ٹیگ کے محفوظات: ڈھب

اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے


قدغن لگی ہے سوچ پہ اور لَب سلے ہوئے
اور چاک تک قفس کے مرے سَب سلے ہوئے
نکلا ہوں کتنے زعم سے دُنیا کے سامنے
پہنے ہوئے یہ چیتھڑے بے ڈَھب سلے ہوئے
صدیوں کی گھاٹیوں میں یہ لمحوں کی مشعلیں
گہرے فلک پہ اختر و کوکب سلے ہوئے
مشکل کہاں ہے میرے سوالوں کو بوجھنا
سادہ ہیں ان حروف میں مطلب سلے ہوئے
آنکھوں میں سُرخ ڈوریاں عمروں سے ساتھ تھیں
اس دِل کے زخم پھر بھی رہے کب سلے ہوئے
جُوں جُوں چمن میں سُرخی پروتی گئی بہار
کھلتے گئے ہیں گھاؤ مرے سب سلے ہوئے
ایسا بیاں کا زور کیا تھا اگر عطا
کیوں ہونٹ دے دئیے مجھے یا رب سلے ہوئے
یاور ماجد

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

اَیسی فَرسُودہ رسومات کو اَب رہنے دو

جو بھی دِل میں ہے کَہو، پاسِ اَدَب رہنے دو
اَیسی فَرسُودہ رسومات کو اَب رہنے دو
تِیر کِس سمت سے آیا ہے یہی کافی ہے
تِیر اَنداز کا اَب نام و نَسَب رہنے دو
مُجھ سے اُترے ہوئے چہرے نہیں دیکھے جاتے
کوئی پُوچھے بھی تَو کہتا ہُوں ، سَبَب رہنے دو
جِس کو خُورشیدِ قَیامَت سے اُجالا نہ مِلے
کیا عَجَب گَر وہ کہے ظُلمَتِ شَب رہنے دو
دِل کا اصرار ہے جو دِل میں ہے کہہ دُوں اُن سے
ذہن کہتا ہے، وہ اَب وہ نہیں ، اَب رہنے دو
کون رکھتا ہے رہ و رَسمِ زمانہ کا خیال
صِرف کہنے کی یہ باتیں ہیں ، یہ سَب رہنے دو
مُجھ کو طُوفاں نے ڈبویا نہیِں ، خُود ڈُوبا ہُوں
اہلِ ساحِل سے کہو جَشنِ طَرَب رہنے دو
عَکسِ قاتِل نَظَر آجائے نہ زَخموں میں کہیِں
جیسے مَقتَل میں پَڑا ہُوں اسی ڈَھَب رہنے دو
قحطِ اَقدار میں یہ مِہر و مُرَوَّت، ضامنؔ!
کیا ضرورَت ہے تکلّف کی یہ سَب رہنے دو
ضامن جعفری

مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
بہت یاد آؤں گا ہر شخص کو جب میں نہیں ہوں گا
مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا
مری قامت نہیں تسلیم جن بَونوں کو اب، وہ بھی
دلائیں گے مجھے کیا کیا نہ منصب، میں نہیں ہوں گا
سحر پھوٹے گی آخر جگنوؤں سے میرے حرفوں کے
یہ ہو گا پر ہُوا جب اس طرح تب میں نہیں ہوں گا
نہ جانیں گے خمیر اِس کا اٹھا کن تلخیوں سے تھا
مرا شیریں سخن دہرائیں گے سب میں نہیں ہوں گا
یقیں ہے انتقاماً جب مجھے ظلمت نگل لے گی
مرے فکر و نظر ٹھہریں گے کوکب میں نہیں ہوں گا
جتانے کو مری بے چینیاں آتے زمانوں تک
پسِ ہر حرف دھڑکیں گے مرے لب میں نہیں ہوں گا
ملا جو صرف، فن ہو کر مجھے اظہار کا ، ماجِد
سبھی ترسیں گے اپنانے کو وہ ڈھب میں نہیں ہوں گا
ماجد صدیقی

