ٹیگ کے محفوظات: کارواں

اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ

زعمِ وفا بھی ہے ہمیں ، عشقِ بُتاں کے ساتھ
اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ
تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں
وابستگی ضرور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ
اے چشم تر! سفینہِ دل کی تھی کیا بساط
ساحل نشیں بھی بہ گئے سیلِ رواں کے ساتھ
اُن ساعتوں کی یاد سے مہکا ہوا ہے دل
گزری تھیں جو کسی نگہِ گُل فشاں کے ساتھ
کہتی ہے جلتی دھوپ کہ منزل سے ذرا دور
جانا پڑے گا سایہِ ابرِ رواں کے ساتھ
تُہمت سُبک رَوی کی بجا ہے مگر، شکیبؔ
اک رَہ روِ علیل بھی ہے کارواں کے ساتھ
شکیب جلالی

میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا

رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا
دھیرے دھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا
ہم نے حاصل کرنا چاہا تھا خلوصِ جاوداں
کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگماں ہو جائے گا
فطرتِ انساں میں ہونا چاہیے ذوقِ عمل
خاک کے ہر ذرّے سے پیدا جہاں ہو جائے گا
کر دیا تبدیل ہم نے اپنا اندازِ سفر
اب تو رہزن بھی شریکِ کارواں ہو جائے گا
شکیب جلالی

بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں

کبھی حُسنِ گُل و لالہ، کبھی رنگِ خزاں ہم ہیں
بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں
نرالا ہے زمانے ہی سے ذوقِ رہ روی اپنا
امیرِ کارواں ہم ہیں، نہ گردِ کارواں ہم ہیں
حوادث کی کشاکش ہے، وہ ساحل ہے، یہ طوفاں ہے
زمانہ جن سے بچتا ہے انھیں کے درمیاں ہم ہیں
ہمارا ذوقِ خودبینی یہاں پر جلوہ ساماں ہے
اگر سچ پوچھیے تو رونقِ بزمِ جہاں ہم ہیں
جنوں میں ایک سجدہ وُسعتِ عالم پہ حاوی ہے
شکیبؔ، اس درجہ گویا بے نیازِ آستاں ہم ہیں
شکیب جلالی

کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے

نقاب اٹھنے پہ ہر ارادہ، تھا رایگاں، یاد آرہا ہے
کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے
زہے مسرّت، مری خوشی سے کبھی چمن مسکرادیا تھا
زہے تصوّر، وہ مسکراتا ہوا سماں یاد آرہا ہے
بہار آئی ہے پھر چمن میں ، گھٹائیں گھِر گھِر کے آرہی ہیں
سجود ریزی پہ بجلیوں کی، پھر آشیاں یاد آرہا ہے
کلی کلی گیت گارہی ہے، بہار کی دل فریبیوں کے
ستم ظریفی تو دیکھیے مجھ کو آسماں یاد آرہا ہے
کسی مسافر کی آرزو میں نشانِ منزل بھٹک رہے ہیں
کسی مسافر کو شامِ غُربت میں کارواں یاد آرہا ہے
چمن کی رنگینیاں سمٹ کر، مرے تخیّل پہ چھاگئی ہیں
مجھے برنگِ بہار، پھر کوئی مہرباں یاد آرہا ہے
جہاں کہ اذنِ سجود پا کر جبیں کو میں نے اٹھا لیا تھا
قدم قدم، پر شکیبؔ، مجھ کو وہ آستاں یاد آرہا ہے
شکیب جلالی

آہِ سوزاں دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا

حاصلِ عشقِ بتاں سب رایگاں ہو جائے گا
آہِ سوزاں دیکھ! زخمِ دل دُھواں ہو جائے گا
لے تَو لوں بوسہ تری دہلیز کا آ کر مگر
مرجعِ عشّاقِ عالم آستاں ہو جائے گا
خاک میری مائلِ پرواز ہے بن کر غبار
ہے یقیں اِس کو تُو اِک دن آسماں ہو جائے گا
بیٹھ کر تنہا تجھے سوچُوں مگر ہو گا یہی
ہمسَفَر یادوں کا پھر اِک کارواں ہو جائے گا
عشق ہے اِک نقشِ محکم، عشق ہے نقشِ جلی
حُسن ہے اِمروز، کل وہم و گماں ہو جائے گا
بے وفائی کا گِلہ کس سے کریں کیونکر کریں
جب جدا خود استخواں سے استخواں ہو جائے گا
ہر گھڑی لب پر غزل، ضامنؔ! یہ باتیں چھوڑ دو
’’ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا‘‘
ضامن جعفری

سکونِ قلب گریزاں ہے ہر فغاں خاموش

ترے اسیرِ جفا کی ہے داستاں خاموش
سکونِ قلب گریزاں ہے ہر فغاں خاموش
تری جفا پہ بھلا کس کو جراتِ فریاد
زمیں تھی محوِ تماشا و آسماں خاموش
شبِ فراق کے ماروں کو دیکھ کر مایوس
چلا فَلَک سے ستاروں کا کارواں خاموش
بیانِ غم پہ مرے سب رہے ترے ہمساز
ہر ایک گوش بر آواز و ہر زباں خاموش
شکست و فتح و نشیب و فراز کے ہمراز
یہ زخمہائے جگر مثلِ کہکشاں خاموش
جفائے یار لباسِ وفا میں تھی ملبوس
سو لے کے آگئے ضامنِؔ یہ ارمغاں خاموش
ضامن جعفری

