زنجیر کی جھنکار کو سنگیت میں ڈھالا
زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا
وہ خاک نکھاریں گے خدوخال سَحر کے
جو چہرہِ مہتاب پہ بُنتے رہے جالا
تپتے ہوئے صحرا کے کسی کام نہ آیا
گلگشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اُجالا
انسان کی عظمت کی گواہی کے لیے ہو
کعبہ ہو کہ بُت خانہ ، کلیسا کہ شوالا
شکیب جلالی