ٹیگ کے محفوظات: پیاری

کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 132
ہر ایک بات نہ کیوں زہر سی ہماری لگے
کہ ہم کو دستِ زمانہ کے زخم کاری لگے
اداسیاں ہوں‌ مسلسل تو دل نہیں‌ روتا
کبھی کبھی ہو تو یہ کیفیت بھی پیاری لگے
بظاہر ایک ہی شب ہے فراقِ یار مگر
کوئی گزارنے بیٹھے تو عمر ساری لگے
علاج اس دلِ درد آشنا کا کیا کیجئے
کہ تیر بن کے جسے حرفِ غمگساری لگے
ہماری پاس بھی بیٹھو بس اتنا چاہتے ہیں
ہمارے ساتھ طبیعت اگر تمہاری لگے
فراز تیرے جنوں کا خیال ہے ورنہ
یہ کیا ضرور وہ صورت سبھی کو پیاری لگے
احمد فراز

پِیا جی کی سواری جا رہی ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 231
چلو بادِ بہاری جا رہی ہے
پِیا جی کی سواری جا رہی ہے
شمالِ جاودانِ سبز جاں سے
تمنا کی عماری جا رہی ہے
فغاں اے دشمنی دارِ دل و جاں
مری حالت سُدھاری جا رہی ہے
جو اِن روزوں مراغم ہے وہ یہ ہے
کہ غم سے بُردباری جا رہی ہے
ہے سینے میں عجب اک حشر برپا
کہ دل سے بے قراری جا رہی ہے
میں پیہم ہار کر یہ سوچتا ہے
وہ کیا شہ ہے جو ہاری جا رہی ہے
دل اُس کے رُوبرو ہے اور گُم صُم
کوئی عرضی گزاری جا رہی ہے
وہ سید بچہ ہو اور شیخ کے ساتھ
میاں عزت ہماری جا رہی ہے
ہے برپا ہر گلی میں شورِ نغمہ
مری فریاد ماری جا رہی ہے
وہ یاد اب ہو رہی ہے دل سے رُخصت
میاں پیاروں کی پیاری جا رہی ہے
دریغا ! تیری نزدیکی میاں جان
تری دوری پہ واری جا رہی ہے
بہت بدحال ہیں بستی ترے لوگ
تو پھر تُو کیوں سنواری جا رہی ہے
تری مرہم نگاہی اے مسیحا!
خراشِ دل پہ واری جا رہی ہے
خرابے میں عجب تھا شور برپا
دلوں سے انتظاری جا رہی ہے
جون ایلیا

جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے

دیوان پنجم غزل 1765
جو کوئی خستہ جگر عشق کا آزاری ہے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
کارواں گاہ جہاں میں نہیں رہتا کوئی
جس کے ہاں دیکھتے ہیں چلنے کی تیاری ہے
چیز و ناچیز کا آگاہ کو رہتا ہے لحاظ
سارے عالم میں حقیقت تو وہی ساری ہے
آئینہ روبرو رکھنے کو بھی اب جاے نہیں
صورتوں سے اسے ہم لوگوں کی بیزاری ہے
مر گئے عشق میں نازک بدنوں کے آخر
جان کا دینا محبت کی گنہگاری ہے
پلکیں وے اس کی پھری جی میں کھبی جاتی ہیں
آنکھ وہ دیکھے کوئی شوخی میں کیا پیاری ہے
بے قراری میں نہ دلبر سے اٹھا ہرگز ہاتھ
عشق کرنے کے تئیں شرط جگرداری ہے
وائے وہ طائر بے بال ہوس ناک جسے
شوق گل گشت گلستاں میں گرفتاری ہے
جرم بے جرم کھنچی رہتی ہے جس کی شمشیر
اس ستم گار جفاجو سے ہمیں یاری ہے
آنکھ مستی میں کسو پر نہیں پڑتی اس کی
یہ بھی اس سادہ و پرکار کی ہشیاری ہے
واں سے جز ناز و تبختر نہیں کچھ یاں سے میر
عجز ہے دوستی ہے عشق ہے غم خواری ہے
میر تقی میر

ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے

دیوان چہارم غزل 1508
ہماری تیری مودت ہے دوست داری ہے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
گئی وہ نوبت مجنوں کہ نام باجے تھا
ہمارا شور جنوں اب ہے اپنی باری ہے
کریں تو جاکے گدایانہ اس طرف آواز
اگر صدا کوئی پہچانے شرمساری ہے
مسافران رہ عشق ہیں شکیب سے چپ
وگرنہ حال ہمارا تو اضطراری ہے
خرابی حال کی دل خواہ جو تمھارے تھی
سو خطرے میں نہیں خاطر ہمیں تمھاری ہے
ہمیں ہی عشق میں جینے کا کچھ خیال نہیں
وگرنہ سب کے تئیں جان اپنی پیاری ہے
نگاہ غور سے کر میر سارے عالم میں
کہ ہووے عین حقیقت وہی تو ساری ہے
میر تقی میر

ہم نے تیری نظر اتاری دوست

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 141
کر کے آنکھوں سے بادہ خواری دوست
ہم نے تیری نظر اتاری دوست
اک تعلق ہے خواب کا اس سے
وہ زیادہ نہیں ہماری دوست
زد میں آیا ہوا نہیں نکلا
شور کرتے رہے شکاری دوست
اس کی اک اک نظر میں لکھا تھا
میں تمہاری ہوں بس تمہاری دوست
کیوں مہکتی ہے تیز بارش میں
اک دہکتی ہوئی کنواری دوست
راہ بنتی ہے آنے جانے سے
اور بناتے ہیں باری باری دوست
کچھ عجب ہے تمہارے لہجے میں
بڑھتی جاتی ہے بے قراری دوست
ہم اداسی پہن کے پھرتے ہیں
کچھ ہماری بھی غم گساری دوست
ہم اکیلے ہیں اپنے پہلو میں
ایسی ہوتی ہے دوست داری دوست
رات بھر بیچتے تھے جو سورج
اب کہاں ہیں وہ کاروباری دوست
کیا ہیں کٹھ پتلیاں قیامت کی
برگزیدہ ہوئے مداری دوست
حق ہمارا تھا جس کے رنگوں پر
تم نے وہ زندگی گزاری دوست
ہر طرف ہجرتیں ہیں بستی میں
کیا تمہاری ہے شہریاری دوست
دشتِ دل میں تمہاری ایڑی سے
ہو گیا چشمہ ایک جاری دوست
ہجر کی بالکونی کی شاید
میلوں لمبی ہے راہداری دوست
زندگی نام کی کہیں منصور
ایک ہے دوجہاں سے پیاری دوست
منصور آفاق