ٹیگ کے محفوظات: چلنے

دشتِ حسرت مجھے نکلنے دے

خواہشوں کی ہوا سنبھلنے دے
دشتِ حسرت مجھے نکلنے دے
یہ لکیریں ہی میری مجرم ہیں
اے گئے وقت ہاتھ ملنے دے
میری صحرا نوردیوں کا جنوں
میرے ہمراہ لُو میں جلنے دے
یوں نہ غنچوں کو توڑ شاخوں سے
خواہشوں کو دلوں میں پلنے دے
چند لمحوں کا ہے سفر یاؔور
دو قدم مجھ کو ساتھ چلنے دے
یاور ماجد

یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی

شفق جو رُوے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی
اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھِل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی
اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہُوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی
کسی کا جسم اگر چھُو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری‘ مثلِ شمع جلنے لگی
میں ناپتا چلا قدموں سے اپنے سائے کو
کبھی جو دشتِ مسافت میں دھوپ ڈھلنے لگی
مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی
ہَوا چلی سرِ صحرا‘ تو یوں لگا‘ جیسے
ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی
کہیں پڑا نہ ہو پَرتَو بہارِ رفتہ کا
یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی
نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی
جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
پھر اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی
جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم‘ شکیبؔ
وہیں پہ دیکھ لے‘ کونپل نئی نکلنے لگی
شکیب جلالی

سماں یہی ہے رگوں میں لہو مچلنے کا

تمہاری دِید کے طرفہ الاؤ جلنے کا
سماں یہی ہے رگوں میں لہو مچلنے کا
گرا نگاہ سے مانندِ خس وہی جس کا
اُفق سے مہر سا انداز تھا نکلنے کا
خیال میں وہی ہجر و وصال اُس بُت کا
نگاہ میں وہی منظر رُتیں بدلنے کا
نجانے خوف وہ کیا ہے کہ جس سے لاحق ہے
رُتوں کو خبط نئی کونپلیں مسلنے کا
کٹی جو ڈور تو پھر حرصِ اَوج کیا معنی
کہاں سے ڈھونڈتے پہلو کوئی سنبھلنے کا
نفس نفس ہے الاؤ جبھی تو ہے ماجدؔ
ہمیں یہ حوصلہ چنگاریوں پہ چلنے کا
ماجد صدیقی

عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 5
وقت کے موجود سے باہر نکلنے کی سزا
عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا
جزیۂ انکار دینا تو پڑے گا دہر کو
رات دن اب کاٹیے کمرے میں چلنے کی سزا
تم اسے چاہو نہ چاہو، واقعہ ایسا ہی ہے
جو ابھرتا ہے اُسے ملتی ہے ڈھلنے کی سزا
غم زیادہ پی لیا، اب مستقل پیتے رہو
سخت تر ہے اس کے نشے میں سنبھلنے کی سزا
میں نے بھی پائی ہے اپنی ضد میں سورج کی طرح
ایک عالم گیر تنہائی میں جلنے کی سزا
تم زیاں اندیش تو ہو لو، ملے گی پھر تمہیں
شہرِ اشیا کے کھلونوں سے بہلنے کی سزا
آفتاب اقبال شمیم