فکرِ واماندگاں کرے کوئی

کیوں غمِ رفتگاں کرے کوئی
فکرِ واماندگاں کرے کوئی
تیرے آوارگانِ غربت کو
شاملِ کارواں کرے کوئی
زندگی کے عذاب کیا کم ہیں
کیوں غمِ لامکاں کرے کوئی
دل ٹپکنے لگا ہے آنکھوں سے
اب کسے رازداں کرے کوئی
اس چمن میں برنگِ نکہتِ گل
عمر کیوں رائگاں کرے کوئی
شہر میں شور، گھر میں تنہائی
دل کی باتیں کہاں کرے کوئی
یہ خرابے ضرور چمکیں گے
اعتبارِ خزاں کرے کوئی
ناصر کاظمی

دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور

دُور اِس تیرہ خاکداں سے دُور
دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور
آنے والی بہار کے افسوں
دیکھ ویرانۂ خزاں سے دُور
پھول جلتے ہیں شاخچوں سے جدا
شمع روتی ہے شمعداں سے دُور
شہر خلقِ خدا سے بیگانہ
کارواں میرِ کارواں سے دُور
تیرے زندانیوں کی کون سنے
برق چمکی ہے آشیاں سے دُور
چیختی ہیں ڈراؤنی راتیں
چاند نکلا ہے آسماں سے دُور
سو گیا پچھلی رات کا جادو
کوئی اب لے چلے یہاں سے دُور
دل عجب گوشۂ فراغت ہے
کیوں بھٹکتے ہو اس مکاں سے دُور
کوئی سنتا نہیں یہاں ناصر
بات دل کی رہی زباں سے دور
ناصر کاظمی

وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے

کسے دیکھیں کہاں دیکھا نہ جائے
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
مری بربادیوں پر رونے والے
تجھے محوِ فغاں دیکھا نہ جائے
زمیں لوگوں سے خالی ہو رہی ہے
یہ رنگِ آسماں دیکھا نہ جائے
سفر ہے اور غربت کا سفر ہے
غمِ صد کارواں دیکھا نہ جائے
کہیں آگ اور کہیں لاشوں کے انبار
بس اے دورِ زماں دیکھا نہ جائے
در و دیوار ویراں شمع مدھم
شبِ غم کا سماں دیکھا نہ جائے
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
بھری برسات خالی جا رہی ہے
سرِ ابرِ رواں دیکھا نہ جائے
کہیں تم اور کہیں ہم، کیا غضب ہے
فراقِ جسم و جاں دیکھا نہ جائے
وہی جو حاصلِ ہستی ہے ناصر
اُسی کو مہرباں دیکھا نہ جائے
ناصر کاظمی

مِری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے

کہاں ملے گا وہ مجھ سے اگر یہاں بھی رہے
مِری دعا ہے کہ وہ خوش رہے جہاں بھی رہے
دلِ خراب یہ خواہش تِری عجب ہے کہ وہ
سِتم بھی کم نہ کرے اور مہرباں بھی رہے
ابھی زمین پہ جنت نہیں بنی یارو
جہاں کے قصے سُناتے ہو ہم وہاں بھی رہے
رہا ہمیشہ ہی سامان مختصر اپنا
مسافروں کی طرح ہم رہے جہاں بھی رہے
جو ساتھ چلنے کے بھی مستحق نہ تھے باصرِؔ
کچھ ایسے لوگ یہاں میرِ کارواں بھی رہے
باصر کاظمی

پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 140
بعدِ طوفاں کوئی نشاں کیسا
پیڑ اُکھڑے تو آشیاں کیسا
اُن پہ گزرا ہے جو گراں اِتنا
لفظ اُترا سرِ زباں کیسا
پا بہ زنجیر کر دیا جس نے
سُست رَو ہے یہ کارواں کیسا
ہے پرندوں سی بُود و باش اپنی
فائدہ کیا ہے اور زیاں کیسا
بچھنے والی نظر کے ایواں میں
ہاتھ دِکھلا گئی کماں کیسا
چاند پھر بادلوں میں اُترا ہے
دیکھ ماجدؔ وہ ہے سماں کیسا
ماجد صدیقی

کرلی ہے مفاہمت خزاں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
اُکتا کے زوالِ گلستاں سے
کرلی ہے مفاہمت خزاں سے
سنبھلے بھی تو کب سنبھل سکے ہم
جب تیر نکل چکا کماں سے
دیتے ہیں پتہ ہمارا اَب بھی
کُچھ پر، کہ گرے تھے آشیاں سے
اِک عمر رہا قیام جس پر
ٹوٹی ہے وہ شاخ درمیاں سے
شاخوں سے جھڑے ہیں پُھول کیونکر
شل ہوں اِسی رنجِ رفتگاں سے
دیوار اِک اور سامنے ہے
لے چاٹ اِسے بھی اب زباں سے
ماجدؔ ہے سفر جدا ہمارا
لینا ہمیں کیا ہے کارواں سے
ماجد صدیقی

تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
گل ہیں خوشبُو ہیں کہکشاں ہیں ہم
تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم
کل بھی تھا ساتھ ولولوں کا ہجوم
آج بھی میرِ کارواں ہیں ہم
اِک تمنّا کا ساتھ بھی تو نہیں
کس بھروسے پہ یوں رواں ہیں ہم
دل میں سہمی ہے آرزوئے حیات
کن بگولوں کے درمیاں ہیں ہم
جانتی ہیں ہمیں ہری شاخیں
زرد پتّوں کے ترجمان ہیں ہم
دل کا احوال کیا کہیں ماجدؔ
گو بظاہر تو گلستاں ہیں ہم
ماجد صدیقی

جیسے غبارِ راہ پسِ کارواں چلے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 122
ہم بھی انھیں کے ساتھ چلے وہ جہاں چلے
جیسے غبارِ راہ پسِ کارواں چلے
چاہوں تو میرے ساتھ تصور میں تا قفس
گلشن چلے، بہار چلے، آشیاں چلے
اے راہبر یقیں جو تری راہبری میں ہو
مڑ مڑ کے دیکھتا ہوا کیوں کارواں چلے
میری طرح وہ رات کو تارے گِنا کریں
اب کے کچھ ایسی چال آسماں چلے
قمر جلالوی

اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 104
اگر زندہ رہیں تو آئیں گے اے باغباں پھر بھی
اسی گلشن اسی ڈالی پہ ہو گا آشیاں پھر بھی
سمجھتا ہے کہ اب میں پا شکستہ اٹھ نہیں سکتا
مگر مڑ مڑ کہ تکتا جا رہا ہے کارواں پھر بھی
بہت کچھ یاد کرتا ہوں کہ یا رب ماجرا کیا ہے
وہ مجھ کو بھول بیٹھے آ رہے ہیں ہچکیاں پھر بھی
سمجھتا ہوں انھیں نیند آ گئی ہے اب نہ چونکیں گے
مگر میں ہوں سنائے جا رہا ہوں داستاں پھر بھی
قمر حالانکہ طعنے روز دیتا ہوں جفاؤں کے
جدا کرتا نہیں سینہ سے مجھ کو آسماں پھر بھی
قمر جلالوی

خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 43
فکریں تمام ہو گئیں برقِ تپاں سے دور
خس کم جہاں پاک غمِ آشیاں سے دور
مژگاں کہاں ہیں ابروئے چشمِ بتاں سے دور
یہ تیر وہ ہیں جو نہیں ہوتے کماں سے دور
یادِ شباب یوں ہے دلِ ناتواں سے دور
جیسے کوئی غریب مسافر مکاں سے دور
دیر و حرم میں شیخ و برہمن سے پوچھ لے
سجدے اگر کئے ہوں ترے آستاں سے دور
اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہوں کسے راہ میں غبار
کوئی شکستہ پا تو نہیں کارواں سے دور
جب گھر سے چل کھڑے ہوئے پھر پوچھنا ہی کیا
منزل کہاں ہے پاس پڑے گی کہاں سے دور
ہو جاؤ آج کل کے وعدے سے منحرف
یہ بھی نہیں حضور تمھاری زباں سے دور
خوشبو کا ساتھ چھٹ نہ سکا تا حیات گل
لے بھی گئی شمیم تو کیا گلستاں سے دور
شعلے نظر نہ آئے یہ کہنے کی بات ہے
اتنا تو آشیانہ تھا باغباں سے دور
دیر و حرم سے ان کا برابر ہے فاصلہ
جتنے یہاں سے دور ہیں اتنے وہاں سے دور
صیاد یہ جلے ہوئے تنکے کہاں ہیں
بجلی اگر گری ہے میرے آشیاں سے دور
مجھ پر ہی اے قمر نہیں پابندیِ فلک
تارے بھی جا سکے نہ حدِ آسماں سے دور
قمر جلالوی

یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 18
قیامت اب جہاں ہو گی ستم تیرا باں ہو گا
یہاں ہو گی یہاں ہو گا، وہاں ہو گی وہاں ہو گا
نہ گھبرا اے مریضِ عشق دونوں آنے والے ہیں
قضا بھی مہماں ہو گی وہ بت بھی مہماں ہو گا
بہار آخر ہے پی لی بیٹھ کر اے شیخ رندوں میں
یہ محفل پھر کہاں ہو گی یہ جلسہ پھر کہاں ہو گا
چمن میں توڑ ڈالی باغباں نے مجھ سے یہ کہہ کر
نہ شاخِ آشیاں ہو گی نہ تیرا آشیاں ہو گا
کدھر ڈھونڈے گا اپنے قافلے سے چھوٹنے والے
نہ گردِ کارواں ہو گی نہ شورِ کارواں ہو گا
مجھے معلوم ہے اپنی کہانی، ماجرا اپنا
نہ قاصد سے بیاں ہو گی نہ قاصد سے بیاں ہو گا
وہ چہرے سے سمجھ لیں گے مری حالت مرا ارماں
نہ محتاجِ بیاں ہو گی نہ محتاجِ بیں ہو گا
تم اپنے در پہ دیتے ہو اجازت دفنِ دشمن کی
مری تربت کہاں ہو گی مرا مرقد کہاں ہو گا
ابھی کیا ہے قمر ان ی ذرا نظریں تو پھرنے دو
زمیں نا مہرباں ہو گی فلک نا مہرباں ہو گا
قمر جلالوی

ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 52
ہم بے نشان اور وفا کا نشاں ہنوز
ہے خاکِ تن ہوا و ہوا خوں فشاں ہنوز
بیت الحزن میں نغمۂ شادی بلند ہے
نکلا ہی بابِ مصر سے ہے کارواں ہنوز
صبحِ شبِ وصال نیِ صبح ہے، مگر
پرویں ہنوز جلوہ گر و کہکشاں ہنوز
ہرگز ابھی شکایتِ دشمن نہ چاہئے
ہم پر بھی یار خوب نہیں مہرباں ہنوز
کیوں کر کہیں کہ چھٹ گئے ہم بندِ جسم سے
اس زلفِ پیچ پیچ میں الجھی ہے جاں ہنوز
جو بات میکدے میں ہے اک اک زبان پر
افسوس مدرسے میں ہے بالکل نہاں ہنوز
ضبط و شکیب یاں ہے نقابِ جمال میں
بے وجہ واں نہیں ہے سرِ امتحاں ہنوز
مدت ہوئی بہارِ جہاں دیکھتے ہوئے
دیکھا نہیں کسی نے گلِ بے خزاں ہنوز
اکثر ہوا ہے مجھ کو سفر در وطن مگر
لایا نہ دوستوں کے لئے ارمغاں ہنوز
اک شب ہوا تھا جلوہ نما چرخ پر وہ ماہ
مدہوش ہیں ملائکۂ آسماں ہنوز
نا آشنا رقیب سے ہے آشنا ابھی
نا آشنا ہے لب سے ہمارے فغاں ہنوز
آشفتہ زلف، چاک قبا، نیم باز چشم
ہیں صحبتِ شبانہ کے ظاہر نشاں ہنوز
اے موجۂ نسیم ذرا اور ٹھہر جا
ہے خاک پر ہماری وہ دامن فشاں ہنوز
مے خانے میں تمام جوانی بسر ہوئی
لیکن ملا نہ منصبِ پیرِ مغاں ہنوز
اے تابِ برق تھوڑی سی تکلیف اور بھی
کچھ رہ گئے ہیں خار و خسِ آشیاں ہنوز
آتا ہوں میں وہیں سے ذرا صبر شیفتہ
سونے کے قصد میں بھی نہیں پاسباں ہنوز
مصطفٰی خان شیفتہ

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 47
کعبے کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے
سن کر مرا فسانہ انہیں لطف آگیا
سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے
پیغامبر کی بات پر آپس میں رنج کیا
میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے
کچھ تازگی ہو لذتِ آزار کے لئے
ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے
جانبر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جان
کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے
حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
وقتِ خرامِ ناز دکھا دو جدا جدا
یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے
فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے
دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے
قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح
چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے
جورِ رقیب و ظلمِ فلک کا نہیں خیال
تشویش ایک خاطرِ نا مہرباں کی ہے
سن کر مرا فسانہء غم اس نے یہ کہا
ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے
دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا
خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے
ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار
کیا جانے گردِ راہ یہ کس کارواں کی ہے
کیونکر نہ آتے خلد سے آدم زمین پر
موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے
تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں
تدبیر کوئی بھی ستمِ ناگہاں کی ہے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
داغ دہلوی

کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 107
ہوں میں یکسر رایگاں ، افسوس میں
کیا کہوں میں بس میاں ، افسوس میں
اب عبث کا کارواں ہے گرم سیر
میں ہوں میرِ کارواں ، افسوس میں
کیسے پہنچوں آخر اپنے آپ تک
میں ہوں اپنے درمیاں ، افسوس میں
شعلہء یاقوت فامِ زخمِ دل
میں ہوں کتنا تیرہ جاں ، افسوس میں
یاد اُس لب کی عطش انگیز ہے
ہوں میں دوزخ درمیاں ، ، افسوس میں
بازوانِ مرمرینِ ۔۔ آرزو
وائے ہجرِ جاداں ، افسوس میں
سبزہ زارِ خوابِ لالہ فام میں
کس قدر ہوں میں تپاں ، افسوس میں
پرتوِ سمیینِ مہتابِ گماں
گم ہوئی شمعِ ، افسوس میں
مجھ کو ہے درپیش اپنے سے فراق
میں کہاں اور میں کہاں ، افسوس میں
دل میں نالہ توڑنا ہے جس کا فن
میں ہوں وہ آوازہ خواں ، افسوس میں
میں ہوں گوشہ گیرِ گردِ صد ملال
اے غبارِ کارواں ، افسوس میں
میرے ہی دل پر لگا ہے جس کا تیر
ہے وہ میری ہی کماں افسوس میں
جون ایلیا

سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 102
ہیں عجیب رنگ کی داستاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
سو ہیں اب کہاں؟ مگر اب کہاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
نہ یقیں ہیں اب نہ گماں ہیں اب، سو کہاں تھے جب سو کہاں ہیں اب
وہ یقیں یقیں، وہ گماں گماں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
مری جاں وہ پل جو گئی نکل، کوئی پل تھی وہ کہ ازل، ازل
سو گزشتگی میں ہیں بیکراں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
وہی کارواں ہے کہ ہے رواں وہی وصل و فصل ہیں درمیاں
ہیں غبارِ رفتہ ءِ کارواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
تو مرے بدن سے جھلک بھی لے، میں ترے بدن سے مہک بھی لوں
ہمہ نارسائی ہیں جانِ جاں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
گلہ ءِ فراق تو کیوں بھلا طلبِ وصال تو کیا بھلا
کسی آگ کا تھے بس اک دھواں، گئی پل کا تو، گئی پل کا میں
جون ایلیا

آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک

دیوان ششم غزل 1832
وہ تو نہیں کہ اودھم رہتا تھا آشیاں تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک
لبریز جلوہ اس کا سارا جہاں ہے یعنی
ساری ہے وہ حقیقت جاوے نظر جہاں تک
ہجراں کی سختیوں سے پتھر دل و جگر ہیں
صبر اس کی عاشقی میں کوئی کرے کہاں تک
سوداے عاشقی میں نقصاں ہے جی کا لیکن
ہم راضی ہورہے ہیں اپنے زیان جاں تک
وا ماندہ نقش پا سے یک دشت ہم ہیں بیکس
دشوار ہے پہنچنا اب اپنا کارواں تک
جی مارتے ہیں دلبر عاشق کا اس خطر سے
حرف وفا نہ آیا اپنی کبھو زباں تک
دل دھڑکے ہے جو بجلی چمکے ہے سوے گلشن
پہنچے مبادا میری خاشاک آشیاں تک
دیواروں سے بھی مارا پتھروں سے پھوڑ ڈالا
پہنچا نہ سر ہمارا حیف اس کے آستاں تک
یہ تنگی و نزاکت اس رنگ سے کہاں ہے
گل برگ و غنچے پہنچیں کب ان لب و دہاں تک
ان جلتی ہڈیوں پر ہرگز ہما نہ بیٹھے
پہنچی ہے عشق کی تب اے میر استخواں تک
میر تقی میر

ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ

دیوان پنجم غزل 1648
غم کھنچا رائیگاں دریغ دریغ
ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ
عشق میں جی بھی ہم گنوا بیٹھے
ہو گیا کیا زیاں دریغ دریغ
سب سے کی دشمنی جنھوں کے لیے
وے ہیں نامہرباں دریغ دریغ
قطع امید ہے قریب اس سے
تیغ ہے درمیاں دریغ دریغ
دل گئے پر نہ ورد نے تسبیح
کہتے ہیں ہر زماں دریغ دریغ
اٹھنے دیتا نہیں شکستہ دل
ڈھہ گیا کیا مکاں دریغ دریغ
تب کھلی آنکھ میر اپنی جب
جاچکا کارواں دریغ دریغ
میر تقی میر

خلل سا ہے دماغ آسماں میں

دیوان سوم غزل 1186
نئی گردش ہے اس کی ہر زماں میں
خلل سا ہے دماغ آسماں میں
ہوا تن ضعف سے ایسا کہے تو
کہ اب جی ہی نہیں اس ناتواں میں
کہا میں درد دل یا آگ اگلی
پھپھولے پڑ گئے میری زباں میں
متاع حسن یوسفؑ سی کہاں اب
تجسس کرتے ہیں ہر کارواں میں
بلاے جاں ہے وہ لڑکا پری زاد
اسی کا شور ہے پیر و جواں میں
بہت ناآشنا تھے لوگ یاں کے
چلے ہم چار دن رہ کر جہاں میں
تری شورش بھی بے کل ہے مگر میر
ملا دے پیس کر بجلی فغاں میں
میر تقی میر

ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1185
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میر
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
میر تقی میر

یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے

دیوان دوم غزل 1024
کچھ بات ہے کہ گل ترے رنگیں دہاں سا ہے
یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے
آیا ہے زیر زلف جو رخسار کا وہ سطح
یاں سانجھ کے تئیں بھی سحر کا سماں سا ہے
ہے جی کی لاگ اور کچھ اے فاختہ ولے
دیکھے نہ کوئی سرو چمن اس جواں سا ہے
کیا جانیے کہ چھاتی جلے ہے کہ داغ دل
اک آگ سی لگی ہے کہیں کچھ دھواں سا ہے
اس کی گلی کی اور تو ہم تیر سے گئے
گو قامت خمیدہ ہمارا کماں سا ہے
جو ہے سو اپنی فکر خروبار میں ہے یاں
سارا جہان راہ میں اک کارواں سا ہے
کعبے کی یہ بزرگی شرف سب بجا ہے لیک
دلکش جو پوچھیے تو کب اس آستاں سا ہے
عاشق کی گور پر بھی کبھو تو چلا کرو
کیا خاک واں رہا ہے یہی کچھ نشاں سا ہے
زور طبیعت اس کا سنیں اشتیاق تھا
آیا نظر جو میر تو کچھ ناتواں سا ہے
میر تقی میر

ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے

دیوان دوم غزل 974
وہی شورش موئے پر بھی ہے اب تک ساتھ یاں میرے
ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے
عزیزاں غم میں اپنے یوسفؑ گم گشتہ کے ہر دم
چلے جاتے ہیں آنسو کارواں در کارواں میرے
تمھاری دشمنی ہم دوستوں سے لا نہایت ہے
وگرنہ انتہا کینے کو بھی ہے مہرباں میرے
لب و لہجہ غزل خوانی کا کس کو آج کل ایسا
گھڑی بھر کو ہوئے مرغ چمن ہم داستاں میرے
نظر مت بے پری پر کر کہ آں سوے جہاں پھر ہوں
ہوئے پرواز کے قابل یہ ٹوٹے پر جہاں میرے
کہاں تک سر کو دیواروں سے یوں مارا کرے کوئی
رکھوں اس در پہ پیشانی نصیب ایسے کہاں میرے
مجھے پامال کر یکساں کیا ہے خاک سے تو بھی
وہی رہتا ہے صبح و شام درپے آسماں میرے
خزاں کی بائو سے حضرت میں گلشن کے تطاول تھا
تبرک ہو گئے یک دست خارآشیاں میرے
کہا میں شوق میں طفلان تہ بازار کے کیا کیا
سخن مشتاق ہیں اب شہر کے پیر و جواں میرے
زمیں سر پر اٹھا لی کبک نے رفتار رنگیں سے
خراماں ناز سے ہو تو بھی اے سرو رواں میرے
سخن کیا میر کریے حسرت و اندوہ و حرماں سے
بیاں حاجت نہیں حالات ہیں سارے عیاں میرے
میر تقی میر

وہی اک جنس ہے اس کارواں میں

دیوان دوم غزل 866
نہ نکلا دوسرا ویسا جہاں میں
وہی اک جنس ہے اس کارواں میں
کیا منھ بند سب کا بات کہتے
بلا کچھ سحر ہے اس کی زباں میں
اگر وہ بت نہ جانے تو نہ جانے
ہمیں سب جانے ہیں ہندوستاں میں
نیا آناً فآناً اس کو دیکھا
جدا تھی شان اس کی ہر زماں میں
کھنچی رہتی ہے اس ابروے خم سے
کوئی کیا شاخ نکلی ہے کماں میں
جبیں پر چین رہتی ہے ہمیشہ
بلا کینہ ہے اپنے مہرباں میں
نیا ہے کیا شگوفہ یہ کہ اکثر
رہا ہے پھول پڑتا گلستاں میں
کوئی بجلی کا ٹکڑا اب تلک بھی
پڑا ہو گا ہمارے آشیاں میں
پھرے ہے چھانتا ہی خاک اے میر
ہوس کیا ہے مزاج آسماں میں
میر تقی میر

حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ

دیوان دوم غزل 846
غافل ہیں ایسے سوتے ہیں گویا جہاں کے لوگ
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
کیونکر کہیں کہ شہر وفا میں جنوں نہیں
اس خصم جاں کے سارے دوانے ہیں یاں کے لوگ
رونق تھی دل میں جب تئیں بستے تھے دلبراں
اب کیا رہا ہے اٹھ گئے سب اس مکاں کے لوگ
تو ہم میں اور آپ میں مت دے کسو کو دخل
ہوتے ہیں فتنہ ساز یہی درمیاں کے لوگ
مرتے ہیں اس کے واسطے یوں تو بہت ولے
کم آشنا ہیں طور سے اس کام جاں کے لوگ
پتی کو اس چمن کی نہیں دیکھتے ہیں گرم
جو محرم روش ہیں کچھ اس بدگماں کے لوگ
بت چیز کیا کہ جس کو خدا مانتے ہیں سب
خوش اعتقاد کتنے ہیں ہندوستاں کے لوگ
فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیرچشم ہیں کوے بتاں کے لوگ
کیا سہل جی سے ہاتھ اٹھا بیٹھتے ہیں ہائے
یہ عشق پیشگاں ہیں الٰہی کہاں کے لوگ
منھ تکتے ہی رہے ہیں سدا مجلسوں کے بیچ
گویا کہ میر محو ہیں میری زباں کے لوگ
میر تقی میر

نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

دیوان اول غزل 463
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
برنگ صوت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جاے گئی طبع بدگماں میری
وہ نقش پاے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں
نہ کچھ خبر ہے نہ سدھ ہے گی رہرواں میری
شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری
اسی سے دور رہا اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمرعزیز آہ رائیگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری
نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری
رہا میں در پس دیوار باغ مدت لیک
گئی گلوں کے نہ کانوں تلک فغاں میری
ہوا ہوں گریۂ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میر
پڑی جہان میں جاکر نظر جہاں میری
میر تقی میر

اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو

دیوان اول غزل 409
اجرت میں نامہ کی ہم دیتے ہیں جاں تلک تو
اب کار شوق اپنا پہنچا ہے یاں تلک تو
آغشتہ میرے خوں سے اے کاش جاکے پہنچے
کوئی پر شکستہ ٹک گلستاں تلک تو
واماندگی نے مارا اثناے رہ میں ہم کو
معلوم ہے پہنچنا اب کارواں تلک تو
افسانہ غم کا لب تک آیا ہے مدتوں میں
سو جائیو نہ پیارے اس داستاں تلک تو
آوارہ خاک میری ہو کس قدر الٰہی
پہنچوں غبار ہوکر میں آسماں تلک تو
آنکھوں میں اشک حسرت اور لب پہ شیون آیا
اے حرف شوق تو بھی آیا زباں تلک تو
اے کاش خاک ہی ہم رہتے کہ میر اس میں
ہوتی ہمیں رسائی اس آستاں تلک تو
میر تقی میر

کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو

دیوان اول غزل 383
اے چرخ مت حریف اندوہ بے کساں ہو
کیا جانے منھ سے نکلے نالے کے کیا سماں ہو
کب تک گرہ رہے گا سینے میں دل کے مانند
اے اشک شوق اک دم رخسار پر رواں ہو
ہم دور ماندگاں کی منزل رساں مگر اب
یا ہو صدا جرس کی یا گرد کارواں ہو
مسند نشین ہو گر عرصہ ہے تنگ اس پر
آسودہ وہ کسو کا جو خاک آستاں ہو
تاچند کوچہ گردی جیسے صبا زمیں پر
اے آہ صبح گاہی آشوب آسماں ہو
گر ذوق سیر ہے تو آوارہ اس چمن میں
مانند عندلیب گم کردہ آشیاں ہو
یہ جان تو کہ ہے اک آوارہ دست بردل
خاک چمن کے اوپر برگ خزاں جہاں ہو
کیا ہے حباب ساں یاں آ دیکھ اپنی آنکھوں
گر پیرہن میں میرے میرا تجھے گماں ہو
از خویش رفتہ ہر دم رہتے ہیں ہم جو اس بن
کہتے ہیں لوگ اکثر اس وقت تم کہاں ہو
پتھر سے توڑ ڈالوں آئینے کو ابھی میں
گر روے خوبصورت تیرا نہ درمیاں ہو
اس تیغ زن سے کہیو قاصد مری طرف سے
اب تک بھی نیم جاں ہوں گر قصد امتحاں ہو
کل بت کدے میں ہم نے دھولیں لگائیاں ہیں
کعبے میں آج زاہد گو ہم پہ سرگراں ہو
ہمسایہ اس چمن کے کتنے شکستہ پر ہیں
اتنے لیے کہ شاید اک بائو گل فشاں ہو
میر اس کو جان کر تو بے شبہ ملیو رہ پر
صحرا میں جو نمد مو بیٹھا کوئی جواں ہو
میر تقی میر

دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں

دیوان اول غزل 358
تکلیف باغ کن نے کی تجھ خوش دہاں کے تیں
دیتا ہے آگ رنگ ترا گلستاں کے تیں
تنکا بھی اب رہا نہیں شرمندگی ہے جو
گر پڑ کے برق پاوے مرے آشیاں کے تیں
آئے عدم سے ہستی میں تس پر نہیں قرار
ہے ان مسافروں کا ارادہ کہاں کے تیں
سناہٹے سے باغ سے کچھ اٹھتے ہیں نسیم
مرغ چمن نے خوب متھا ہے فغاں کے تیں
بے رحم ٹک تو پائوں تو چھاتی پہ رکھے رہ
مارا بھی ہے کبھی تیں کسی خستہ جاں کے تیں
اک گردش اے فلک کہ ہو اثناے راہ سے
کنعاں کی اور راہ غلط کارواں کے تیں
تو اک زباں پہ چپکی نہیں رہتی عندلیب
رکھتا ہے منھ میں غنچۂ گل سو زباں کے تیں
دیکھے کہاں ہیں زلف تری مردمان شہر
سودا ہوا ہے کہنے لگے اس جواں کے تیں
ہم تو ہوئے تھے میر سے اس دن ہی ناامید
جس دن سنا کہ ان نے دیا دل بتاں کے تیں
میر تقی میر

یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 330
جو سر پہ کل تھا وہی آسماں ابھی تک ہے
یہ میرے ساتھ کا بچہ جواں ابھی تک ہے
کسی جزیرے پہ شاید مجھے بھی پھینک آئے
سمندروں پہ ہوا حکمراں ابھی تک ہے
یہاں سے پیاسوں کے خیمے تو اٹھ گئے کب کے
یہ کیوں رکی ہوئی جوئے رواں ابھی تک ہے
تو رہزنوں کو بھی توفیقِ خواب دے یارب
کہ دشتِ شب میں مرا کارواں ابھی تک ہے
میں کس طرح مرے قاتل گلے لگاؤں تجھے
یہ تیر تیرے مرے درمیاں ابھی تک ہے
عرفان صدیقی

کارواں میں کچھ غبارِ کارواں میرا بھی تھا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 55
اے ہوا‘ کل تیری راہوں پر نشاں میرا بھی تھا
کارواں میں کچھ غبارِ کارواں میرا بھی تھا
اب خیال آتا ہے سب کچھ راکھ ہوجانے کے بعد
کچھ نہ کچھ تو سائباں در سائباں میرا بھی تھا
اس کی آنکھوں میں نہ جانے عکس تھا کس کا مگر
انگلیوں پر ایک لمس رائیگاں میرا بھی تھا
کیوں تعاقب کر رہی ہے تشنگی‘ اے تشنگی
کیا کوئی خیمہ سرِ آب رواں میرا بھی تھا
جان پر کب کھیلتا ہے کوئی اوروں کے لیے
ایک بچہ دشمنوں کے درمیاں میرا بھی تھا
شہر کے ایوان اپنی مٹھیاں کھولیں ذرا
اس زمیں پر ایک ٹکڑا آسماں میرا بھی تھا
میں نے جس کو اگلی نسلوں کے حوالے کر دیا
یار سچ پوچھو تو وہ بارِ گراں میرا بھی تھا
عرفان صدیقی

