تم نے گو ہمت دلائی ہے بہت
دوستو آگے چڑھائی ہے بہت
کہہ رہی ہے آج بھی نہرِ فرات
ساتھ ہو تو ایک بھائی ہے بہت
روز اک تازہ امید اک تازہ رنج
ہم کو غربت راس آئی ہے بہت
اے خرد اب کچھ مرے دل کی بھی سوچ
اِس نے بھی آفت مچائی ہے بہت
بیٹھتا ہے شیخ کب رندوں کے پاس
اُس کو زعمِ پارسائی ہے بہت
دیس کی کایا پلٹنے کے لیے
ذوق ہو تو اک دہائی ہے بہت
باصر کاظمی