ٹیگ کے محفوظات: پہچان

آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے

قہر سے دیکھ نہ ہر آن مجھے
آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے
یک بیک آ کے دکھا دو جھمکی
کیوں پھراتے ہو پریشان مجھے
ایک سے ایک نئی منزل میں
لیے پھرتا ہے ترا دھیان مجھے
سن کے آوازۂ گل کچھ نہ سنا
بس اُسی دن سے ہوے کان مجھے
جی ٹھکانے نہیں جب سے ناصر
شہر لگتا ہے بیابان مجھے
ناصر کاظمی

کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
عرش تک سے اِس پہ ارزانی ہیں گو احسان بھی
کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی
ہے ہمیں کیوں اُس بدن پر حکمرانی کا یقیں
جس کے ملنے کا نہیں باقی کوئی امکان بھی
سرو کا تو کیا جو لرزاں بھی ہو شورِ سیل سے
خاک پر دِبکے ملے ہیں سنبل و ریحان بھی
آبجو میں اور ہے پودا سرِ ساحل کچھ اور
سانس لینا دہر میں مشکل بھی ہے آسان بھی
باپ روزی کے لئے نکلا وطن سے دُور تو
مڑ کے بچّوں کی نہ اُس سے ہو سکی پہچان بھی
سحرِ سے فرصت مِلے دل کے تو ماجدؔ دیکھنا
کچھ تقاضے تجھ سے رکھتی ہے بدن میں جان بھی
ماجد صدیقی

میدان کی اِک ہار ہے پہچان ہماری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
اتنی سی سرِ ارض ہے اَب آن ہماری
میدان کی اِک ہار ہے پہچان ہماری
بتلائے کہ سر کون سی دہلیز پہ خم ہو
کر دے کوئی مشکل یہی آسان ہماری
ابجد سے بھی جو پیار کی واقف نظر آئے
سَو جان ہو اُس شخص پہ قربان ہماری
یہ ساغرِ جم بھی ہے اٹا گردِ زماں سے
کیا رہنمائی کرے وجدان ہماری
ہے اِس کی بقا بھی غمِ اولاد کے ناتے
ورنہ ہے کہاں جسم میں اب جان ہماری
نکلے ہی کہاں تخت کی زنجیر سے ماجدؔ
کب آ کے خبر لے کوئی خاقان ہماری
ماجد صدیقی

جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 29
خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا
دل لے کے مفت کہتے ہیں کہ کام کا نہیں
اُلٹی شکایتیں ہوئیں، احسان تو گیا
دیکھا ہے بُت کدے میں جو اے شیخ، کچھ نہ پوچھ
ایمان کی تو یہ ہے کہ ایمان تو گیا
افشائے رازِ عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اُسے جتا تو دیا، جان تو گیا
گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا، پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا
بزمِ عدو میں صورت پروانہ دل میرا
گو رشک سے جلا تیرے قربان تو گیا
ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
داغ دہلوی

پہچان

ایک نہایت ہی تھرڈ کلاس ہوٹل میں دیسی وسکی کی بوتل ختم کرنے کے بعد طے ہوا کہ باہر گھوما جائے اور ایک ایسی عورت تلاش کی جائے جو ہوٹل اور وسکی کے پیدا کردہ تکدّر کو دُور کر سکے۔ کوئی ایسی عورت ڈھونڈی جائے جو ہوٹل کی کثافت کے مقابلے میں نفاست پسند اور بدذائقہ وسکی کے مقابلہ میں لذیذ ہو۔ فخر نے ہوٹل کی غلیظ فضا سے باہر نکلتے ہی مجھ سے اور مسعودسے کہا۔

’’کوئی دانے دار عورت ہو۔۔۔۔۔۔ اچھے گویّے کے گلے کی طرح اس میں بڑے بڑے دانے ہوں۔۔۔۔ خدا کی قسم طبیعت صاف ہو جائے۔ ‘‘

وسکی دانوں سے بالکل خالی تھی۔ سوڈا بھی بالکل بے جان تھا۔ غالباً اسی وجہ سے فخر دانے دار عورت کا قائل ہو رہا تھا۔ ہم تینوں عورت چاہتے تھے۔ فخر دانے دار عورت چاہتا تھا۔ مجھے ایسی عورت مطلوب تھی جو بڑے سلیقے سے واہیات باتیں کرے۔۔۔۔۔۔ اور مسعود کو ایسی عورت کی ضرورت تھی۔ جس میں بنیا پن نہ ہو۔ اپنی فیس کے روپے لے کر ٹرنک میں جہاں اس کا جی چاہے رکھے اور کچھ عرصے کے لیے بھول جائے کہ سودا کر رہی ہے۔ اس بازار کا راستہ ہم جانتے تھے۔ جہاں عورتیں مل سکتی ہیں۔ کالی، نیلی پیلی، لال اور جامنی رنگ کی عورتیں۔ پیڑوں کی طرح ان کے مکان ایک قطار میں دُور تک دوڑتے چلے گئے ہیں۔ یہ رنگ برنگی عورتیں ان پکے ہوئے پھلوں کے مانند لٹکی رہتی ہیں۔ آپ نیچے سے ڈھیلا مار کر اسے گرا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ عورتیں مطلوب نہیں تھیں۔ دراصل ہم اپنے آپ کو دھوکا دینا چاہتے تھے۔ ہم ایسی عورت یا عورتیں چاہتے تھے۔ جو عرفِ عام میں پرائیویٹ ہوں یعنی جو منڈی کے ہجوم سے نکل کر علیحدہ شریف محلوں میں اپنا کاروبار چلا رہی ہوں۔ ہم تینوں میں فخر سب سے زیادہ تجربہ کار تھا۔ قوتِ ارادی بھی اس میں ہم سب سے زیادہ تھی۔ ایک تانگے والا جب ہمارے پاس سے گزرا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔ اور بغیر کسی جھجک کے معنی خیز لہجے میں اُس سے کہا ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟‘‘

