوں انار
لب سے لے کر تا سخن ہیں خونچکاں شکوے بھرے
لیک ہے اظہار ہر ناکس سے اپنا ننگ و عار
چپ بھلی گو تلخ کامی کھینچنی اس میں پڑے
بیت بحثی طبع نازک پر ہے اپنی ناگوار
آج سے کچھ بے حسابی جور کن مردم نہیں
ان سے اہل دل سدا کھینچے ہیں رنج بے شمار
بس قلم رکھ ہاتھ سے جانے بھی دے یہ حرف میر
کاہ کے چاہے نہیں کہسار ہوتے بے وقار
کام کے جو لوگ صاحب فن ہیں سو محسود ہیں
بے تہی کرتے رہیں گے حاسدان نابکار
میر تقی میر

ملتجی ناچار ہوا چاہیے

دیوان اول غزل 497
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
ملتجی ناچار ہوا چاہیے
جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے
کس کا طلبگار ہوا چاہیے
تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو
اس لیے بیمار ہوا چاہیے
زلف کسو کی ہو کہ ہو خال و خط
دل کو گرفتار ہوا چاہیے
تیغ بلند اس کی ہوئی بوالہوس
مرنے کو تیار ہوا چاہیے
مصطبۂ بے خودی ہے یہ جہاں
جلد خبردار ہوا چاہیے
مول ہے بازار کا ہستی کے یہ
دل کے خریدار ہوا چاہیے
کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی
سایۂ دیوار ہوا چاہیے
کر نہ تعلق کہ یہ منزل نہیں
آہ سبک بار ہوا چاہیے
گو سفری اب نہیں ظاہر میں میر
عاقبت کار ہوا چاہیے
میر تقی میر

آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو

دیوان اول غزل 396
دل صاف ہو تو جلوہ گہ یار کیوں نہ ہو
آئینہ ہو تو قابل دیدار کیوں نہ ہو
عالم تمام اس کا گرفتار کیوں نہ ہو
وہ ناز پیشہ ایک ہے عیار کیوں نہ ہو
مستغنیانہ تو جو کرے پہلے ہی سلوک
عاشق کو فکر عاقبت کار کیوں نہ ہو
رحمت غضب میں نسبت برق و سحاب ہے
جس کو شعور ہو تو گنہگار کیوں نہ ہو
دشمن تو اک طرف کہ سبب رشک کا ہے یاں
در کا شگاف و رخنۂ دیوار کیوں نہ ہو
آیات حق ہیں سارے یہ ذرات کائنات
انکار تجھ کو ہووے سو اقرار کیوں نہ ہو
ہر دم کی تازہ مرگ جدائی سے تنگ ہوں
ہونا جو کچھ ہے آہ سو یک بار کیوں نہ ہو
موے سفید ہم کو کہے ہے کہ غافلاں
اب صبح ہونے آئی ہے بیدار کیوں نہ ہو
نزدیک اپنے ہم نے تو سب کر رکھا ہے سہل
پھر میر اس میں مردن دشوار کیوں نہ ہو
میر تقی میر

لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل

دیوان اول غزل 270
مندا ہے اختلاط کا بازار آج کل
لگتا نہیں ہے دل کا خریدار آج کل
اس مہلت دو روزہ میں خطرے ہزار ہیں
اچھا ہے رہ سکو جو خبردار آج کل
اوباشوں ہی کے گھر تجھے پانے لگے ہیں روز
مارا پڑے گا کوئی طلبگار آج کل
ملنے کی رات داخل ایام کیا نہیں
برسوں ہوئے کہاں تئیں اے یار آج کل
گلزار ہورہے ہے مرے دم سے کوے یار
اک رنگ پر ہے دیدئہ خوں بار آج کل
تاشام اپنا کام کھنچے کیونکے دیکھیے
پڑتی نہیں ہے جی کو جفا کار آج کل
کعبے تلک تو سنتے ہیں ویرانہ و خراب
آباد ہے سو خانۂ خمار آج کل
ٹھوکر دلوں کو لگنے لگی ہے خرام میں
لاوے گی اک بلا تری رفتار آج کل
ایسا ہی مغبچوں میں جو آنا ہے شیخ جی
تو جارہے ہیں جبہ و دستار آج کل
حیران میں ہی حال کی تدبیر میں نہیں
ہر اک کو شہر میں ہے یہ آزار آج کل
اچھا نہیں ہے میر کا احوال ان دنوں
غالب کہ ہو چکے گا یہ بیمار آج کل
میر تقی میر

ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار

دیوان اول غزل 221
رہنے کا پاس نہیں ایک بھی تار آخرکار
ہاتھ سے جائے گا سررشتۂ کار آخرکار
لوح تربت پہ مری پہلے یہ لکھیو کہ اسے
یار دشمن ہو گیا جان سے مار آخرکار
مشت خاک اپنی جو پامال ہے یاں اس پہ نہ جا
سر کو کھینچے گا فلک تک یہ غبار آخرکار
سیر کر کثرت عالم کی مری جان کہ پھر
تن تنہا ہے تو اور کنج مزار آخرکار
چشم وا دیکھ کے اس باغ میں کیجو نرگس
آنکھوں سے جاتی رہے گی یہ بہار آخرکار
ابتدا ہی میں محبت کی ہوئے ہم تو تمام
ہوتا ہو گا یہی کچھ عشق میں یار آخرکار
اول کار محبت تو بہت سہل ہے میر
جی سے جاتا ہے ولے صبر و قرار آخرکار
میر تقی میر

جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر

دیوان اول غزل 214
مرتے ہیں تیری نرگس بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں یک بار دیکھ کر
ناخواندہ خط شوق لگے چاک کرنے تو
قاصد تو کہیو ٹک کہ جفا کار دیکھ کر
کوئی جو دم رہا ہے سو آنکھوں میں ہے پھر اب
کریو ٹک ایک وعدئہ دیدار دیکھ کر
دیکھیں جدھر وہ رشک پری پیش چشم ہے
حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر
جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے
آتا ہے جی بھرا در و دیوار دیکھ کر
تیرے خرام ناز پہ جاتے ہیں جی چلے
رکھ ٹک قدم زمیں پہ ستمگار دیکھ کر
طالع نے چشم پوشی کی یاں تک کہ ہم نشیں
چھپتا ہے مجھ کو دور سے اب یار دیکھ کر
جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
میر تقی میر

مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت

دیوان اول غزل 184
چھٹتا ہی نہیں ہو جسے آزار محبت
مایوس ہوں میں بھی کہ ہوں بیمار محبت
امکاں نہیں جیتے جی ہو اس قید سے آزاد
مرجائے تبھی چھوٹے گرفتار محبت
تقصیر نہ خوباں کی نہ جلاد کا کچھ جرم
تھا دشمن جانی مرا اقرار محبت
ہر جنس کے خواہاں ملے بازارجہاں میں
لیکن نہ ملا کوئی خریدار محبت
اس راز کو رکھ جی ہی میں تا جی بچے تیرا
زنہار جو کرتا ہو تو اظہار محبت
ہر نقش قدم پر ترے سر بیچے ہیں عاشق
ٹک سیر تو کر آج تو بازار محبت
کچھ مست ہیں ہم دیدئہ پرخون جگر سے
آیا یہی ہے ساغر سرشار محبت
بیکار نہ رہ عشق میں تو رونے سے ہرگز
یہ گریہ ہی ہے آب رخ کار محبت
مجھ سا ہی ہو مجنوں بھی یہ کب مانے ہے عاقل
ہر سر نہیں اے میر سزاوارمحبت
میر تقی میر

اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا

دیوان اول غزل 55
عالم میں کوئی دل کا طلبگار نہ پایا
اس جنس کا یاں ہم نے خریدار نہ پایا
حق ڈھونڈنے کا آپ کو آتا نہیں ورنہ
عالم ہے سبھی یار کہاں یار نہ پایا
غیروں ہی کے ہاتھوں میں رہے دست نگاریں
کب ہم نے ترے ہاتھ سے آزار نہ پایا
جاتی ہے نظر خس پہ گہ چشم پریدن
یاں ہم نے پر کاہ بھی بے کار نہ پایا
تصویر کے مانند لگے در ہی سے گذری
مجلس میں تری ہم نے کبھو بار نہ پایا
سوراخ ہے سینے میں ہر اک شخص کے تجھ سے
کس دل کے ترا تیر نگہ پار نہ پایا
مربوط ہیں تجھ سے بھی یہی ناکس و نااہل
اس باغ میں ہم نے گل بے خار نہ پایا
دم بعد جنوں مجھ میں نہ محسوس تھا یعنی
جامے میں مرے یاروں نے اک تار نہ پایا
آئینہ بھی حیرت سے محبت کی ہوئے ہم
پر سیر ہو اس شخص کا دیدار نہ پایا
وہ کھینچ کے شمشیر ستم رہ گیا جو میر
خوں ریزی کا یاں کوئی سزاوار نہ پایا
میر تقی میر

وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 25
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض

یہ عجب نرگس بیمار ہے خاکم بدہن

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 108
ہر طرف کشتوں کا انبار ہے خاکم بدہن
یہ عجب نرگس بیمار ہے خاکم بدہن
کچھ نہ کچھ ہوش ہے باقی ابھی دیوانوں میں
یہ تو ابرو نہیں تلوار ہے خاکم بدہن
قیدخانے میں یہ مہتاب کہاں سے آیا
کیا کوئی روزن دیوار ہے خاکم بدہن
صید کرتا ہے کسی اور کی مرضی سے مجھے
خود بھی صیاد گرفتار ہے خاکم بدہن
یہ کوئی طنز نہیں تیری مسیحائی پر
عشق کیا جان کا آزار ہے خاکم بدہن
جب تلک گرد نہ چہرے سے ہٹائی جائے
صیقل آئنہ بے کار ہے خاکم بدہن
کوئی شے خاک پہ افتادہ ہے دستار کے ساتھ
یہ تو شاید سرپندار ہے خاکم بدہن
عرفان صدیقی

بھر گیا ہے مری آنکھوں میں غبار دنیا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 69
اب کہیں اور چل اے ناقہ سوار دنیا
بھر گیا ہے مری آنکھوں میں غبار دنیا
مجھ کو مل جائے اگر سلطنت تکیہ دل
میں تو پل بھر نہ رہوں باج گزار دنیا
بے دلی پھر ہوس تازہ میں ڈھل جاتی ہے
ختم ہونے ہی میں آتا نہیں کار دنیا
اکثر اکثر نظر آجاتا ہے مہتاب کا کھیل
چھپ گیا ہے مری مٹی میں شرار دنیا
ایسا لگتا ہے کہ سینے میں اُٹھی ہے کوئی
آج اسی لہر میں پھینک آتا ہوں بار دنیا
عادت سیر و تماشا نہیں جانے والی
دور سے دیکھتا رہتا ہوں بہار دنیا
عرفان صدیقی

گاڑی مسافروں کے پھر انتظار میں ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 623
لوگوں کی بے وفائی کب اختیار میں ہے
گاڑی مسافروں کے پھر انتظار میں ہے
اعلان جا کے کردومسجد کی چھت پہ چڑھ کر
میں چاہتاہوں جس کو وہ میری کار میں ہے
اک کونج رو رہی ہے سوکھی ہوئی ندی پر
سہمی ہوئی سی لرزش اس کی پکار میں ہے
میں چاہتا ہوں اس سے وعدہ نبھانا لیکن
غم سے نجات جو ہے خود سے فرار میں ہے
بے شک ہزاروں میں نے اشعار کہہ دئیے ہیں
سچ پوچھ تو ابھی تک بات اختصار میں ہے
میرے یہ لفظ بھی تو کرلاہٹیں ہیں میری
میرا وجود شامل کونجوں کی ڈار میں ہے
تقدیر کے طلسم سے سورج نکل گیا
دیکھو کئی دنوں سے راتوں کے غار میں ہے
اٹھ چل کنارِ سندھ پہ کرتے ہیں کچھ شکار
مچھلی کی بھی ضرورت منصور جار میں ہے
منصور آفاق

فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 515
حصارِ جبہ و دستار سے نکل آئے
فقیر ظلم کے دربار سے نکل آئے
دکھائی کیا دیا اک خطِ مستقیم مجھے
کہ دائرے مری پرکار سے نکل آئے
خبر ہو نغمہء گل کو، سکوت کیا شے ہے
کبھی جو رنگ کے بازار سے نکل آئے
پہن لے چھاؤں جو میرے بدن کی تنہائی
تو دھوپ سایہء دیوار سے نکل آئے
اُدھر سے نیم برہنہ بدن کے آتے ہی
امامِ وقت، اِدھر، کار سے نکل آئے
ذرا ہوئی تھی مری دوستی اندھیروں سے
چراغ کتنے ہی اس پار سے نکل آئے
کبھی ہوا بھی نہیں اور ہو بھی ہو سکتا ہے
اچانک آدمی آزار سے نکل آئے
یہ چاہتی ہے حکومت ہزار صدیوں سے
عوام درہم و دینار سے نکل آئے
دبی تھی کوئی خیالوں میں سلطنت منصور
زمین چٹخی تو آثار سے نکل آئے
منصور آفاق

آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 221
ٹوٹے پھوٹے،بدنما،فالج زدہ ،بیمار دن
آگئے ہیں زندگی میں پھربڑے بے کار دن
ہم ملیں گے شانزے لیزے پہ رومی بارمیں
طے ہوئی بارہ دسمبر۔۔ ٹھیک ہے اتوار دن
یاد ہے وہ یارکے پہلو میں رنگوں کی بہار
جینا کہتے ہیں جسے ویسے جئے تھے چار دن
مصر کے اہرام سے پیرو کی تصویروں تلک
ہرجگہ کتنے گئی صدیوں کے پُراسرار دن
میری وحشت ہی جہاں تھی فیصلہ کن پھر وہاں
کیا اثر انداز ہوتے غیر جانب دار دن
آخرش منصور کیا تھااُس گذشتہ رات میں
گم ہوئی جذبوں بھری رُت، کھوگئے دلدار دن
منصور آفاق

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق

پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 188
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس
ایک پتھر ہے کہ بس سرخ ہوا جاتا ہے
کوئی پہروں سے کھڑا ہے کسی دیوار کے پاس
گھنٹیاں شور مچاتی ہیں مرے کانوں میں
فون مردہ ہے مگر بسترِ بیدار کے پاس
کس طرح برف بھری رات گزاری ہو گی
میں بھی موجود نہ تھا جسمِ طرح دار کے پاس
عبرت آموز ہے دربارِ شب و روز کا تاج
طشتِ تاریخ میں سر رکھے ہیں دستار کے پاس
چشمِ لالہ پہ سیہ پٹیاں باندھیں منصور
سولیاں گاڑنے والے گل و گلزار کے پاس
منصور آفاق

پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 6
پار دریا کر رہی تھی سبز اونٹوں کی قطار
پانیوں پر گر رہا تھا گھنٹیوں کا آبشار
دور تک کالی سڑک تھی اور پگھلتی تارکول
چل رہی تھی ٹائروں کا دکھ پہن کر ایک کار
رات ہجراں کی، سلو موشن میں صدیوں پر محیط
دن جدائی کا کہیں ، جیسے ابد کا انتظار
کعبہء عشقِ محمد ابرہوں کی زد میں ہے
پھر ابابیلوں کا لشکر آسمانوں سے اتار
سندھ کی موجوں کے بوسے مضطرب ہیں دیر سے
کر رہا ہے تیرے نقشِ پا کا ساحل انتظار
دور تک منصور بستر سی وصال انگیز ریت
ایک گیلی رات،میں ،اور تھل کا حسنِ خوشگوار
منصور آفاق