ٹیگ کے محفوظات: چھالا

زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا

زنجیر کی جھنکار کو سنگیت میں ڈھالا
زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا
وہ خاک نکھاریں گے خدوخال سَحر کے
جو چہرہِ مہتاب پہ بُنتے رہے جالا
تپتے ہوئے صحرا کے کسی کام نہ آیا
گلگشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اُجالا
انسان کی عظمت کی گواہی کے لیے ہو
کعبہ ہو کہ بُت خانہ ، کلیسا کہ شوالا
شکیب جلالی

وقت، لگتا ہے کہ ’میرا، نہیں رہنے والا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
کھو ہی جاؤں نہ کہیں میں، کہ ہوں مہ کا ہالا
وقت، لگتا ہے کہ ’میرا، نہیں رہنے والا
جس سے زیبا ہوں، وہ زیبائی ہے اب جانے کو
ہے گلُو میں سے اُترنے کو، یہ جاں کی مالا
تن بدن میں ہے مرے، کیسی یہ کھیتی باڑی
میری رگ رگ میں اُتر آیا، یہ کیسا بھالا
میں کہ خوشہ ہوں ، دعا کیسے یہ مانگوں اُلٹی
میں نہ ،چکّی کا بنوں خاک و فلک کی ،گالا
ڈھیل شاید نہ دے اب اور مجھے، چیخنے کی
جسم میں ہے جو، پُراسرار اَلَم کا چھالا
بام پر بُوم سیہ بختی کا، اُترا جیسے
مجھ کو کرتا ہے طلب، دُور کا پانی، کالا
کیا پتہ سانس کی آری ابھی ماجد نہ رُکے
فیصلہ یہ بھی مرا، مجھ سے ہو بالا بالا
ماجد صدیقی

لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ

دیوان اول غزل 99
دل پہنچا ہلاکی کو نپٹ کھینچ کسالا
لے یار مرے سلمہ اللہ تعالیٰ
کچھ میں نہیں اس دل کی پریشانی کا باعث
برہم ہی مرے ہاتھ لگا تھا یہ رسالا
معمور شرابوں سے کبابوں سے ہے سب دیر
مسجد میں ہے کیا شیخ پیالہ نہ نوالا
گذرے ہے لہو واں سر ہر خار سے اب تک
جس دشت میں پھوٹا ہے مرے پائوں کا چھالا
گر قصد ادھر کا ہے تو ٹک دیکھ کے آنا
یہ دیر ہے زہاد نہ ہو خانۂ خالا
جس گھر میں ترے جلوے سے ہو چاندنی کا فرش
واں چادر مہتاب ہے مکڑی کا سا جالا
دشمن نہ کدورت سے مرے سامنے ہو جو
تلوار کے لڑنے کو مرے کیجو حوالا
ناموس مجھے صافی طینت کی ہے ورنہ
رستم نے مری تیغ کا حملہ نہ سنبھالا
دیکھے ہے مجھے دیدۂ پرخشم سے وہ میر
میرے ہی نصیبوں میں تھا یہ زہر کا پیالا
میر تقی میر