ٹیگ کے محفوظات: پیاسا

مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے
برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انہیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرہ دکھائی دیتا ہے
وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے
مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے
سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے
کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیبؔ
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
شکیب جلالی

پیڑوں پر سونا بکھرا تھا

شام کا شیشہ کانپ رہا تھا
پیڑوں پر سونا بکھرا تھا
جنگل جنگل، بستی بستی
ریت کا شہر اُڑا جاتا تھا
اپنی بے چینی بھی عجب تھی
تیرا سفر بھی نیا نیا تھا
تیری پلکیں بوجھل سی تھیں
میں بھی تھک کر چُور ہوا تھا
تیرے ہونٹ بھی خشک ہوئے تھے
میں تو خیر بہت پیاسا تھا
کھڑکی کے دھندلے شیشے پر
دو چہروں کا عکس جما تھا
جگمگ جگمگ کنکریوں کا
دشتِ فلک میں جال بچھا تھا
تیرے شانے پر سر رکھ کر
میں سپنوں میں ڈوب گیا تھا
یوں گزری وہ رات سفر کی
جیسے خوشبو کا جھونکا تھا
ناصر کاظمی

پہلے تیرا نام لکھا تھا

میں نے جب لکھنا سیکھا تھا
پہلے تیرا نام لکھا تھا
میں وہ صبرِ صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
میں وہ اسمِ عظیم ہوں جس کو
جن و ملک نے سجدہ کیا تھا
تو نے کیوں مرا ہاتھ نہ پکڑا
میں جب رستے سے بھٹکا تھا
جو پایا ہے وہ تیرا ہے
جو کھویا وہ بھی تیرا تھا
تجھ بن ساری عمر گزاری
لوگ کہیں گے تو میرا تھا
پہلی بارش بھیجنے والے
میں ترے درشن کا پیاسا تھا
ناصر کاظمی

کہنے کو سب کچھ اپنا ہے

اِس دُنیا میں اپنا کیا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
یوں تو شبنم بھی ہے دریا
یوں تو دریا بھی پیاسا ہے
یوں تو ہیرا بھی ہے کنکر
یوں تو مٹی بھی سونا ہے
منہ دیکھے کی باتیں ہیں سب
کس نے کس کو یاد کیا ہے
تیرے ساتھ گئی وہ رونق
اب اِس شہر میں کیا رکھا ہے
بات نہ کر صورت تو دِکھا دے
تیرا اس میں کیا جاتا ہے
دھیان کے آتشدان میں ناصر
بجھے دِنوں کا ڈھیر پڑا ہے
ناصر کاظمی

دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے

ترے آنے کا دھوکا سا رہا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے
عجب ہے رات سے آنکھوں کا عالم
یہ دریا رات بھر چڑھتا رہا ہے
سنا ہے رات بھر برسا ہے بادل
مگر وہ شہر جو پیاسا رہا ہے
وہ کوئی دوست تھا اچھے دِنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
کسے ڈھونڈو گے ان گلیوں میں ناصر
چلو اب گھر چلیں دِن جا رہا ہے
ناصر کاظمی

میں بھی تیرے جیسا ہوں

اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دُکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دِیا جلائے کون
مَیں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رُت مجھے روئے گی
جاتی رُت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
ناصر کاظمی

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 136
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا، خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز

فرد فرد

عرفان صدیقی ۔ فرد فرد
اب خدا چاہے تو کچھ اور ہوا چاہتا ہے
آج تک تو وہ ہوا ہے جو عدو نے چاہا
خدا نے ذہن میں لفظ و بیاں کو بھیج دیا
جو کچھ کمایا تھا میں نے سو ماں کو بھیج دیا

غزال آتے بھی ہیں زیر دام جانتا ہوں
مگر یہ رزق میں خود پر حرام جانتا ہوں

شہر نے اُمید کی چادر اوڑھی دُور اذان شام ہوئی
سوچ کی کہنہ سرائے میں روشن مشعل بام ہوئی

میرے انکار پرستش نے بچایا ہے مجھے
سر جھگا دوں تو ہر انسان خدا ہو جائے

کون پاگل اپنا سر دینے کی سرشاری میں ہے
فائدہ تو صرف اعلان وفاداری میں ہے

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہوتا
نہ ہوا ورنہ یہ نظارہ غضب کا ہوتا

میرا میدان غزل نیزہ و سر کا ٹھہرا
رہنے والا جو شہیدوں کے نگر کا ٹھہرا

غزل میں ہم سے غم جاں بیاں کبھی نہ ہوا
تمام عمر جلے اور دھواں کبھی نہ ہوا

دست قاتل پہ گماں دست طلب کا ہو گا
کبھی ہو گا تو یہ نظارہ غضب کا ہو گا

ہوا کے ہاتھ میں رکھ دی کسی نے چنگاری
تمام شہر اسے حادثہ سمجھتا رہا

کوئے قاتل کو تماشا گاہ سمجھا ہے حریف
کشتنی میری رقابت میں یہاں بھی آگیا

زمین گھوم رہی ہے ہمارے رُخ کے خلاف
اشارہ یہ ہے کہ سمت سفر بدل دیں ہم

اس کا پندار رہائی نہیں دیتا اس کو
نقش دیوار دکھائی نہیں دیتا اس کو

میں اک دعا ہوں تو دروازہ آسمان کا بھی کھول
اور اک نوا ہوں تو حسن قبول دے مجھ کو

سوچتے سوچتے زندگی کٹ گئی اس نے چاہا مجھے
وہم بھی ایک شئے ہے مگر اس کے لیے کچھ قرینہ تو ہو

