ٹیگ کے محفوظات: چھوڑا

اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے

کس نے کہا تھا حسن کا دیوانہ کیجئے
اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے
یا غیر سے بھی کیجئے محفل میں احتیاط
یا مجھ کو انجمن میں بلایا نہ کیجئے
ناکام ہو چکی رَوِشِ عجز و انکسار
اب اُن سے عرضِ حال دلیرانہ کیجئے
سرکار مانئے تو کٹھن ہے رہِ حیات
کافی سفر طویل ہے تنہا نہ کیجئے
اے دل نگاہِ ناز بڑی مہرباں ہے آج
کیوں انتظارِ ساقی و پیمانہ کیجئے
پوچھا تھا اُن سے ہجر میں کیونکر ہوئی بسر
مُنہ پھیر کر کہا کہ ستایا نہ کیجئے
چھُٹ جائے پھر نہ دامنِ صبر و رضا کہیں
گر ہو سکے تو خواب میں آیا نہ کیجئے
کمسن ہیں سنگ دل نہیں سمجھے نہ ہوں گے بات
دامانِ صبر ہاتھ سے چھوڑا نہ کیجئے
ضامنؔ وہ لے کے بھول گئے دل تو کیا ہُوا
ہے مقتضائے ظرف تقاضا نہ کیجئے
ضامن جعفری

یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 290
چاہیے اچھّوں کو ، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے
صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے ، اپنے کو کھینچا چاہیے
چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل ؟
بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے !
چاک مت کر جیب ، بے ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چُھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
دُشمنی نے میری ، کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے ، دیکھا چاہیے
اپنی، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نااُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے
غافل ، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے
چاہتے ہیں خُوبروؤں کو اسدؔ
آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے
مرزا اسد اللہ خان غالب

بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا

دیوان سوم غزل 1091
بوسہ اس بت کا لے کے منھ موڑا
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا
ہوکے دیوانے ہم ہوئے زنجیر
دیکھ کر اس کے پائوں کا توڑا
دل نے کیا کیا نہ درد رات دیے
جیسے پکتا رہے کوئی پھوڑا
گرم رفتن ہے کیا سمند عمر
نہ لگے جس کو بائو کا گھوڑا
کیا کرے بخت مدعی تھے بلند
کوہکن نے تو سر بہت پھوڑا
دل ہی مرغ چمن کا ٹوٹ گیا
پھول گل چیں نے ہائے کیوں توڑا
ہے لب بام آفتاب عمر
کریے سو کیا ہے میر دن تھوڑا
میر تقی میر

ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 92
غم بنا دے نہ تماشا ہم کو
ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو
ہم ابھی تک ہیں وہیں راہ نشیں
جس جگہ آپ نے چھوڑا ہم کو
اک صدا تک تھی عنایت ساری
پھر کسی نے بھی نہ پوچھا ہم کو
آج دیکھا ہے نیا رنگ ان کا
دو گھڑی چھوڑ دو تنہا ہم کو
زندگی لے گئی طوفانوں میں
دے کے تنکے کا سہارا ہم کو
تیری محفل کے چراغوں کے تلے
کچھ نشاں ملتا ہے اپنا ہم کو
ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر
جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو
بات ہو، شعر ہو، افسانہ ہو
ہے بہت کچھ ابھی کہنا ہم کو
کوئی روزن ہو کہ دروازہ ہو
چاہئے ایک شرارا ہم کو
فصل گل آئی مگر کیا آئی
رنگ بھولا نہ خزاں کا ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو
باقی صدیقی