ہمارے شہر کا موسم عجب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
فصیلوں پر سحر، صحنوں میں شب ہے
ہمارے شہر کا موسم عجب ہے
وہ دیکھو ماہِ رخشاں بادلوں سے
لپٹ کر کس قدر محوِ طرب ہے
پئے عرفانِ منزل، گمرہوں کو
کہیں ہم جو بھی کچھ، لہو و لعب ہے
کچھار اپنی بنا لو حفظِ جہاں کو
نگر میں اب یہی جینے کا ڈھب ہے
ہمارے ہی لئے کیوں ایک ماجد
مزاجِ دہر میں رنج و تعب ہے
ماجد صدیقی

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 67
مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں

دیوان پنجم غزل 1688
فریاد سے کیا لوگ ہیں دن ہی کو عجب میں
رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں
حسرت کی جگہ ہے نہ کہ سبزان گل اندام
جاتے ہیں چلے آگے سے آتے نہیں ڈھب میں
افتادگی پر بھی نہ چھوا دامن انھوں کا
کوتاہی نہ کی دلبروں کے ہم نے ادب میں
کر خوف کَلک خَسپ کی جو سرخ ہیں آنکھیں
جلتے ہیں تر و خشک بھی مسکیں کے غضب میں
پایا نہ کنھوں نے اسے کوشش کی بہت میر
سب سالک و مجذوب گئے اس کی طلب میں
میر تقی میر

سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا

دیوان پنجم غزل 1565
دل کے خوں ہونے کا غم کیا اب سے تھا
سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا
اس کی مقتولی کا ہم کو رشک ہے
دو قدم جو کشتہ آگے سب سے تھا
کون مل سکتا ہے اس اوباش سے
اختلاط اس سے ہمیں اک ڈھب سے تھا
گرم ملنے والے دیکھے یار کے
ایک ٹھنڈا ہو گیا اک تب سے تھا
چپ سی مجھ کو لگ گئی تھی تب سے میر
شور ان شیریں لبوں کا جب سے تھا
میر تقی میر

حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف

دیوان چہارم غزل 1414
آج ہمارا سر پھرتا ہے باتیں جتنی سب موقوف
حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف
کس کو دماغ رہا ہے یاں آٹھ پہر کی منت کا
ربط اخلاص سے دن گذرے ہے خلطہ اس سے سب موقوف
اس کی گلی میں آمد و شد کی گھات ہی میں ہم رہتے تھے
اب جو شکستہ پا ہو بیٹھے ڈھب کرنے کے ڈھب موقوف
وہ جو مانع ہو تو کیا ہے شوق کمال کو پہنچا ہے
وقفہ ہو گا تب ملنے میں ہم بھی کریں گے جب موقوف
حلقے پڑے ہیں چشم تر میں سوکھے ایسے تم نہ رہے
رونا کڑھنا عشق میں اس کے میر کروگے کب موقوف
میر تقی میر

جا چکا ہوں جہان سے کب کا

دیوان چہارم غزل 1316
رفتۂ عشق کیا ہوں میں اب کا
جا چکا ہوں جہان سے کب کا
لوگ جب ذکر یار کرتے ہیں
دیکھ رہتا ہوں دیر منھ سب کا
مست رہتا ہوں جب سے ہوش آیا
میں بھی عاشق ہوں اپنے مشرب کا
ہم تو ناکام ہی چلے یاں سے
تم کو ہو گا وصول مطلب کا
درس کہیے جنوں کا تو مجنوں
اپنے آگے ہے طفل مکتب کا
لعل کی بات کون سنتا ہے
شور ہے زور یار کے لب کا
زلف سا پیچ دار ہے ہر شعر
ہے سخن میر کا عجب ڈھب کا
میر تقی میر

پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ

دیوان سوم غزل 1242
کہتے تو ہیں کہ ہم کو اس کی طلب نہیں کچھ
پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ
اخلاص و ربط اس سے ہوتا تو شور اٹھاتے
لب تشنہ اپنے تب ہیں دلبر سے جب نہیں کچھ
یاں اعتبار کریے جو کچھ وہی ہے ظاہر
یہ کائنات اپنی آنکھوں میں سب نہیں کچھ
رکھ منھ کو گل کے منھ پر کیا غنچہ ہو کے سوئے
ہے شوخ چشم شبنم اس کو ادب نہیں کچھ
دل خوں نہ ہووے کیونکر یکسروراے الفت
یا سابقے بہت تھے یا اس سے اب نہیں کچھ
یہ حال بے سبب تو ہوتا نہیں ہے لیکن
رونے کا لمحہ لمحہ ظاہر سبب نہیں کچھ
کر عشق میر اس کا مارے کہیں نہ جاویں
جلدی مزاج میں ہے اس سے عجب نہیں کچھ
میر تقی میر

لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں

دیوان سوم غزل 1214
ہجر تاچند ہم اب وصل طلب کرتے ہیں
لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں
روز اک ظلم نیا کرتے ہیں یہ دلبر اور
روز کہتے ہیں ستم ترک ہم اب کرتے ہیں
لاگ ہے جی کے تئیں اپنے اسی یار سے ایک
اور سب یاروں کا ہم لوگ تو سب کرتے ہیں
تم کبھو میر کو چاہو سو کہ چاہیں ہیں تمھیں
اور ہم لوگ تو سب ان کا ادب کرتے ہیں
ہوں جو بے حال اس اعجوبۂ عالم کے لیے
حال سن سن کے مرا لوگ عجب کرتے ہیں
میر سے بحث یہ تھی کچھ جو نہ تھے حرف شناس
اب سخن کرتے ہیں کوئی تو غضب کرتے ہیں
میر تقی میر

آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا

دیوان سوم غزل 1069
جس خشم سے وہ شوخ چلا آج شب آیا
آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا
اس نرگس مستانہ کو کر یاد کڑھوں ہوں
کیا گریۂ سرشار مجھے بے سبب آیا
راہ اس سے ہوئی خلق کو کس طور سے یارب
ہم کو کبھی ملنے کا تو اس کے نہ ڈھب آیا
کیا پوچھتے ہو دب کے سخن منھ سے نہ نکلا
کچھ دیکھتے اس کو مجھے ایسا ادب آیا
کہتے تو ہیں میلان طبیعت ہے اسے بھی
یہ باتیں ہیں ایدھر کو مزاج اس کا کب آیا
خوں ہوتی رہی دل ہی میں آزردگی میری
کس روز گلہ اس کا مرے تابہ لب آیا
جی آنکھوں میں آیا ہے جگر منھ تئیں میرے
کیا فائدہ یاں چل کر اگر یار اب آیا
آتے ہوئے اس کے تو ہوئی بے خودی طاری
وہ یاں سے گیا اٹھ کے مجھے ہوش جب آیا
جاتا تھا چلا راہ عجب چال سے کل میر
دیکھا اسے جس شخص نے اس کو عجب آیا
میر تقی میر

مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو

دیوان دوم غزل 930
مطرب نے پڑھی تھی غزل اک میر کی شب کو
مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو
پھرتے ہیں چنانچہ لیے خدام سلاتے
درویشوں کے پیراہن صد چاک قصب کو
کیا وجہ کہیں خوں شدن دل کی پیارے
دیکھو تو ہو آئینے میں تم جنبش لب کو
برسوں تئیں جب ہم نے تردد کیے ہیں تب
پہنچایا ہے آدم تئیں واعظ کے نسب کو
ہے رحم کو بھی راہ دل یار میں بارے
جاگہ نہیں یاں ورنہ کہیں اس کے غضب کو
کیا ہم سے گنہگار ہیں یہ سب جو موئے ہیں
کچھ پوچھو نہ اس شوخ کی رنجش کے سبب کو
دل دینے سے اس طرح کے جی کاش کے دیتے
یوں کھینچے کوئی کب تئیں اس رنج و تعب کو
حیرت ہے کہ ہے مدعی معرفت اک خلق
کچھ ہم نے تو پایا نہیں اب تک ترے ڈھب کو
ہو گا کسو دیوار کے سائے میں پڑا میر
کیا ربط محبت سے اس آرام طلب کو
میر تقی میر

بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم

دیوان دوم غزل 858
محرم سے کسو روبرو ہوں کاشکے اب ہم
بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم
تدبیریں کریں اپنے تن زار و زبوں کی
افراط سے اندوہ کی ہوں آپ میں جب ہم
تو لاگو نہ ہو جی کا تو ناچار ہیں ورنہ
اس جنس گراں مایہ سے گذرے نہیں کب ہم
یک سلسلہ ہے قیس کا فرہاد کا اپنا
جوں حلقۂ زنجیر گرفتار ہیں سب ہم
کس دن نہ ملا غیر سے تو گرم علی الرغم
رہتے ہیں یوں ہی لوٹتے انگاروں پہ شب ہم
مجمع میں قیامت کے اک آشوب سا ہو گا
آنکلے اگر عرصے میں یوں نالہ بلب ہم
کیا معرفت اس سے ہوئی یاروں کو نہ سمجھے
اب تک تو نہیں پاتے ہیں کچھ یار کے ڈھب ہم
گہ نوچ لیا منھ کو گہے کوٹ لی چھاتی
دل تنگی ہجراں سے ہیں مغلوب غضب ہم
آغاز محبت میں تمامی ہوئی اپنی
اے واے ہوئے خاک بسر راہ طلب ہم
تربت سے ہماری نہ اٹھی گرد بھی اے میر
جی سے گئے لیکن نہ کیا ترک ادب ہم
میر تقی میر

بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور

دیوان دوم غزل 808
طاقت نہیں ہے جان میں کڑھنا تعب ہے اور
بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور
ہر چند چپ ہوں لیک مرا حال ہے عجب
احوال پرسی تو نہ کرے تو عجب ہے اور
آنکھ اس کی اس طرح سے نہیں پڑتی ٹک ادھر
اب خوب دیکھتے ہیں تو چتون کا ڈھب ہے اور
کیا کہیے حال دل کا جدائی کی رات میں
گذرے ہے کب کہانی کہے سے یہ شب ہے اور
دل لے چکے دکھا کے رخ خوب کو تبھی
اب منھ چھپا جو بیٹھے یہ حسن طلب ہے اور
اس دل لگے کے روگ کو نسبت مرض سے کیا
اپنا یہ جلتے رہنا ہے کچھ اور تب ہے اور
طور اگلے تیرے ملتے نہیں اس طرح سے ٹک
وہ اور کچھ تھا ہم سے تو پیارے یہ اب ہے اور
کیا بات تیری اے ہمہ عیاری و فریب
آنکھیں کہیں ہیں اور سخن زیر لب ہے اور
اسباب مرگ کے تو مہیا ہیں سارے میر
شاید کہ زندگانی کا اپنی سبب ہے اور
میر تقی میر

ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب

دیوان دوم غزل 772
جیسا مزاج آگے تھا میرا سو کب ہے اب
ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب
سدھ کچھ سنبھالتے ہی وہ مغرور ہو گیا
ہر آن بے دماغی و ہر دم غضب ہے اب
دوری سے اس کی آہ عجب حال میں ہیں لوگ
کچھ بھی جو پاس وہ نہ کرے تو عجب ہے اب
طاقت کہ جس سے تاب جفا تھی سو ہوچکی
تھوڑی سی کوفت میں بھی بہت سا تعب ہے اب
دریا چلا ہے آج تو بوس و کنار کا
گر جی چلاوے کوئی دوانہ تو ڈھب ہے اب
جاں بخشیاں جو پیشتر از خط کیا کیے
ان ہی لبوں سے خلق خدا جاں بلب ہے اب
رنجش کی وجہ آگے تو ہوتی بھی تھی کوئی
روپوش ہم سے یار جو ہے بے سبب ہے اب
نے چاہ وہ اسے ہے نہ مجھ کو ہے وہ دماغ
جانا مرا ادھر کو بشرط طلب ہے اب
جاتا ہوں دن کو ملنے تو کہتا ہے دن ہے میر
جو شب کو جایئے تو کہے ہے کہ شب ہے اب
میر تقی میر

جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا

دیوان دوم غزل 738
حیراں ہے لحظہ لحظہ طرز عجب عجب کا
جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا
کہتے ہیں کوئی صورت بن معنی یاں نہیں ہے
یہ وجہ ہے کہ عارف منھ دیکھتا ہے سب کا
نسبت درست جس کی اس رو و مو سے پائی
ہے درہم اور برہم حال اس کے روز و شب کا
افسوس ہے نہیں تو انصاف دوست ورنہ
شایان لطف دشمن شائستہ میں غضب کا
سودائی ایک عالم اس کا بنا پھرے ہے
ہر چند عزلتی ہے وہ خال کنج لب کا
منھ اس کے منھ کے اوپر شام و سحر رکھوں ہوں
اب ہاتھ سے دیا ہے سررشتہ میں ادب کا
کیا آج کل سے اس کی یہ بے توجہی ہے
منھ ان نے اس طرف سے پھیرا ہے میر کب کا
میر تقی میر

مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے

دیوان اول غزل 590
دن کو نہیں ہے چین نہ ہے خواب شب مجھے
مرنا پڑا ضرور ترے غم میں اب مجھے
ہنگامہ میری نعش پہ تیری گلی میں ہے
لے جائیں گے جنازہ کشاں یاں سے کب مجھے
ٹک داد میری اہلمحلہ سے چاہیو
تجھ بن خراب کرتے رہے ہیں یہ سب مجھے
طوفاں بجاے اشک ٹپکتے تھے چشم سے
اے ابر تر دماغ تھا رونے کا جب مجھے
دو حرف اس کے منھ کے تو لکھ بھیجیو شتاب
قاصد چلا ہے چھوڑ کے تو جاں بلب مجھے
کچھ ہے جواب جو میں کروں حشر کو سوال
مارا تھا تونے جان سے کہہ کس سبب مجھے
غیراز خموش رہنے کہ ہونٹوں کے سوکھنے
لیکن نہیں ہے یار جھگڑنے کا ڈھب مجھے
پوچھا تھا راہ جاتے کہیں ان نے میر کو
آتا ہے اس کی بات کا اب تک عجب مجھے
میر تقی میر

صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی

دیوان اول غزل 450
دو دن سے کچھ بنی تھی سو پھر شب بگڑ گئی
صحبت ہماری یار سے بے ڈھب بگڑ گئی
واشد کچھ آگے آہ سے ہوتی تھی دل کے تیں
اقلیم عاشقی کی ہوا اب بگڑ گئی
گرمی نے دل کی ہجر میں اس کے جلا دیا
شاید کہ احتیاط سے یہ تب بگڑ گئی
خط نے نکل کے نقش دلوں کے اٹھا دیے
صورت بتوں کی اچھی جو تھی سب بگڑ گئی
باہم سلوک تھا تو اٹھاتے تھے نرم گرم
کاہے کو میر کوئی دبے جب بگڑ گئی
میر تقی میر

جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی

دیوان اول غزل 441
گئی چھائوں اس تیغ کی سر سے جب کی
جلے دھوپ میں یاں تلک ہم کہ تب کی
پڑی خرمن گل پہ بجلی سی آخر
مرے خوش نگہ کی نگاہ اک غضب کی
کوئی بات نکلے ہے دشوار منھ سے
ٹک اک تو بھی تو سن کسی جاں بلب کی
تو شملہ جو رکھتا ہے خر ہے وگرنہ
ضرورت ہے کیا شیخ دم اک وجب کی
یکایک بھی آ سر پہ واماندگاں کے
بہت دیکھتے ہیں تری راہ کب کی
دماغ و جگر دل مخالف ہوئے ہیں
ہوئی متفق اب ادھر رائے سب کی
تجھے کیونکے ڈھونڈوں کہ سوتے ہی گذری
تری راہ میں اپنے پاے طلب کی
دل عرش سے گذرے ہے ضعف میں بھی
یہ زور آوری دیکھو زاری شب کی
عجب کچھ ہے گر میر آوے میسر
گلابی شراب اور غزل اپنے ڈھب کی
میر تقی میر

کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات

دیوان اول غزل 186
کیا کہیں اپنی اس کی شب کی بات
کہیے ہووے جو کچھ بھی ڈھب کی بات
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
کس کا روے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات
ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات
کہتے ہیں آگے تھا بتوں میں رحم
ہے خدا جانیے یہ کب کی بات
گو کہ آتش زباں تھے آگے میر
اب کی کہیے گئی وہ تب کی بات
میر تقی میر

کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات

دیوان اول غزل 181
روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آپھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
یک بار تو اس شوخ سے یارب ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بخود بھی
کچھ لطف اٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میر کو مل آیئے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
میر تقی میر

لہو آتا ہے جب نہیں آتا

دیوان اول غزل 78
اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہے جب نہیں آتا
ہوش جاتا نہیں رہا لیکن
جب وہ آتا ہے تب نہیں آتا
صبر تھا ایک مونس ہجراں
سو وہ مدت سے اب نہیں آتا
دل سے رخصت ہوئی کوئی خواہش
گریہ کچھ بے سبب نہیں آتا
عشق کو حوصلہ ہے شرط ارنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آتا
جی میں کیا کیا ہے اپنے اے ہمدم
پر سخن تا بلب نہیں آتا
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
میر تقی میر

پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 324
وہ اُن دِنوں تو ہمارا تھا، لیکن اَب کیا ہے
پھر اُس سے آج وہی رنجِ بے سبب کیا ہے
تم اُس کا وَار بچانے کی فکر میں کیوں ہو
وہ جانتا ہے مسیحائیوں کا ڈھب کیا ہے
دبیز کہر ہے یا نرم دُھوپ کی چادر
خبر نہیں ترے بعد اَے غبارِ شب کیا ہے
دِکھا رہا ہے کسے وقت اَن گنت منظر
اگر میں کچھ بھی نہیں ہوں تو پھر یہ سب کیا ہے
اَب اِس قدر بھی سکوں مت دِکھا بچھڑتے ہوئے
وہ پھر تجھے نہ کبھی مل سکے عجب کیا ہے
میں اَپنے چہرے سے کسی طرح یہ نقاب اُٹھاؤں
سمجھ بھی جا کہ پسِ پردۂ طرب کیا ہے
یہاں نہیں ہے یہ دَستورِ گفتگو، عرفانؔ
فغاں سنے نہ کوئی، حرفِ زیرِ لب کیا ہے
عرفان صدیقی

اپنے ہونے کا سبب معلوم کر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 173
آدمی کے جدو اب معلوم کر
اپنے ہونے کا سبب معلوم کر
پوچھ شجرہ زندگی سے جا کہیں
جاکے مٹی کا نسب معلوم کر
فیصلے یک طرفہ کرنے چھوڑ دے
مجھ سے بھی میری طلب معلوم کر
اپنی پہچانیں کہاں کھوئی گئیں
گم ہوئے کیوں چشم و لب معلوم کر
اور کتنے قوس جلنا ہے ہمیں
اے چراغ دشتِ شب معلوم کر
موت کے منصور شہرِ خوف میں
زندگی کا کوئی ڈھب معلوم کر
منصور آفاق

آپ گئے ہیں جب سے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 206
روٹھ گیا دل سب سے
آپ گئے ہیں جب سے
پہروں سونے والے
جاگ رہے ہیں کب سے
تاریکی، سناٹا
توبہ ایسی شب سے
کون وفا کا پیکر!
ہم واقف ہیں سب سے
غم ہی غم دیکھا ہے
آنکھ کھلی ہے جب سے
ہم مجرم ہیں لیکن
بات تو کیجے ڈھب سے
کیا لینا، کیا دینا
ہنس کر ملئے سب سے
بات کرو کچھ باقیؔ
چپ بیٹھے ہو کب سے
باقی صدیقی