ٹیگ کے محفوظات: پیدا

پھر شہرِ کم نگاہ میں تنہا کیا مجھے

پہلے تو میری ذات میں یکتا کیا مجھے
پھر شہرِ کم نگاہ میں تنہا کیا مجھے
اک بے صدا ہجوم رہا گوش بر سخن
میں خوش بیان تھا سو تماشا کیا مجھے
عجلت میں کیوں ہیں سب، یہ کسی کو نہیں خبر
کس عہدِ بدحواس میں پیدا کیا مجھے
میں لشکرِ عدو کے مقابل ڈٹا رہا
آخر کو تیغِ یار نے پسپا کیا مجھے
بس اک غزل کا شعر سنانے کی دیر تھی
پھر حُسن انہماک سے دیکھا کیا مجھے
خوشبو تھا میں، بکھرنا مرا اختصاص تھا
ان ذمّہ داریوں نے اکھٹا کیا مجھے
ہنگامہِ جنوں کو یہ مہلت قلیل ہے
کیوں عرصہ گاہِ دہر میں برپا کیا مجھے
میری وفا نے مجھ کو کیا تھا ترے سپرد
تیری جفا نے مجھ کو مہیّا کیا مجھے
کوئی دوا، نہ کوئی دعا کارگر ہوئی
عرفان،اک نگاہ نے اچھا کیا مجھے
عرفان ستار

آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے

ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آ گئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اُس نے اپنے منہ پہ انگلی رکھ کے آنکھیں بند کیں
میں نے کچھ کہنے کو اپنے ہونٹ جونہی وا کیے
روز لگ جاتے ہیں اُس کے صحن میں کاغذ کے ڈھیر
مستعد خط لکھنے والوں سے زیادہ ڈاکیے
ایک سورج کے لیے یہ کہکشاں در کہکشاں
اک زمیں کے واسطے سو آسماں پیدا کیے
خیر ہو چارہ گری کی میرے چارہ گر تجھے
مدتیں گزریں کسی بیمار کو اچھا کیے
باصر کاظمی

نفرتوں کی مشق ہی کو کیوں ہمیں پیدا کِیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
جتنے کمتر ہیں یہ کہتے ہیں، خدا نے کیا کِیا
نفرتوں کی مشق ہی کو کیوں ہمیں پیدا کِیا
روک ڈالے مرغزاروں، پنگھٹوں کے راستے
گرگ نے کیا کیا غزالوں کا نہیں پیچھا کِیا
بچ نکلنے پر بھی اُس کے ظلم سے ہم رو دئیے
عمر بھر جو دھونس اپنی ہی تھا منوایا کِیا
کوڑھ سی مجبوریاں تھیں لے کے ہم نکلے جنہیں
نارسائی نے ہمیں کیا کیا نہیں رسوا کِیا
موسموں کے وار اِس پر بھی گراں جب سے ہوئے
پیڑ بھی ماجد ہمِیں سا جسم سہلایا کِیا
ماجد صدیقی

خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
حسرتیں اپنی جگانے گھر سے نکلا کیجئے
خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے
بخت اُلٹے ہیں تو ہر نعمت سے کیجے احتراز
دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے
ہاتھ پاؤں مارئیے مقدور سے بڑھ کر یہاں
نرخ صَرفِ خوں سے ہی کچھ اپنا بالا کیجئے
گانٹھ کر انسان سے رشتہ حصولِ رزق کا
ہر کسی کا منہ پئے الطاف دیکھا کیجئے
اپنے حق میں لفظ بھی اِن کے غنیمت جانئے
دوستوں کی بات سے معنی نہ پیدا کیجئے
یوں نہ ہو ماجدؔ یہ ذکرِ درد اِک تہمت بنے
اِس قدر بھی نارسائی کا نہ شکوہ کیجئے
ماجد صدیقی

مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 188
جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی
عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی
افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی
رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی
لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانئِ صحرا کرے کوئی
ناکامئِ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی
سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی
ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی@
بیکارئ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی
@ نوٹ: یہ مصرعہ مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔ نسخۂ مہر: یہ درد وہ نہیں ہےکہ پیدا کرے کوئی۔ نسخۂ طاہر: یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی نسخۂ آسی: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی نسخۂ حمیدیہ: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
مرزا اسد اللہ خان غالب

کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 153
زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک
کیا مزا ہوتا ، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک
گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک
مجھ کو ارزانی رہے ، تجھ کو مبارک ہو جیو
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک
شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی ، واہ واہ !
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک
غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِ درد
زخم ، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک
یاد ہیں غالب ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا ، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 76
درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا
سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا
کم نہیں نازشِ ہمنامئ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا
سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا
نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا@
ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا
قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا
@کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا ۔ نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر
مرزا اسد اللہ خان غالب

عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 70
رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا
ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا
شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز”
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، "کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا”
شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا
کوہکن” نقّاشِ یک تمثالِ شیریں” تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا
مرزا اسد اللہ خان غالب

ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو

دیوان پنجم غزل 1712
صوفیاں خم وا ہوئے ہیں ہائے آنکھیں وا کرو
ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو
مستی و دیوانگی کا عہد ہے بازار میں
پاے کوباں دست افشاں آن کر سودا کرو
ہر جگہ دلکش ہے اس کی برگ گل سے جسم میں
ایک جا تو جی لگائو دل کے تیں بے جا کرو
ہے تکلف ہے تعین اس قصب پوشی کی قید
خرقۂ صد چاک پہنو آپ کو رسوا کرو
گرچہ ہم پر بستہ طائر ہیں پر اے گل ہاے تر
کچھ ہمیں پروا نہیں ہے تم اگر پروا کرو
میر تقی میر

یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ

دیوان پنجم غزل 1668
وہ نہیں ملتا ایک کسو سے مرتے ہیں اودھر جاجا لوگ
یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ
جیسے غم ہجراں میں اس کے عاشق جی کھو بیٹھے ہیں
برسوں مارے چرخ فلک تو ایسے ہوویں پیدا لوگ
زلف و خال و خط سے اس کے جہاں تہاں اب مبحث ہے
عقل ہوئی ہے گم خلقت کی یا کہتے ہیں سودا لوگ
چار قدم چلنے میں اس کے دیکھتے جاتے ہیں جو کفک
فتنے سر کھینچا ہی کریں ہیں ایک قیامت برپا لوگ
دنیا جاے نہیں رہنے کی میر غرور نہیں اچھا
جو جاگہ سے جاتے ہیں اپنی وے کرتے ہیں بے جا لوگ
میر تقی میر

ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق

دیوان پنجم غزل 1659
ارض و سما میں عشق ہے ساری چاروں اور بھرا ہے عشق
ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق
ظاہر و باطن اول و آخر پائیں بالا عشق ہے سب
نور و ظلمت معنی و صورت سب کچھ آپھی ہوا ہے عشق
ایک طرف جبریل آتا ہے ایک طرف لاتا ہے کتاب
ایک طرف پنہاں ہے دلوں میں ایک طرف پیدا ہے عشق
خاک و باد و آب و آتش سب ہے موافق اپنے تئیں
جو کچھ ہے سو عشق بتاں ہے کیا کہیے اب کیا ہے عشق
میر کہیں ہنگامہ آرا میں تو نہیں ہوں چاہت کا
صبر نہ مجھ سے کیا جاوے تو معاف رکھو کہ نیا ہے عشق
میر تقی میر

عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق

دیوان پنجم غزل 1658
مہر قیامت چاہت آفت فتنہ فساد بلا ہے عشق
عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق
عشق سے نظم کل ہے یعنی عشق کوئی ناظم ہے خوب
ہر شے یاں پیدا جو ہوئی ہے موزوں کر لایا ہے عشق
عشق ہے باطن اس ظاہر کا ظاہر باطن عشق ہے سب
اودھر عشق ہے عالم بالا ایدھر کو دنیا ہے عشق
دائر سائر ہے یہ جہاں میں جہاں تہاں متصرف ہے
عشق کہیں ہے دل میں پنہاں اور کہیں پیدا ہے عشق
موج زنی ہے میر فلک تک ہر لجہ ہے طوفاں زا
سرتا سر ہے تلاطم جس کا وہ اعظم دریا ہے عشق
میر تقی میر

