ٹیگ کے محفوظات: ڈھان

ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں

دیوان سوم غزل 1185
رفتگاں میں جہاں کے ہم بھی ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
شمع ہی سر نہ دے گئی برباد
کشتہ اپنی زباں کے ہم بھی ہیں
ہم کو مجنوں کو عشق میں مت بوجھ
ننگ اس خانداں کے ہم بھی ہیں
جس چمن زار کا ہے تو گل تر
بلبل اس گلستاں کے ہم بھی ہیں
نہیں مجنوں سے دل قوی لیکن
یار اس ناتواں کے ہم بھی ہیں
بوسہ مت دے کسو کے در پہ نسیم
خاک اس آستاں کے ہم بھی ہیں
گو شب اس در سے دور پہروں پھریں
پاس تو پاسباں کے ہم بھی ہیں
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
مر گئے مر گئے نہیں تو نہیں
خاک سے منھ کو ڈھانکے ہم بھی ہیں
اپنا شیوہ نہیں کجی یوں تو
یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں
اس سرے کی ہے پارسائی میر
معتقد اس جواں کے ہم بھی ہیں
میر تقی میر

مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا

دیوان سوم غزل 1068
ہوں نشاں کیوں نہ تیر خوباں کا
مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا
ہاتھ زنجیر ہو جنوں میں رہا
اپنے زنجیرئہ گریباں کا
چپکے دیکھو جھمکتے وے لب سرخ
ذکر یاں کیا ہے لعل و مرجاں کا
ایک رہزن ہے اس کی کافر زلف
غم ہی رہتا ہے دین و ایماں کا
عمر آوارگی میں سب گذری
کچھ ٹھکانا نہیں دل و جاں کا
کافرستاں ہے خال و خط و زلف
وقر کیا ہے دل مسلماں کا
مر گیا میر نالہ کش بیکس
نَے نے ماتم میں اس کے منھ ڈھانکا
میر تقی میر

ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا

دیوان اول غزل 86
کیا عجب پل میں اگر ترک ہو اس سے جاں کا
ہو جو زخمی کبھو برہم زدن مژگاں کا
اٹھتے پلکوں کے گرے پڑتے ہیں لاکھوں آنسو
ڈول ڈالا ہے مری آنکھوں نے اب طوفاں کا
جلوئہ ماہ تہ ابر تنک بھول گیا
ان نے سوتے میں دوپٹے سے جو منھ کو ڈھانکا
لہو لگتا ہے ٹپکنے جو پلک ماروں ہوں
اب تو یہ رنگ ہے اس دیدئہ اشک افشاں کا
ساکن کو کو ترے کب ہے تماشے کا دماغ
آئی فردوس بھی چل کر نہ ادھر کو جھانکا
اٹھ گیا ایک تو اک مرنے کو آبیٹھے ہے
قاعدہ ہے یہی مدت سے ہمارے ہاں کا
کار اسلام ہے مشکل ترے خال و خط سے
رہزن دیں ہے کوئی دزد کوئی ایماں کا
چارئہ عشق بجز مرگ نہیں کچھ اے میر
اس مرض میں ہے عبث فکر تمھیں درماں کا
میر تقی میر