ٹیگ کے محفوظات: ڈھلوان

دوستو‘ پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر

درد کے موسم کا کیا ہو گا اثر انجان پر
دوستو‘ پانی کبھی رکتا نہیں ڈھلوان پر
آج تک اس کے تعاقب میں بگولے ہیں رَواں
اَبر کا ٹکڑا کبھی برسا تھا ریگستان پر
میں جو پَربت پر چڑھا‘ وہ اور اُونچا ہو گیا
آسماں جُھکتا نظر آیا مجھے میدان پر
کمرے خالی ہو گئے‘ سایوں سے آنگن بھر گیا
ڈُوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں دالان پر
اب یہاں کوئی نہیں ہے‘ کس سے باتیں کیجیے
یہ مگر چُپ چاپ سی تصویر آتشدان پر
آج بھی شاید کوئی پھولوں کا تحفہ بھیج دے
تتلیاں منڈلا رہی ہیں کانچ کے گلدان پر
بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں
نیلی چادر سی تنی ہے جو کُھلے میدان پر
وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی‘ اے شکیبؔ
یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشن دان پر
شکیب جلالی

نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان

جس راہ پر بھی ہم چلے اُس سے یہی آئی صدا
نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان
جتنی بلندی دیکھنی تھی دیکھ لی آگے تو بس
ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان
تقدیر مجبوری نہیں یہ تو کسی بھی چیز کا
امکان ہے امکان ہے امکان ہے امکان
ذوقِ سخن اتنا بڑھا اپنا کہ اب تو ہر طرف
دیوان ہے دیوان ہے دیوان ہے دیوان
گو بادشاہت کا مخالف ہوں مگر ٹیپو مرا
سلطان ہے سلطان ہے سلطان ہے سلطان
باصِرؔ سے ہوتی ہے خطا یہ سوچ کے کر درگذر
نادان ہے نادان ہے نادان ہے نادان
باصر کاظمی

نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 192
تحیر خیز موسم کی ہوئی وجدان پر بارش
نظر دیوار سے گزری، رکی ڈھلوان پر بارش
ترے پاگل کی باتیں اتفاقاتِ جہاں ہیں کیا
ہوئی ہے یوں ہی برسوں بعد ریگستان پر بارش
سراپا آگ !دم بھر کو مرے چہرے پہ نظریں رکھ
تری آنکھوں سے ہو گی تیرے آتش دان پر بارش
گرے تو پھول بن جائے ترے چہرے پہ مہتابی
پڑے تو آگ بن جائے ترے دامان پر بارش
کتابِ غم کو کتنی بار برساتوں میں رکھا ہے
نہیں پڑتی جنابِ میر کے دیوان پر بارش
وہ برساتیں پہن کر گاؤں میں پھرتی ہوئی لڑکی
مجھے یاد آتی ہے اس سے مہکتی دھان پر بارش
محبت جاگتی ہے جب تو پھر ہوتی ہے سپنوں کی
مقام یاد پر بارش، شبِ پیمان پر بارش
عدم آباد سے آگے خدا کی آخری حد تک
رہی ہے زندگی کی قریہء امکان پر بارش
گئے گزرے زمانے ڈھونڈتی بدلی کی آنکھوں سے
یونہی ہے اِس کھنڈر جیسے دلِ ویران پر بارش
کئی برسوں سے پانی کو ترستی تھی مری چوپال
کسی کا پاؤں پڑتے ہی ہوئی دالان پر بارش
بڑی مشکل سے بادل گھیر لایا تھا کہیں سے میں
اتر آئی ہے اب لیکن مرے نقصان پر بارش
بہا کر لے گئی جو شہر کے کچے گھروندوں کو
نہیں ویسی نہیں ہے قصرِ عالی شان پر بارش
کہے ہے بادلو! یہ ڈوبتے سورج کی تنہائی
ذرا سی اہتمامِ شام کے سامان پر بارش
بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں سنہری بھاپ کی لہریں
اثر انداز کیا ہو لمس کے طوفان پر بارش
جلایا کس گنہ گارہ کو معصوموں کی بستی نے
کہ اتری بال بکھرائے ہوئے شمشان پر بارش
کسی مشہور نٹ کا رقص تھا اونچی حویلی میں
ہوئی اچھی بھلی نوٹوں کی پاکستان پر بارش
مجھے مرجھاتے پھولوں کا ذرا سا دکھ ہوا منصور
مسلسل ہو رہی ہے کانچ کے گلدان پر بارش
منصور آفاق