ٹیگ کے محفوظات: چھیڑا

مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 34
یار کو محرومِ تماشا کیا
مرگِ مفاجات نے یہ کیا کیا
آپ جو ہنستے رہے شب بزم میں
جان کو دشمن کی میں رویا کیا
عرضِ تمنا سے رہا بے قرار
شب وہ مجھے، میں اسے چھیڑا کیا
سرد ہوا دل، وہ ہے غیروں سے گرم
شعلے نے الٹا مجھے ٹھنڈا کیا
مہرِ قمر کا ہے اب ان کو گمان
آہِ فلک سیر نے یہ کیا کیا
ان کو محبت ہی میں شک پڑ گیا
ڈر سے جو شکوہ نہ عدو کا کیا
دیکھئے اب کون ملے خاک میں
یار نے گردوں سے کچھ ایما کیا
حسرتِ آغوش ہے کیوں ہم کنار
غیر سے کب اس نے کنارا کیا
چشمِ عنایت سے بچی جاں مجھے
نرگسِ بیمار نے اچھا کیا
غیر ہی کو چاہیں گے اب شیفتہ
کچھ تو ہے جو یار نے ایسا کیا
مصطفٰی خان شیفتہ

اس کو اپنے ساتھ لیں آرائش دنیا کریں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 97
ہے تمنا ہم نئے شام و سحر پیدا کریں
اس کو اپنے ساتھ لیں آرائش دنیا کریں
ہم کریں قائم خود اپنا اک دبستان نظر
اور اسرار رموز زندگی افشا کریں
دفتر حکمت کے شک پرور مباحث چھیڑ کر
شہر دانش کے نئے ذہنوں کو بہکایا کریں
اپنے فکر تازہ پرور سے بہ انداز نویں
حکمت یونان و مصر و روم کا احیا کریں
ہو خلل انداز کوئی بھی نہ استغراق میں
ہم یونہی تا دیر آں سوئے افق دیکھا کریں
رات دن ہوں کائناتی مسٗلے پیشِ نظر
اور جب تھک جائیں تو اس شوخ کو چھیڑا کریں
جون ایلیا