ٹیگ کے محفوظات: پیاس

یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟

افق میں ڈوبتا سورج لگا اداس نہیں
یہ کیا کہ قائم و دائم مرے حواس نہیں؟
میں زرد گرد سی پیلاہٹوں کا عکس سہی
خزاں کی اوڑھنی لیکن مرا لباس نہیں
وہ چہچہاتا پرندہ تو کر گیا ہجرت
مگر وداع سے اس کے کوئی اداس نہیں
یقین اور گماں سب حواس کے دھوکے
میں ہوں بھی یا کہ نہیں ہوں کوئی قیاس نہیں
مجھے بہت ہے مری اپنی ذات کا صحرا
تو بحر ہے کہ ہے دریا۔۔۔ مُجھی کو پیاس نہیں
ملا وہ اشک جو بہنے ہی میں نہیں آیا
ملا وہ درد کہ جس کا کوئی نکاس نہیں
اساسِ عزت و تکریم ہیں حوالے یہاں
اور اپنا ایک حوالہ بھی میرے پاس نہیں
میں عکس ہوں کہ نہیں جس کا کوئی بھی موجود
میں آسمان ہوں میری کوئی اساس نہیں
یاور ماجد

کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس

اتر گیا تنِ نازک سے پتّیوں کا لباس
کسی کے ہاتھ نہ آئی مگر گلاب کی باس
اب اپنے جسم کے سائے میں تھک کے بیٹھ رہو
کہیں درخت نہیں راستے میں ‘ دُور نہ پاس
ہزار رنگ کی ظلمت میں لے گئی مجھ کو
بس اک چراغ کی خواہش‘ بس اک شرار کی آس
تمھارے کام نہ آئے گا جو بھی دانا ہے
ہر ایک شخص پہ کیوں کر رہے ہو اپنا قیاس
کسی کی آس تو ٹوٹی‘ کوئی تو ہار گیا
کہ نیم باز دریچوں میں روشنی ہے اُداس
وہ کالے کوس کی دوری اب ایک خواب سی ہے
تم آگئے ہو‘ مگر کب نہ تھے ہمارے پاس
یہ کیا طلسم ہے‘ جب سے کنارِ دریا ہوں
شکیبؔ‘ اور بھی کچھ بڑھ گئی ہے رُوح کی پیاس
شکیب جلالی

مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں

میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں
مُرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں
سوچو تو سِلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
صحرا کی بُود و باش ہے‘ اچھی نہ کیوں لگے
سُوکھی ہوئی گلاب کی ٹہنی گلاس میں
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دُور کے
مصروف ہوں ابھی عملِ اِنعکاس میں
دھوکے سے اس حسیں کو اگر چُوم بھی لیا
پاؤ گے دل کا زہر لَبوں کی مٹھاس میں
تارہ کوئی رِدائے شبِ ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابانِ یاس میں
جُوئے روانِ دشت! ابھی سُوکھنا نہیں
ساون ہے دُور اور وہی شدّت ہے پیاس میں
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہُوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
کانٹوں کی باڑ پھاند گیا تھا مگر‘ شکیبؔ
رستہ نہ مل سکا مجھے پھولوں کی باس میں
شکیب جلالی

میں سخت اُداس ہو چلا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
فرہاد کی آس ہو چلا ہوں
میں سخت اُداس ہو چلا ہوں
ہجرت پہ گئے ہوں جس کے باسی
اُس صحن کی گھاس ہو چلا ہوں
جس کی نہ اُٹھے کبھی عمارت
اُس گھر کی اساس ہو چلا ہوں
شاخوں سے جھڑے ہوئے گُلوں کی
بکھری ہوئی باس ہو چلا ہوں
ٹانکے کوئی مجھ کو بادلوں میں
میں دشت کی پیاس ہو چلا ہوں
ماجدؔ مجھے جانے کیا ہوا ہے
برحق تھا قیاس ہو چلا ہوں
ماجد صدیقی

جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں

دیوان سوم غزل 1178
جمع ہوتے نہیں حواس کہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
دل کی دو اشک سے نہ نکلی بھڑاس
اوسوں بجھتی نہیں ہے پیاس کہیں
بائو خوشبو ہے آئی ہے واں سے
کوئی چھپتی ہے گل کی باس کہیں
اس جنوں میں کہیں ہے سر پر خاک
ٹکڑے ہو کر گرا لباس کہیں
گرد سر یار کے پھریں پہروں
ہم جو ہوں اس کے آس پاس کہیں
سب جگہ لوگ حق و ناحق پر
نہ ملا حیف حق شناس کہیں
ہر طرف ہیں امیدوار یار
اس سے کوئی نہیں نراس کہیں
عشق کا محو دشت شیریں ہوں
جان کا بھی نہیں ہراس کہیں
عرش تک تو خیال پہنچے میر
وہم پھر ہے کہیں قیاس کہیں
میر تقی میر

بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
زمینِ پنج آب! تیری چاہتوں کے طاس میں
بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں
نکل نہیں رہیں گھروں سے، سوہنیوں کی خیر ہو
دھوئیں کا ذائقہ ہے آج دھوپ کی مٹھاس میں
اگر مشقتوں کا ہے معاوضہ برہنگی
لگائیں کیوں نہ چل کے آگ پھولتی کپاس میں
ابھی بہے گی خلوتوں سے روشنی شراب کی
بجیں گی نرم قہقہوں کی گھنٹیاں گلاس میں
بنامِ چشم و گوش آئیں فیصلے شکوک کے
مچی ہوئی ہے اک عجیب ابتری حواس میں
وُہ عرضِ مدعا میں پیچ ڈھونڈتے ہی رہ گئے
بہت زیادہ سادگی تھی میرے التماس میں
کہاں ہوں ! آئنے سے کٹ گیا ہے میرا عکس کیا؟
کہ میری شکل آ نہیں رہی مرے قیاس میں
آفتاب اقبال شمیم

یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 49
یا پھونک سے چراغ، بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھُٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا
جب دے سکا نہ کوئی گواہی سرِ صلیب
جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا
گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر
وجہِ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا
ہر دستِ پُر فسوں ، یدِ بیضا دکھائی دے
اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا
دستک ہر اک مکان پہ دنیا پڑی مجھے
مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا
آفتاب اقبال شمیم

کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 571
کچھ ہڈیاں پڑی ہوئی، کچھ ڈھیر ماس کے
کچھ گھوم پھر رہے ہیں سٹیچو لباس کے
فٹ پاتھ بھی درست نہیں مال روڈ کا
ٹوٹے ہوئے ہیں بلب بھی چیرنگ کراس کے
پھر ہینگ اوور ایک تجھے رات سے ملا
پھر پاؤں میں سفر وہی صحرا کی پیاس کے
ہنگامہء شراب کی صبحِ خراب سے
اچھے تعلقات ہیں ٹوٹے گلاس کے
کیوں شور ہو رہا ہے مرے گرد و پیش میں
کیا لوگ کہہ رہے ہیں مرے آس پاس کے
صحراکا حسن لے گئے مجنون کے نقشِ پا
پیوند لگ چکے ہیں وہاں سبز گھاس کے
منصوربس یقین کی گلیاں ہیں اور میں
دروازے بند ہوچلے وہم و قیاس کے
منصور آفاق

کچھ بدن پر کپاس اگ آئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 516
ننگ کا بھی لباس اگ آئے
کچھ بدن پر کپاس اگ آئے
ہم نفس کیا ہوا سوئمنگ پول
پانیوں میں حواس اگ آئے
آتے جاتے رہو کہ رستے میں
یوں نہ ہو پھر سے گھاس اگ آئے
سوچ کر کیا شجر قطاروں میں
پارک کے آس پاس اگ آئے
گاؤں بوئے نہیں اگر آنسو
شہر میں بھوک پیاس اگ آئے
کوئی ایسی بہار ہو منصور
استخوانوں پہ ماس اگ آئے
منصور آفاق

اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 35
شہد ٹپکا، ذرا سپاس ملا
اپنے لہجے میں کچھ مٹھاس ملا
سوکھ جائیں گی اس کی آنکھیں بھی
جا کے دریا میں میری پیاس ملا
خشک پتے مرا قبیلہ ہیں
دل جلوں میں نہ سبز گھاس ملا
آخری حد پہ ہوں ذرا سا اور
بس مرے خوف میں ہراس ملا
آ، مرے راستے معطر کر
آ، ہوا میں تُو اپنی باس ملا
نسخہء دل بنا مگر پہلے
اس میں امید ڈال آس ملا
ہے خداوند کے لیے منصور
سو غزل میں ذرا سپاس ملا
منصور آفاق

خواب میں بھی ہراس سے گزرا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 26
کیسے وہم و قیاس سے گزرا
خواب میں بھی ہراس سے گزرا
ہر عمارت بہار بستہ ہے
کون چیرنگ کراس سے گزرا
رات اک کم سخن بدن کے میں
لہجہ ء پُر سپاس سے گزرا
پھر بھی صرفِ نظر کیا اس نے
میں کئی بار پاس سے گزرا
رو پڑی داستاں گلے لگ کر
جب میں دیوانِ خاص سے گزرا
عمر بھر عشق ،حسن والوں کی
صبحتِ ناشناس سے گزرا
کیا کتابِ وفا تھی میں جس کے
ایک ہی اقتباس سے گزرا
مثلِ دریا ہزاروں بار بدن
اک سمندر کی پیاس سے گزرا
ہجر کے خارزار میں منصور
وصل کی التماس سے گزرا
منصور آفاق