ٹیگ کے محفوظات: چالاک

مَت بھول مِرا عشق بھی چالاک بہت ہے

گو حُسن تِرا صاحبِ اِدراک بہت ہے
مَت بھول مِرا عشق بھی چالاک بہت ہے
اِک حُسن کہ ہے سارے حجابوں میں بھی محتاط
اِک جوشِ تمنّا ہے کہ بیباک بہت ہے
اِک حُسن کہ چاہے ہے سَدا زندگیٔ خضر
اِک وقت کی رَو ہے کہ جو سفّاک بہت ہے
قرطاس و قَلَم، حلقۂ زنجیرِ رَہ و رَسم
اُور ذہنِ رَسا، مائلِ افلاک بہت ہے
آنکھوں میں نہاں یادِ نشیمَن کے ہیں سَیلاب
میرے لیے ذکرِ خَس و خاشاک بہت ہے
ضامنؔ بھی ہیں اِک اہلِ ضمیر، ان کے لیے بھی
کیا خلعتِ زَر! خون کی پوشاک بہت ہے
ضامن جعفری

لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں

طوفان سے لڑنے خَس و خاشاک چلے ہیں
لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں
اِک عمر بِتا دیتے ہیں منزل کے لئے لوگ
دو چار قدم آپ یہ کیا خاک چلے ہیں
بن جائیں نہ پہچان کہِیں داغ لہو کے
سو اب وہ پہن کے نئی پوشاک چلے ہیں
کردے گا یہ وقت اُن کی نمائش سرِ محفل
وہ لوگ بہت بن کے جو چالاک چلے ہیں
تعمیر محل عشق کا کرتی ہے فقط روح
ضامنؔ ہیں کہ مُٹّھی میں لئے خاک چلے ہیں
ضامن جعفری

یاد تا دیر کریں گے خس و خاشاک مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
اِن کی خاطر ہی ملا دیدۂ نمناک مجھے
یاد تا دیر کریں گے خس و خاشاک مجھے
ٹوٹنا چاہوں اُفق سے نہ ستاروں جیسا
اِتنی عجلت سے بُلائے نہ ابھی خاک مجھے
جب کبھی اِن سے اُجالوں کی ضمانت چاہی
کر گئے اور سیہ روز یہ افلاک مجھے
مَیں کہ سادہ تھا ابھی کورے ورق جیسا ہوں
ہاتھ آئی نہ کہیں صُحبتِ چالاک مجھے
مجھ پہ کھُل پائی نہ جوہڑ کی سیاست ماجدؔ
گرچہ تھا رفعتِ ہر کوہ کا ادراک مجھے
ماجد صدیقی

برق بھی ایک اِسی آب اِسی خاک میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
عجز مانا کہ بڑا دیدۂ نمناک میں ہے
برق بھی ایک اِسی آب اِسی خاک میں ہے
حرف کب جور پہ اُس کے کوئی آنے دے گا
طنطنہ خَیر سے جو اُس بتِ چالاک میں ہے
وقت شاطر ہے چلا بھی تو چلے گا آخر
چال ایسی جو کسی فہم نہ ادراک میں ہے
عرصۂ کرب و بلا سے سرِ آسامؔرواں
اک عجب چیخ سی اِس گنبدِافلاک میں ہے
کیا کہوں جرم میں اِس زمزمہ پردازی کے
کون سا تیر کمانوں میں مری تاک میں ہے
حق بجانب بھی ٹھہرتا ہے وہی بعدِستم
وصف طرفہ یہ مرے عہد کے سفّاک میں ہے
ڈھلنے پائی نہ نشیمن میں ابھی تک ماجدؔ!
وہ تمنّا کہ سمائی خس و خاشاک میں ہے
ماجد صدیقی

موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہو گئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 95
بارش ہُوئی تو پُھولوں کے تن چاک ہو گئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفّاک ہو گئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہو گئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سُورج کی شہ پہ تِنکے بھی بے باک ہو گئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رُخ بدلتے ہی تیراک ہو گئے
سُورج دما غ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زُلفِ شبِ فراق کے پیچاک ہو گئے
جب بھی غریبِ شہر سے کُچھ گفتگو ہُوئی
لہجے ہَوائے شام کے نمناک ہو گئے
پروین شاکر

دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 212
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک

دیوان پنجم غزل 1663
کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک
پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک
تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو برابر
ہو سبزہ نکلتے ہیں تہ خاک سے اب تک
تا مدنظر چھا رہے ہیں لالۂ صد برگ
جنگل بھرے ہیں سب گل تریاک سے اب تک
دشمن ہوئی ہے جس کے لیے ساری خدائی
مربوط ہیں ہم اس بت بیباک سے اب تک
ہر چند کہ دامن تئیں ہے چاک گریباں
ہم ہیں متوقع کف چالاک سے اب تک
گو خاک سی اڑتی ہے مرے منھ پہ جنوں میں
ٹپکے ہے لہو دیدئہ نمناک سے اب تک
وے کپڑے تو بدلے ہوئے میر اس کو کئی دن
تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک
میر تقی میر

آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر

دیوان پنجم غزل 1623
سعی سے اس کی ہوا مائل گریباں چاک پر
آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر
کیوں نہ ہوں طرفہ گلیں خوش طرح بعضی اے کلال
خاک کن کن صورتوں کی صرف کی ہے خاک پر
گِل ہوئی کوچے میں اس کے آنے سے بھی اب رہا
ابر تو کاہے کو رویا تھا ہماری خاک پر
ہم کو مٹی کر دیا پامالی گردوں نے میر
وہ نہ آیا ناز کرتا ٹک ہماری خاک پر
میر تقی میر

اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 22
اس سمت محلے گلیوں کے یہ لڑکے ہیں بیباک بہت
اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
ان سڑکوں پر جب خون بہا اور جب شاخیں بے برگ ہوئیں
دیکھا کہ پرانے قصّہ گو، کی آنکھیں تھیں نمناک بہت
آزاد ہے اُس کے قبضے سے تا حال علاقہ جذبوں کا
ویسے تو جہاں پر بیٹھی ہے اُس زور آور کی دھاک بہت
وُہ اوّل اوّل دیوانہ، تھا آخر آخر فرزانہ
اے دنیا! تیرا کیا کہنا، تو نکلی ہے چالاک بہت
کوتاہ نظر کا رشتہ ہے اور نوک ہنر بھی تیز نہیں
کچھ وقفۂ ہستی تھوڑا ہے اور سینے کو ہیں چاک بہت
دائم ناداری پیسوں کی اور یاری اپنے جیبوں کی
آئے ہیں ہمارے حصے میں اسباب بہت، اِملاک بہت
اکثر یہ شکایت کی ہم سے، اس شہر کے خوش پوشاکوں نے
وُہ جنم جنم کا آوارہ رستے میں اُڑانے خاک بہت
آفتاب اقبال شمیم