ٹیگ کے محفوظات: چیتر

گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 111
ہاتھ سے ہنگامِ محشر رکھ دیا
گردشِ دوراں پہ ساغر رکھ دیا
اک نظر دیکھا کسی نے کیا مجھے
بوجھ کہساروں کا دل پر رکھ دیا
پانیوں میں ڈوبتا جاتا ہوں میں
آنکھ میں کس نے سمندر رکھ دیا
اور پھر تازہ ہوا کے واسطے
ذہن کی دیوار میں در رکھ دیا
ٹھوکروں کی دلربائی دیکھ کر
پاؤں میں اس کے مقدر رکھ دیا
دیکھ کر افسوس تارے کی چمک
اس نے گوہر کو اٹھا کر رکھ دیا
ایک ہی آواز پہنی کان میں
ایک ہی مژگاں میں منظر رکھ دیا
نیند آور گولیاں کچھ پھانک کر
خواب کو بستر سے باہر رکھ دیا
دیدئہ تر میں سمندر دیکھ کر
اس نے صحرا میرے اندر رکھ دیا
اور پھر جاہ و حشم رکھتے ہوئے
میں نے گروی ایک دن گھر رکھ دیا
میری مٹی کا دیا تھا سو اسے
میں نے سورج کے برابر رکھ دیا
خانہء دل کو اٹھا کر وقت نے
بے سرو ساماں ، سڑک پر رکھ دیا
جو پہن کرآتی ہے زخموں کے پھول
نام اس رُت کا بھی چیتر رکھ دیا
کچھ کہا منصور اس نے اور پھر
میز پر لا کر دسمبر رکھ دیا
منصور آفاق

جیسے دوزخ میں میرا بستر تھا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 80
خواب اتنا زیادہ ابتر تھا
جیسے دوزخ میں میرا بستر تھا
میرے آنے پہ کیوں دھڑک اٹھا
تیرا دل تو ازل سے پتھر تھا
جس کو چاہا اسی کو جیت لیا
جانے کیا اس کے پاس منتر تھا
کوئی باہوں کی دائرے میں تھی
اور تعلق کا پہلا چیتر تھا
بند درزیں تھیں رابطوں والی
اس کی دیوار پر پلستر تھا
راستے کے بڑے مسائل ہیں
مجھ سے کچھ پوچھتے تو بہتر تھا
وردِ الحمد کی صدا منصور
صبح ابھری کہیں تو تیتر تھا
منصور آفاق

وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 65
سید نصیر شاہ کا جو گھر تھا کیا ہوا
وہ علم و آگہی کا جو منظر تھا کیا ہوا
کہتا تھا جو خدا سے کہ اک جیساکر ہمیں
مشہور شہر میں وہ جو کافر تھا کیا ہوا
وہ جس بلند طرے سے ڈرتے تھے کجکلاہ
وہ جو غریب چلتا اکٹر کر تھا کیا ہوا
ہوتے مشاعرے تھے جو اکثر وہ کیا ہوئے
وہ شاعروں کا ایک جو لشکر تھا کیا ہوا
وہ شام کیا ہوئی جو سٹیشن کے پاس تھی
وہ شخص جو مجھے کبھی ازبر تھا کیا ہوا
وہ ہار مونیم جو بجاتا تھا ساری رات
وہ ایک گانے والا یہاں پر تھا کیا ہوا
برگد ہزاروں سال سے سایہ فگن جہاں
وہ چشمہ جو پہاڑ کے اوپر تھا کیا ہوا
جلتے جہاں تھے دیپ وہ میلے کہاں گئے
آتا یہاں جو پھولوں کا چیتر تھا کیا ہوا
مکھن جو کھایا کرتے تھے وہ مرغ کیا ہوئے
ہر صبح وہ جو بولتا تیتر تھا کیا ہوا
عاجز کے وہ لہکتے ہوئے گیت کیا ہوئے
تنویر کچھ بتا وہ جو مظہر تھا کیا ہوا
چشمہ بیراج کیا ہوا منصور کچھ کہو
جو دیکھنے میں ایک سمندر تھا کیا ہوا
منصور آفاق