وہاں ہونے کو ہو گی برف باری
پرندے پھر ادھر آنے لگے ہیں

شاعری سے کوئی قاتل راہ پر آتا نہیں
اور ہم کو دوسرا کوئی ہنر آتا نہیں

مری غزل کا یہ مضموں بدلنے والا نہیں
وہ ملنے والا نہیں، دل سنبھلنے والا نہیں

میں بھی تنہائی سے ڈرتا ہوں کہ خاکم بدہن
آدمی کوئی خدا ہے، کہ اکیلا رہ جائے

حکم یہ ہے کہ مجھے دشت کی قیمت دی جائے
میرے زنداں کے در و بام کو وسعت دی جائے

موتیوں سے منہ بھرے دیکھو تو یہ مت پوچھنا
لوگ کیوں چپ ہو گئے تاب سخن ہوتے ہوئے

آگ میں رقص کیا، خاک اُڑا دی ہم نے
اب کے تو شہر میں اک دھوم مچا دی ہم نے
آگ میں رقص کیا خاک اُڑا دی ہم نے
موج میں آئے تو اک دھوم مچا دی ہم نے

دل اک تپش میں پگھلتا رہے تو اچھا ہے
چراغ طاق میں جلتا رہے تو اچھا ہے

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچاتے تو زیاں نام و نسب کا ہوتا

موج خوں بھرتی رہی دشت کی تصویر میں رنگ
کبھی دریا نہ مرے دیدۂ تر کا ٹھہرا

کبھی طلب ہی نہ کی دوستوں سے قیمت دل
سو کاروبار میں ہم کو زیاں کبھی نہ ہوا

ایک ہی چیز اس آشوب میں رہ سکتی ہے
سر بچائیں تو زیاں نام و نسب کا ہو گا

بجا حضور، یہ ساری زمین آپ کی ہے
میں آج تک اسے ملک خدا سمجھتا رہا

میں نے تو اپنے ہی بام جاں پہ ڈالی تھی کمند
اتفاقاً اس کی زد میں آسماں بھی آگیا

اب آفتاب تو محور بدل نہیں سکتا
تو کیوں نہ زاویۂ بام و در بدل دیں ہم

کیا کسی خواب میں ہوں میں تہہ خنجر کہ یہاں
چیختا ہوں تو سنائی نہیں دیتا مجھ کو
نہ گرم دوستیاں ہیں نہ نرم دشمنیاں
میں بے اصول ہوں کوئی اصول دے مجھ کو

ہم ہوا کے سوا کچھ نہیں اس پہ یہ حوصلہ دیکھئے
آدمی ٹوٹنے کے لیے کم سے کم آبگینہ تو ہو

مرا گھر پاس آتا جا رہا ہے
وہ مینارے نظر آنے لگے ہیں

شہسوارو، اپنے خوں میں ڈوب جانا شرط ہے
ورنہ اس میدان میں نیزے پہ سر آتا نہیں

لہو میں لو سی بھڑکنے لگی، میں جانتا ہوں
کہ یہ چراغ بہت دیر جلنے والا نہیں

دل افسردہ کے ہر سمت ہے رشتوں کا ہجوم
جیسے انسان سمندر میں بھی پیاسا رہ جائے

کب تلک کوئی کرے حلقۂ زنجیر میں رقص
کھیل اگر دیکھ لیا ہو تو اجازت دی جائے

اب بدن سے موج خوں گزری تو اندازہ ہوا
کیا گزر جاتی ہے صحرا پہ چمن ہوتے ہوئے

درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم ہی دنیا سے اُٹھا دی ہم نے
درد کیا جرم تھا کوئی کہ چھپایا جاتا
ضبط کی رسم بہرحال اُٹھا دی ہم نے

وہ عشق ہو کہ ہوس ہو مگر تعلق کا
کوئی بہانہ نکلتا رہے تو اچھا ہے
عرفان صدیقی

کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 106
میں ہر اک محفل میں اس امید پر بیٹھا رہوں
کوئی تیرا ذکر چھیڑے اور میں سنتا رہوں
دھوپ کی صورت مرے ہمراہ تو چلتا رہے
سائے کی مانند میں گھٹتا رہوں بڑھتا رہوں
ایک طوفاں کی طرح تو مجھ سے ٹکراتا رہے
اور ساحل کی طرح کٹ کٹ کے میں گرتا رہوں
تو لہو کی طرح میرے جسم میں گردش کرے
سانس کی مانند میں آتا رہوں جاتا رہوں
دشت دل سے تو صبا بن کے اگر گزرے تومیں
قطرہ بن کے نوک خار زیست پر ٹھہرا رہوں
دائرے آب رواں کے ٹوٹتے بنتے رہیں
اور اپنی شکل میں بیٹھا ہوا تکتا رہوں
زندگی کے مرحلے دنیا کی خاطر طے کروں
اور محبت کے لئے میں عمر بھر پیاسا رہوں
کر دیا ہے کام کیسا تو نے یہ میرے سپرد
رات بھر آوارہ قدموں کی صدا سنتا رہوں
میری حسرت کا تقاضا ہے کہ تیری آرزو
موسم گل میں شکستہ شاخ پر بیٹھا رہوں
زندگی دو حادثوں کے درمیاں اک حادثہ
میں کہاں تک حادثوں کے درمیاں بیٹھا رہوں
زندہ رہنے کا تو باقیؔ یہ بھی اک انداز ہے
بیٹھ کر غیروں میں اپنے آپ پر ہنستا رہوں
باقی صدیقی