کہو تم سو دل کا مداوا کریں

دیوان چہارم غزل 1458
تھکے چارہ جوئی سے اب کیا کریں
کہو تم سو دل کا مداوا کریں
گلستاں میں ہم غنچہ ہیں دیر سے
کہاں ہم کو پروا کہ پروا کریں
نہیں چاہتا جی کچھ اب سیر ہیں
ہوس دل کو ہو تو تمنا کریں
بخود جستجو میں نہ اس کی رہے
ہم آپھی ہیں گم کس کو پیدا کریں
غضب ہے یہ انداز رفتار عشق
چلے جائیں جی ہم تماشا کریں
بلا شور ہے سر میں ہم کب تلک
قیامت کا ہنگامہ برپا کریں
کہیں دل کی مرغان گلشن سے کیا
یہ بے حوصلہ ہم کو رسوا کریں
کھپا عشق کا جوش دل میں بھلا
کہ بدنام ہوویں جو سودا کریں
برے حال اس کی گلی میں ہیں میر
جو اٹھ جائیں واں سے تو اچھا کریں
میر تقی میر

محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں

دیوان چہارم غزل 1446
دل کے گئے بے دل کہلائے آگے دیکھیے کیا کیا ہوں
محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں
عشق کی رہ میں پائوں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے
آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں
خار و خس الجھے ہیں آپھی بحث انھوں سے کیا رکھیں
موج زن اپنی طبع رواں سے جب ہم جیسے دریا ہوں
ہم بھی گئے جاگہ سے اپنی شوق میں اس ہرجائی کے
عشق کا جذبہ کام کرے تو پھر ہم دونوں یک جا ہوں
کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میر
یہ طرفہ ہے شورجرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں
میر تقی میر

طوفان سا شہروں میں ہے اک شور دریا پر بھی ہے

دیوان سوم غزل 1263
آشوب چشم چشمہ زا اب کوہ و صحرا پر بھی ہے
طوفان سا شہروں میں ہے اک شور دریا پر بھی ہے
گو چشم بندی شیخ کی ہو آخرت کے واسطے
لیکن نظر اعمیٰ نمط پردے میں دنیا پر بھی ہے
نے دست مزد بندگی نے قدر سرافگندگی
جو مکرمت ہم پر ہوئی اب جلف و ادنیٰ پر بھی ہے
تنگ آن کر گم ہو گئے مقصود جو مقصود تھا
ہم خرج رہ کیونکر نہ ہوں پیدا ہی پیدا پر بھی ہے
ہیں خوبیاں ہی خوبیاں وحشی طبیعت میر میں
پر انس کم ہم سے دلیل اب کے یہ سودا پر بھی ہے
میر تقی میر

کبھو قدرداں عشق پیدا کرے ہے

دیوان دوم غزل 1049
کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے
کبھو قدرداں عشق پیدا کرے ہے
یہ طفلان بازار جی کے ہیں گاہک
وہی جانتا ہے جو سودا کرے ہے
چھپائیں ہوں آنکھیں ہی ان نے تو کہیے
وہ ہر بات کا ہم سے پردہ کرے ہے
جو رونا ہے راتوں کو اپنا یہی تو
کنارہ کوئی دن میں دریا کرے ہے
ٹھسک اس کے چلنے کی دیکھو تو جانو
قیامت ہی ہر گام برپا کرے ہے
مریں شوق پروازگلشن میں کیوں نہ
اسیروں کی یاں کون پروا کرے ہے
بنی صورتیں کیسی کیسی بگاڑیں
سمجھتے نہیں ہم فلک کیا کرے ہے
خط افشاں کیا خون دل سے تو بولا
بہت اب تو رنگین انشا کرے ہے
ہلاک آپ کو میر مت کر دوانے
کوئی ذی شعور آہ ایسا کرے ہے
میر تقی میر

