ٹیگ کے محفوظات: چلتا

دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا

دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا
سرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
تیری ہلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا
آنکھوں میں تری شکل چھپائے
میں سب سے چھپتا پھرتا تھا
بھولی نہیں اُس رات کی دہشت
چرخ پہ جب تارا ٹوٹا تھا
رات گئے سونے سے پہلے
تو نے مجھ سے کچھ پوچھا تھا
یوں گزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
ناصر کاظمی

تو کہیں باہر گیا ہوا تھا

میں جب تیرے گھر پہنچا تھا
تو کہیں باہر گیا ہوا تھا
تیرے گھر کے دروازے پر
سورج ننگے پاؤں کھڑا تھا
دیواروں سے آنچ آتی تھی
مٹکوں میں پانی جلتا تھا
تیرے آنگن کے پچھواڑے
سبز درختوں کا رمنا تھا
ایک طرف کچھ کچے گھر تھے
ایک طرف نالہ چلتا تھا
اک بھولے ہوئے دیس کا سپنا
آنکھوں میں گھلتا جاتا تھا
آنگن کی دیوار کا سایہ
چادر بن کر پھیل گیا تھا
تیری آہٹ سنتے ہی میں
کچی نیند سے چونک اُٹھا تھا
کتنی پیار بھری نرمی سے
تو نے دروازہ کھولا تھا
میں اور تو جب گھر سے چلے تھے
موسم کتنا بدل گیا تھا
لال کھجوروں کی چھتری پر
سبز کبوتر بول رہا تھا
دُور کے پیڑ کا جلتا سایہ
ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا
ناصر کاظمی

مجھے بھی عشق کا سودا نہیں ہے

خیال اُس کو اگر میرا نہیں ہے
مجھے بھی عشق کا سودا نہیں ہے
بُرا ہرگز نہیں اُس کا رویہ
مگر کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے
تمہاری مہربانی تم نے پوچھا
ہمارا حال کچھ اچھا نہیں ہے
جو اُن کے جی میں آئے گی کریں گے
کسی کا زور تو چلتا نہیں ہے
پرانی بات اُن سے کیا کریں اب
انہیں کچھ یاد تو رہتا نہیں ہے
بُرا کہتا تو ہوں میں اُن کو باصرؔ
کبھی اُن کا بُرا چاہا نہیں ہے
باصر کاظمی

اور بھلا کیا چاہوں میں

تجھ کو دیکھ رہا ہوں میں
اور بھلا کیا چا ہوں میں
دنیا کی منزل ہے وہ
جس کو چھوڑ چکا ہوں میں
تُو جب سامنے ہوتا ہے
اور کہیں ہوتا ہوں میں
اور کسی کو کیا پاؤں
خود کھویا رہتا ہوں میں
ختم ہوئیں ساری باتیں
اچھا اب چلتا ہوں میں
باصر کاظمی

نیند میں ساری رات چلتا رہا

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 27
چاند میری طرح پگھلتا رہا
نیند میں ساری رات چلتا رہا
جانے کس دُکھ سے دل گرفتہ تھا
مُنہ پہ بادل کی راکھ ملتا رہا
میں تو پاؤں کے کانٹے چُنتی رہی
اور وہ راستہ بدلتا رہا
رات گلیوں میں جب بھٹکتی تھی
کوئی تو تھا جو ساتھ چلتا رہا
موسمی بیل تھی مَیں ، سُوکھ گئی
وہ تناور درخت، پَھلتا رہا
سَرد رُت میں ، مُسافروں کے لیے
پیڑ ، بن کر الاؤ ، جلتا رہا
دل ، مرے تن کا پُھول سا بچّہ
پتّھروں کے نگر میں پلتا رہا
نیند ہی نیند میں کھلونے لیے
خواب ہی خواب میں بہلتا رہا
پروین شاکر

اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے

دیوان چہارم غزل 1519
عشق کیا ہے جب سے ہم نے دل کو کوئی ملتا ہے
اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے
روز وداع لگا چھاتی سے وہ جو خوش پرکار گیا
دل تڑپے ہے جان کھپے ہے سینہ سارا جلتا ہے
گور بغیر آرام گہ اس کو دنیا میں پھر کوئی نہیں
عشق کا مارا آوارہ جو گھر سے اپنے نکلتا ہے
ضعف دماغی جس کو ہووے عشق کے رنج و محنت سے
جی بھی سنبھلتا ہے اس کا پر بعد از دیر سنبھلتا ہے
شورجرس شب گیر کا غافل تیاری کا تنبہ ہے
یعنی آنکھ نہ لگنے پاوے قافلہ صبح کو چلتا ہے
بال نہیں عاشق کے بدن پر ہربن مو سے نکلا دود
بل کر اس کو جلاتے کیا ہو آپھی جلتا بلتا ہے
میرستم کشتہ کی سماجت ہے مشہور زمانے کی
جان دیے بن آگے سے اس کے کب وہ ظالم ٹلتا ہے
میر تقی میر

ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا

دیوان سوم غزل 1090
دل رات دن رہے ہے سینے میں عشق ملتا
ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا
اب تو بدن میں سارے اک پھنک رہی ہے آتش
وہ مہ گلے سے لگتا تو یوں جگر نہ جلتا
شب ماہ چاردہ تھا کس حسن سے نمایاں
ہوتا بڑا تماشا جو یار بھی نکلتا
اے رشک شمع گویا تو موم کا بنا ہے
مہتاب میں تجھی کو دیکھا ہے یوں پگھلتا
تکلیف باغ ہم کو یاروں نے کی وگرنہ
گل پھول سے کوئی دم اپنا بھی دل بہلتا
رونے کا جوش ویسا آنکھوں کو ہے بعینہ
جیسے ہو رود کوئی برسات میں ابلتا
کرتا ہے وے سلوک اب جس سے کہ جان جاوے
ہم میر یوں نہ مرتے اس پر جو دل نہ چلتا
میر تقی میر

واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 108
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے، بدلتا ہی نہیں
واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں
آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں
موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں
یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں
تنگ ہیں ، ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں
پیکرِ خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت
جسم کا وزنِ طلب ہم سے سنبھلتا ہی نہیں
غالباً وقت مجھے چھوڑ گیا ہے پیچھے
یہ جو سکہ ہے میری جیب میں چلتا ہی نہیں
ہم پہ غزلیں بھی نمازوں کی طرح فرض ہوئیں
قرضِ ناخواستہ ایسا ہے کہ ٹلتا ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم

نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 85
پاؤں پاؤں ڈولتا، اور سنبھلتا آدمی
نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی
آتی جاتی کثرتیں کارگہِ ایّام کی
قالب جیسی روح پہ، جسم بدلتا آدمی
جسم دہکتا کوئلہ پھونک بناتی سانس سے
عمر کے آتش دان کی آگ میں جلتا آدمی
مٹی کے باغات میں تیز ہوا کا شور ہے
گر ہی نہ جائے شاخ سے پھولتا پھلتا آدمی
آفتاب اقبال شمیم

تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 146
غم دل کیا، غم دنیا بھی نہیں
تم نہیں تو کوئی رونا بھی نہیں
زندگی حد نظر تک چپ ہے
نغمہ کیسا کوئی نالہ بھی نہیں
سرسری ربط کی امید ہی کیا
اس پہ یہ ظلم کہ ایسا بھی نہیں
بات لب پر بھی نہیں آ سکتی
اور تجھ سے کوئی پردا بھی نہیں
چپ رہیں ہم تو گلے ہوتے ہیں
کچھ کہیں تو کوئی سنتا بھی نہیں
ابھی کر دیں تجھے دنیا کے سپرد
ابھی جی بھر کے تو دیکھا بھی نہیں
کبھی ہر موج قدم لیتی ہے
کبھی تنکے کا سہارا بھی نہیں
انتہائے غم دنیا معلوم
اب نظر محو تماشا بھی نہیں
گرد راہوں پہ جمی ہے باقیؔ
کیسی منزل کوئی چلتا بھی نہیں
باقی صدیقی

ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 60
آستیں میں سانپ اک پلتا رہا
ہم یہ سمجھے حادثہ ٹلتا رہا
آپ تو اک بات کہہ کر چل دئیے
رات بھر بستر مرا جلتا رہا
ایک غم سے کتنے غم پیدا ہوئے
دل ہمارا پھولتا پھلتا رہا
زندگی کی آس بھی کیا آس ہے
موج دریا پر دیا جلتا رہا
اک نظر تنکا بنی کچھ اسی طرح
دیر تک آنکھیں کوئی ملتا رہا
یہ نشاں کیسے ہیں باقیؔ دیکھنا
کون دل کی راکھ پر چلتا رہا
باقی صدیقی

تو جہاں آخری پردا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ مقام دل و جاں کیا ہو گا
تُو جہاں آخری پردا ہو گا
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا
ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا
راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا
اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہو گا
بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا
سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہو گا
پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدہ بینا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا
باقی صدیقی