ٹیگ کے محفوظات: ڈھا

ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں

وہ آئیں تَو سوچا ہے اُن کو سَزا دُوں
ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں
پَسِ پَردہِ صَبر طُوفاں بَپا ہے
میں خُود ڈَر رَہا ہُوں قَیامَت نہ ڈھا دُوں
یہ دِل احتیاطوں کا مارا ہُوا ہے
کئی بار سوچا کہ سَب کچھ بتا دُوں
یہ ہوش و حَواس و یہ چیَن و سُکوں سَب
لُٹا دُوں لُٹا دُوں لُٹا دُوں لُٹا دُوں
یہ پہلے بھی گلشَن جَلا تَو چُکے ہیں
میں شُعلوں کو کیوں اَز سَرِ نَو ہَوا دُوں
مُکَمَّل سے شاید کہ شَرمندگی ہو
تُمہیں آؤ آدھی کہانی سُنا دُوں
اِشارے کِنائے سِکھائے ہیں کِس نے
کہو تَو میں سَب اَپنے احساں گِنا دُوں
وہ خاموش بیٹھے ہیں میں کہہ رَہا ہُوں
یہ تصویر دے دو میں دِل میں لگا دُوں
مِرے عشق سے ہے یہ سَب فتح مَندی
تِرے حُسن کو جَب میں چاہُوں ہَرا دُوں
فَقیروں کی بَستی سے آیا ہُوں ضامنؔ
اُنہیں کیا میں جس دَر پہ چاہُوں صَدا دُوں
ضامن جعفری

میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں

جنونِ خفتہ جگا رہے ہیں وہ سامنے کھل کے آ رہے ہیں
میانِ ہجر و وصال رکھ کر عجب قیامت سی ڈھا رہے ہیں
مرے بھی ہمدرد، مُنہ پہ ہیں ، اُن کی ہاں میں ہاں بھی ملا رہے ہیں
خدا ہی جانے جنابِ ناصح یہ اونٹ کس کل بٹھا رہے ہیں
علامتِ عشق ہے یہ دن میں نظر جو تارے سے آ رہے ہیں
جھکے ہیں سر عاشقوں کے اُور وہ جو مُنہ میں آئے سنا رہے ہیں
حیاتِ دو روزہ تم سے مل کر ذرا سی رنگین ہو گئی تھی
گرانیِ طبع دُور کر لو، ہم اپنی دنیا میں جا رہے ہیں
سُنانا چاہی جو ایک تازہ غزل اُنہیں تَو وہ بولے ضامنؔ
ہمیں پتہ ہے جو اس میں ہو گا، یہ آپ پھر دل جَلا رہے ہیں
ضامن جعفری

دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 110
تم سے بھی اب تو جا چُکا ہوں میں
دُور ہا دُور آ چُکا ہوں میں
یہ بہت غم کی بات ہو شاید
اب تو غم بھی گنوا چُکا ہوں میں
اس گمانِ گماں کے عالم میں
آخرش کیا بُھلا چُکا ہوں میں
اب ببر شیر اشتہا ہے میری
شاعروں کو تو کھا چُکا ہوں میں
میں ہوں معمار پر یہ بتلا دوں
شہر کے شہر ڈھا چُکا ہوں میں
حال ہے اک عجب فراغت کا
اپنا ہر غم منا چُکا ہوں میں
لوگ کہتے ہیں میں نے جوگ لیا
اور دھونی رَما چُکا ہوں میں
نہیں اِملا دُرست غالب کا
شیفتہ کو بتا چُکا ہوں میں
جون ایلیا

اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 70
دل جو ہے آگ لگا دوں اس کو
اور پھر خود ہی ہوا دوں اس کو
جو بھی ہے اس کو گنوا بیٹھا ہے
میں بھلا کیسے گنوا دوں اس کو
تجھ گماں پر جو عمارت کی تھی
سوچتا ہوں کہ میں ڈھا دوں اس کو
جسم میں آگ لگا دوں اس کے
اور پھر خود ہی بجھا دوں اس کو
ہجر کی نظر تو دینی ہے اسے
سوچتا ہوں کہ بُھلا دوں اس کو
جو نہیں ہے مرے دل کی دنیا
کیوں نہ میں جون مِٹا دوں اس کو
جون ایلیا

سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا

دیوان چہارم غزل 1312
کرتا ہوں اللہ اللہ درویش ہوں سدا کا
سرمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
میں نے نکل جنوں سے مشق قلندری کی
زنجیرسر ہوا ہے تھا سلسلہ جو پا کا
یارب ہماری جانب یہ سنگ کیوں ہے عائد
جی ہی سے مارتے ہیں جو نام لے وفا کا
کیا فقر میں گذر ہو چشم طمع سیے بن
ہے راہ تنگ ایسی جیسے سوئی کا ناکا
ابر اور جوش گل ہے چل خانقہ سے صوفی
ہے لطف میکدے میں دہ چند اس ہوا کا
ہم وحشیوں سے مدت مانوس جو رہے ہیں
مجنوں کو شوخ لڑکے کہنے لگے ہیں کاکا
آلودہ خوں سے ناخن ہیں شیر کے سے ہر سو
جنگل میں چل بنے تو پھولا ہے زور ڈھاکا
یہ دو ہی صورتیں ہیں یا منعکس ہے عالم
یا عالم آئینہ ہے اس یار خودنما کا
کیا میں ہی جاں بہ لب ہوں بیماری دلی سے
مارا ہوا ہے عالم اس درد بے دوا کا
زلف سیاہ اس کی رہتی ہے چت چڑھی ہی
میں مبتلا ہوا ہوں اے وائے کس بلا کا
غیرت سے تنگ آئے غیروں سے لڑ مریں گے
آگے بھی میر سید کرتے گئے ہیں ساکا
میر تقی میر

چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 10
سادہ سی حقیقت کو افسانہ بنا لینا
چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
ہو اوجِ مکاں جس جا معیار بلندی کا
ہم خاک نشینوں کو اُس شہر سے کیا لینا
کیوں تاکتے رہتے ہو رستے میں حسینوں کو
اس شغل میں تم اپنی آنکھیں نہ گنوا لینا
کچھ سہل نہیں ایسا، اِس دار کے موسم میں
سر تان کے چلنے کا اقرار نبھا لینا
یہ یاریاں ، یہ رشتے مضبوط بس اتنے ہیں
پرسوں کی عمارت کو اک آن میں ڈھا لینا
موجود ہیں کھونے میں گنجائشیں پانے کی
یعنی ہو زیاں جتنا اُتنا ہی مزا لینا
آفتاب اقبال شمیم