دخل عقل اس مقام میں کیا ہے

دیوان دوم غزل 1028
شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
دل میں پھرتے ہیں خال و خط و زلف
مجھ کو یک سر ہزار سودا ہے
شور بازار میں ہے یوسفؑ کا
وہ بھی آ نکلے تو تماشا ہے
برچھیوں میں کہیں نہ بٹ جاوے
دل صفوف مژہ میں تنہا ہے
نظر آئے تھے وے حنائی پا
آج تک فتنہ ایک برپا ہے
دل کھنچے جاتے ہیں اسی کی اور
سارے عالم کی وہ تمنا ہے
برسوں رکھا ہے دیدئہ تر پر
پاٹ دامن کا اپنے دریا ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی دامن وسیع صحرا ہے
دلکشی اس کے قد کی سی معلوم
سرو بھی اک جوان رعنا ہے
دست و پا گم کیے ہیں تو نے میر
پیری بے طاقتی سے پیدا ہے
میر تقی میر

موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک

دیوان دوم غزل 843
آج کل سے کچھ نہ طوفاں زا ہے چشم گریہ ناک
موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک
یوں نہ روئو تو نہ روئو ورنہ رود و چاہ سے
ہر قدم اس دشت میں پیدا ہے چشم گریہ ناک
دل سے آگے ٹک قدم رکھو تو پھر بھی دلبرو
سیر قابل دیدنی اک جا ہے چشم گریہ ناک
بے گداز دل نہیں امکان رونا اس قدر
تہ کو پہنچو خوب تو پردہ ہے چشم گریہ ناک
سوجھتا اپنا کرے کچھ ابر تو ہے مصلحت
جوش غم سے جیسے نابینا ہے چشم گریہ ناک
سبز ہے رو نے سے میرے گوشہ گوشہ دشت کا
باعث آبادی صحرا ہے چشم گریہ ناک
وے حنائی پامری آنکھوں ہی میں پھرتے ہیں میر
یعنی ہر دم اس کے زیر پا ہے چشم گریہ ناک
میر تقی میر

توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے

دیوان اول غزل 518
ترا اے ناتوانی جو کوئی عالم میں رسوا ہے
توانائی کا منھ دیکھا نہیں ان نے کہ کیسا ہے
نیاز ناتواں کیا ناز سرو قد سے بر آوے
مثل مشہور ہے یہ تو کہ دست زور بالا ہے
ابھی اک عمر رونا ہے نہ کھوئو اشک آنکھو تم
کرو کچھ سوجھتا اپنا تو بہتر ہے کہ دنیا ہے
کیا اے سایۂ دیوار تونے مجھ سے رو پنہاں
مرے اب دھوپ میں جلنے ہی کا آثار پیدا ہے
بھلے کو اپنے سب دوڑے ہیں یہ اپنا برا چاہے
چلن اس دل کا تم دیکھو تو دنیا سے نرالا ہے
رہو ٹک دور ہی پھرنے دو کوچوں میں مجھے لڑکو
کروگے تنگ اسے تم اور تو نزدیک صحرا ہے
گلہ سن پیچش کاکل کا مجھ سے یوں لگا کہنے
تو اپنی فصد کر جلدی کہ تجھ کو میر سودا ہے
میر تقی میر

دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا

دیوان اول غزل 54
اے دوست کوئی مجھ سا رسوا نہ ہوا ہو گا
دشمن کے بھی دشمن پر ایسا نہ ہوا ہو گا
اب اشک حنائی سے جو تر نہ کرے مژگاں
وہ تجھ کف رنگیں کا مارا نہ ہوا ہو گا
ٹک گور غریباں کی کر سیر کہ دنیا میں
ان ظلم رسیدوں پر کیا کیا نہ ہوا ہو گا
بے نالہ و بے زاری بے خستگی و خواری
امروز کبھی اپنا فردا نہ ہوا ہو گا
ہے قاعدئہ کلی یہ کوے محبت میں
دل گم جو ہوا ہو گا پیدا نہ ہوا ہو گا
اس کہنہ خرابے میں آبادی نہ کر منعم
یک شہر نہیں یاں جو صحرا نہ ہوا ہو گا
آنکھوں سے تری ہم کو ہے چشم کہ اب ہووے
جو فتنہ کہ دنیا میں برپا نہ ہوا ہو گا
جز مرتبۂ کل کو حاصل کرے ہے آخر
یک قطرہ نہ دیکھا جو دریا نہ ہوا ہو گا
صد نشتر مژگاں کے لگنے سے نہ نکلا خوں
آگے تجھے میر ایسا سودا نہ ہوا ہو گا
میر تقی میر