پسِ شامِ تن جو پکارنا سرِ بامِ جاں اسے دیکھنا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 23
وہ ہلالِ ماہِ وصال ہے دلِ مہرباں اسے دیکھنا
پسِ شامِ تن جو پکارنا سرِ بامِ جاں اسے دیکھنا
مری عاشقی مری شاعری ہے سمندروں کی شناوری
وہی ہم کنار اسے چاہنا وہی بے کراں اسے دیکھنا
وہ ستارہ ہے سرِ آسماں ابھی میری شامِ زوال میں
کبھی میرے دستِ کمال میں تہہِ آسماں اسے دیکھنا
وہ ملا تھا نخلِ مراد سا ابھی مجھ کو نجدِ خیال میں
تو ذرا غبارِ شمال میں مرے سارباں اسے دیکھنا
نہ ملے خبر کبھی دوستو مرے حال میرے ملال کی
تو بچھڑ کے اپنے حبیب سے پسِ کارواں اسے دیکھنا
عرفان صدیقی

بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 23
کل مدعی کو آپ پر کیا کیا گماں رہے
بات اس کی کاٹتے رہے اور ہمزباں رہے
یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
یا کھینچ لائے دہر سے رندوں کو اہلِ وعظ
یا آپ بھی ملازمِ پیر مغاں رہے
وصل مدام سے بھی ہماری بجھی نہ پیاس
ڈوبے ہم آبِ خضر میں اور نیم جاں رہے
کل کی خبر ہو تو جھوٹے کا رو سیاہ
تم مدعی کے گھر گئے اور مہماں رہے
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
حالیؔ کے بعد کوئی نہ ہمدرد پھر ملا
کچھ راز تھے کہ دل میں ہمارے نہاں رہے
الطاف حسین حالی

کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 214
غم اور خوشی کے راستے آ کر جہاں ملے
کچھ مہرباں جدا ہوئے کچھ مہرباں ملے
جن کے طفیل بزم تمنا میں رنگ تھا
وہ لوگ تجھ کو گردش دوراں کہاں ملے
راہوں پہ آج ان کا تصور بھی ہے گراں
منزل کے پاس کل جو ہمیں کارواں ملے
اہل نظر سے دل کی مہم سر نہ ہو سکی
کچھ سرنگوں ملے ہیں تو کچھ سرگراں ملے
روداد شوق تشنۂ اظہار ہی رہی
ملنے کو ہم خیال ملے، ہم زباں ملے
خوں رو رہے تھے کل جو بہاروں کی یاد میں
وہ آج بے نیاز غم گلستاں ملے
باقیؔ نہ تھی اگرچہ فریب وفاکی تاب
پھر بھی رُکے نقوش محبت جہاں ملے
باقی صدیقی

منزل جلی، مقام جلے، کارواں جلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 212
جوش جنوں میں زیست کے سارے نشاں جلے
منزل جلی، مقام جلے، کارواں جلے
اہل ستم پہ اہل ستم کا ستم نہ پوچھ
اک آستاں کے بدلے کئی آستاں جلے
فصل بہار میں جو نکالے گئے ندیم
ان کی بلا سے باغ جلے، باغباں جلے
مجبوریوں کا نام ہی شاید ہے بےکسی
نظروں کے سامنے بھی کئی آشیاں جلے
باقیؔ ستمگروں کی ادائے ستم نہ پوچھ
زنداں وہیں بنائے نشیمن جہاں جلے
باقی صدیقی

آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 201
ہم تو دنیا سے بدگماں ٹھہرے
آگے دل کی خوشی جہاں ٹھہرے
ہائے وہ قافلے جو لٹ کر بھی
زیر دیوار گلستاں ٹھہرے
آپ کو کارواں سے کیا مطلب
آپ تو میر کارواں ٹھہرے
زندگی چاہتی ہے ہنگامہ
اور ہم لوگ بے زباں ٹھہرے
کبھی تیری تلاش میں نکلے
کبھی بن کر ترا نشاں ٹھہرے
گردش دہر ساتھ ساتھ رہی
ہم جدھر بھی گئے، جہاں ٹھہرے
ہر قدم پر تھا اک صنم خانہ
کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے
ہر نظر سنگ راہ تھی باقیؔ
کیا بتائیں کہاں کہاں ٹھہرے
کچھ تو کج رو جہاں بھی ہے باقیؔ
اور کچھ ہم بھی قصّہ خواں ٹھہرے
باقی صدیقی

مگر تجھ سے ہے دنیا بدگماں کیوں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 107
کوئی سمجھے تجھے نا مہرباں کیوں
مگر تجھ سے ہے دنیا بدگماں کیوں
کوئی تو بات ہے اظہار غم میں
وگرنہ لڑکھڑاتی ہے زباں کیوں
ابھرتا ہے یہیں سے ہر تلاطم
بلندی سے خفا ہیں پستیاں کیوں
جو اپنی رہگزر سے آشنا ہو
وہ دیکھے نقش پائے رہرواں کیوں
اداسی منزلوں کی کہہ رہی ہے
ادھر سے کوئی گزرے کارواں کیوں
مسافر کوئی شاید لٹ گیا ہے
چراغ راہ دے اٹھا دھواں کیوں
جہاں تیری نطر ہو کار فرما
وہاں باقیؔ رہے میرا نشاں کیوں
باقی صدیقی