دیوان دوم غزل 1050
کیا پوچھتے ہو عاشق راتوں کو کیا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
دانستہ اپنے جی پر کیوں تو جفا کرے ہے
اتنا بھی میرے پیارے کوئی کڑھا کرے ہے
فتنہ سپہر کیا کیا برپا کیا کرے ہے
سو خواب میں کبھو تو مجھ سے ملا کرے ہے
کس ایسے سادہ رو کا حیران حسن ہے یہ
مرآت گاہ بیگہ بھیچک رہا کرے ہے
ہم طور عشق سے تو واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
کیا کہیے داغ دل ہے ٹکڑے جگر ہے سارا
جانے وہی جو کوئی ظالم وفا کرے ہے
اس بت کی کیا شکایت راہ و روش کی کریے
پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے
گرم آکر ایک دن وہ سینے سے لگ گیا تھا
تب سے ہماری چھاتی ہر شب جلا کرے ہے
کیا چال یہ نکالی ہوکر جوان تم نے
اب جب چلو ہو دل کو ٹھوکر لگا کرے ہے
دشمن ہو یار جیسا درپے ہے خوں کے میرے
ہے دوستی جہاں واں یوں ہی ہوا کرے ہے
سمجھا ہے یہ کہ مجھ کو خواہش ہے زندگی کی
کس ناز سے معالج میری دوا کرے ہے
حالت میں غش کی کس کو خط لکھنے کی ہے فرصت
اب جب نہ تب ادھر کو جی ہی چلا کرے ہے
سرکا ہے جب وہ برقع تب آپ سے گئے ہیں
منھ کھولنے سے اس کے اب جی چھپا کرے ہے
بیٹھے ہے یار آکر جس جا پہ ایک ساعت
ہنگامۂ قیامت واں سے اٹھا کرے ہے
سوراخ سینہ میرے رکھ ہاتھ بند مت کر
ان روزنوں سے دل ٹک کسب ہوا کرے ہے
کیا جانے کیا تمنا رکھتے ہیں یار سے ہم
اندوہ ایک جی کو اکثر رہا کرے ہے
گل ہی کی اور ہم بھی آنکھیں لگا رکھیں گے
ایک آدھ دن جو موسم اب کے وفا کرے ہے
گہ سرگذشت ان نے فرہاد کی نکالی
مجنوں کا گاہے قصہ بیٹھا کہا کرے ہے
ایک آفت زماں ہے یہ میر عشق پیشہ
پردے میں سارے مطلب اپنے ادا کرے ہے
میر تقی میر
اسے پسند کریں:
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