ٹیگ کے محفوظات: پیہم

وقت بھی ایسے زخموں کا مرہم نئیں ہوتا

تیرے زخمِ جدائی کا غم کم نئیں ہوتا
وقت بھی ایسے زخموں کا مرہم نئیں ہوتا
تیری رفاقت بھی کچھ لمحوں ہی کی نکلی
گگن سے چاند کا ساتھ بھی تو پیہم نئیں ہوتا
مجھ کو دکھ دینے پر اک آسیب لگا ہے
اور وہ اک آسیب کبھی بے دم نئیں ہوتا
ہنسنا، کھا کر زخم تو میری فطرت میں ہے
تم یہ سمجھتے ہو مجھ کو کوئی غم نئیں ہوتا
سینہ پیٹو، چیخو، دھاڑو، شور مچاؤ
یوں چپ بیٹھ کے رونے سے ماتم نئیں ہوتا
یاور ماجد

تری مشقِ ستم پیہم نہیں ہے

بَقَدرِ ظرف اب بھی غم نہیں ہے
تری مشقِ ستم پیہم نہیں ہے
مری ہمّت کا اندازہ تو کیجے
کوئی میرا شریکِ غم نہیں ہے
سبَق لے لالہِ کم ظرف مجھ سے
ہے دل خوں آنکھ لیکن نم نہیں ہے
میں کیوں ممنونِ دشمن ہُوں پئے غم
عزیزوں ہی کا احساں کم نہیں ہے
کوئی سمجھائے یہ بات اُس کو ضامنؔ
مجھے اُس کا ہے اپنا غم نہیں ہے
ضامن جعفری

اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
مُڑنے والی تھی وُہ ساحل کی طرف یم کی طرح
اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح
اُس کی انگڑائی میں دعوت تھی بہ اندازِ دگر
ابروؤں میں آنے والے دلنشیں خم کی طرح
پیش قدمی میں عجب امرت تھا پھیلا چار سُو
اُس کا ہر ہٹتا قدم لگنے لگا سم کی طرح
کہہ رہا تھا مجھ سے جیسے اُس کا فردوسِ بدن
دیکھنا رہ سے بھٹک جانا نہ آدم کی طرح
نشّۂ دیدار اُس کا اب کے تھا کُچھ اور ہی
آنکھ میں اُتری لگی وُہ کیفِ پیہم کی طرح
یہ بدن ماجِد سحرآثار ہو جانے لگا
اس سے ملنے کا اثر تھا گل پہ شبنم کی طرح
ماجد صدیقی

آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
سر پہ سایہ ابر کا گو کم رہا
آنکھ کا آنگن ہمیشہ نم رہا
جس سے کچھ اُمید تھی اُس پیڑ پر
بانجھ پن کا ہی سدا موسم رہا
وہ بھی کیا منظر تھا جس کو دیکھ کر
دل پہ سکتے کا سا اک عالم رہا
برق کا ماجدؔ کبھی صّیاد کا
ایک کھٹکا سا ہمیں پیہم رہا
ماجد صدیقی

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 128
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہانِ شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہرِ حیلہ جُو میں جو محرم ملے مجھے
فریادِ جانِ جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژ گاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پرنم ملے تمہیں
میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں ! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
جون ایلیا

ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے

دیوان چہارم غزل 1528
جب سے آنکھیں کھلی ہیں اپنی درد و رنج و غم دیکھے
ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
سر جانے کی اور اپنے زنہار نگاہ نہ کی ہم نے
اٹھ کے اندھا دھند آئے چلے ہی اس ظالم کے قدم دیکھے
عالم ہیئت مجموعی سے ایک عجیب مرقع ہے
ہر صفحے میں ورق میں اس کے دیکھے تو عالم دیکھے
زخم نہ ہوویں کیونکر غائر چھاتی میں دل خستوں کی
تیرنگاہ یار جگر پر لگتے ہوئے پیہم دیکھے
یار کے در پر ذکر ہے کیا ہنگامۂ روزمحشر کا
اس کوچے میں قیامت سے تو میر بہت اودھم دیکھے
میر تقی میر

فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 272
کیا ہرن ہے کہ کبھی رم نہیں کرتا ہم سے
فاصلہ اپنا مگر کم نہیں کرتا ہم سے
پیکر سادہ ہے اور دل سے وہ کرتا ہے سلوک
جو کبھی حسنِ دو عالم نہیں کرتا ہم سے
خود ہی شاداب ہے وہ لالۂ صحرا ایسا
خواہشِ قطرۂ شبنم نہیں کرتا ہم سے
کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے
صبر اے عشق‘ وہ خواہاں ہے شکیبائی کا
طلبِ دیدۂ پر نم نہیں کرتا ہم سے
عرفان صدیقی