اتار پھینکا جو میَں نے انا کا، آن کا وزن
اُتر گیا مرے کندھوں سے دو جہان کا وزن
بہت ہے ثقلِ زمیں اور میرے پر نازک
سنبھال پائیں گے کیسے مری اُڑان کا وزن
گزاری عمر ہے خدشوں کی دُھول میں دب کر
پنپ نہ پایا یقیں اِتنا تھا گُمان کا وزن
گھٹن سے کیسے نہ برسیں، زمین پر بادل
اُٹھائے بیٹھے ہیں اِتنا جو آسمان کا وزن
یہ دیکھو کونوں سے کچھ گھاس آ گئی باہر
نمودِ زندگی روکے گا کیا چٹان کا وزن
شکار شعر کے پنچھی کا کیا کروں یاؔور
کہ میرے تیر سے کم ہے مری کمان کا وزن
یاور ماجد