ٹیگ کے محفوظات: چرچا

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کس لئے غیروں کی کشتِ صید میں جھانکا کروں
فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں
ایک ننّھا ہے مرے جی میں بھی شوخ و شنگ سا
پا سکوں فرصت تو اُس کا حال بھی پوچھا کروں
محوِ خوابِ استراحت شہر کا والی رہے
رات بھر اندیشۂ دُزداں سے میں کھانسا کروں
ذوق پابند وسائل ہے جو اتنا ہی تو پھر
کیوں نہ چھلکے بھی پھلوں کے ساتھ اب کھایا کروں
حیف ہے اُس شوخ کی موجودگی میں بھی اگر
خشکئِ آب و ہوائے دہر کا شکوہ کروں
گُل کھلا دیکھوں کوئی ماجد تو جُوں بادِ سحر
کیوں نہ سارے گلستان میں اُس کا میں چرچا کروں
ماجد صدیقی

باقی کو کیا کرنا ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 209
مجھ کو تو گِر کے مرنا ہے
باقی کو کیا کرنا ہے
شہر ہے چہروں کی تمثیل
سب کا رنگ اترنا ہے
وقت ہے وہ ناٹک جس میں
سب کو ڈرا کر ڈرنا ہے
میرے نقشِ ثانی کو
مجھ میں ہی سے اُبھرنا ہے
کیسی تلافی کیا تدبیر
کرنا ہے اور بھرنا ہے
جو نہیں گزرا ہے اب تک
وہ لمحہ تو گزرنا ہے
اپنے گماں کا رنگ تھا میں
اب یہ رنگ بکھرنا ہے
ہم دو پائے ہیں سو ہمیں
میز پہ جا کر چرنا ہے
چاہے ہم کچھ بھی کر لیں
ہم ایسوں کو سُدھرنا ہے
ہم تم ہیں اک لمحہ کے
پھر بھی وعدہ کرنا ہے
جون ایلیا

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 76
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا@
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
@کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا ۔ نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 81
دار پر اس کی گواہی کا ہے حوالہ ہے بہت
عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت
ناتوانی کو توانائی کا یہ معجزہ ہے
ہر ہلاکو کے لئے ایک فلوجہ ہے بہت
اے انا الوقت! محبت کے کسی روپ میں آ
خود کو برباد نہ کر لوں، مجھے خطرہ ہے بہت
حسن دریا ہے میری آنکھ میں گرنے والا
پھر بھی پیاسا ہوں اگرچہ تجھے دیکھا ہے بہت
اتنا سادہ ہوں تو کچھ وجہ بھی ہو گی شاید
ضبط میں میری انا نے مجھے رکھا ہے بہت
اور اس وہم سے بھی جا کے نمٹ لے پیارے
شہرِ فردا میں سنا ہے ترا چرچا ہے بہت
زندگی جیسے سبھی موسموں کا میلہ ہو
سیر کے واسطے یہ گلشنِ دنیا ہے بہت
آفتاب اقبال شمیم

یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا

الطاف حسین حالی ۔ غزل نمبر 20
جہاں میں حالیؔ کسی پہ اپنے سوا بھروسہ نہ کیجئے گا
یہ بھید ہے اپنی زندگی کا بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا
جو لاکھ غیروں کا غیر کوئی، نہ جاننا اس کو غیر ہرگز
جو اپنا سایہ بھی ہو تو اس کو تصور اپنا نہ کیجئے گا
سنا ہے صوفی کا قول ہے یہ کہ ہے طریقت میں کفر دعویٰ
یہ کہدو دعویٰ بہت بڑا ہے پھر ایسا دعویٰ نہ کیجئے گا
کہے اگر کوئی تم کو واعظ کہ کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہو
زمانہ کی خو ہے نکتہ چینی، کچھ اس کی پروا نہ کیجئے گا
لگاؤ تم میں نہ لاگ زاہد، نہ درد الفت کی آگ زاہد
پھر اور کیا کیجئے آخر جو ترک دنیا نہ کیجئے گا
الطاف حسین حالی

تو جہاں آخری پردا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ مقام دل و جاں کیا ہو گا
تُو جہاں آخری پردا ہو گا
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا
ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا
راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا
اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہو گا
بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا
سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہو گا
پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدہ بینا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا
باقی صدیقی