تانگے والے نے جو سنجیدہ اور متین آدمی معلوم ہوتا تھا۔ ہم تینوں کی طرف باری باری دیکھا۔ میں جھینپ سا گیا۔ خاموشی ہی خاموشی میں وہ ہم سے کہہ گیا تھا۔

’’تم جوانوں کو شراب پی کر یہ کیا ہو جاتا ہے؟‘‘

’’فخر نے دوبارہ اس سے کہا: ہم سیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چلو گے؟ پھرتو واقعی اسے کچھ خیال آیا اور اپنا مطلب اور زیادہ واضح کر دیا۔

’’کوئی مال وال ہے تمہاری نگاہ میں؟‘‘

مسعوداور میں دونوں ایک طرف کھسک گئے مسعود نے گھبرا کر مجھ سے کہا۔

’’یہ فخر کیسا آدمی ہے اسے کچھ سمجھاؤ۔ ‘‘

مسعود سے میں کچھ کہنے ہی والا تھا۔ کہ فخر نے آواز دی۔

’’آؤ بھئی آؤ۔۔۔۔۔۔۔ بیٹھو تانگے میں۔ ‘‘

ہم تینوں تانگے میں بیٹھ گئے۔ مجھے اگلی نشست پر جگہ ملی۔ دسمبر کے آخری دن تھے۔ وقت کے آٹھ بج چکے تھے۔ وسکی پینے کے باوجود ہمیں سردی محسوس ہو رہی تھی۔ (میں) چونکہ اگلی نشست پر تھا۔ اور تینوں میں سے سب سے کمزور تھا۔ اس لیے میرے کان سُن ہو رہے تھے۔ جب تانگہ ڈفرن برج کے نیچے اُترا تو میں نے مفلر نکال کر کانوں اور سر پر لپیٹ لیا۔ اور اوورکوٹ کا کالر بھی اونچا کر لیا۔ سانس گھوڑے کے نتھنوں سے بھاپ بن کر باہر نکل رہا تھا ہم تینوں خاموش تھے۔ تانگے والا موٹے اور کُھردرے کمبل میں لپٹا خاموشی سے اپنا تانگہ چلا رہا تھا۔ میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ سنجیدگی اس کے چہرے پر ٹھٹھر سی رہی تھی۔ جو مجھے بہت بُری معلوم ہوئی۔ چنانچہ میں نے فخر سے کہا۔ فخر یہ آدمی کیسا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کاسٹرول پی کر بیٹھا ہے۔ ‘‘

تانگے والا میرے اس ریمارک پر بھی خاموش رہا۔ فخر نے کہا۔ زیادہ باتیں کرنے والے آدمی ٹھیک نہیں ہوتے۔ ہمارا مطلب سمجھ گیا ہے۔ لے چلے گا۔ جہاں اچھی چیز ہوئی۔ ‘‘

مسعود سگریٹ سُلگا رہا تھا۔ ایک دم بولا۔ ‘‘

واللہ عورت کتنی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ عورت عورت کم ہے چیز زیادہ ہے۔ میں نے اس کو ذرا اور خوبصورت بنا کر کہا۔

’’مسعود چیز نہیں۔۔۔۔۔۔ چیز سی۔ ‘‘

شاعر آدمی تھا بھڑک اُٹھا۔ واللہ کیا بات پیدا کی ہے۔ چیز نہیں چیز سی۔۔۔۔۔سو میاں تانگے والے چیز اور چیز سی میں جو فرق ہے۔ اس کا دھیان رکھنا۔ ‘‘

تانگے والا خاموش رہا۔ اب میں نے اس کی طرف زیادہ غور سے دیکھا۔ مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ عمر پینتیس سال کے لگ بھگ ہو گی۔ پتلی پتلی مونچھیں تھیں۔ جن کے بال نیچے کو جھکے ہوئے تھے۔ سردی کے باعث چونکہ اس نے کمبل کا ڈھاٹا سا بنا رکھا تھا۔ اس لیے اس کا پورا چہرہ نظر نہ آتا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر فخر سے پوچھا۔ کہاں لے جا رہا ہے ہمیں؟َ‘‘

فخر نے جو زیادہ سوچ بچار کا عادی نہیں تھا۔ جواب دیا۔ اتنے بیتاب کیوں ہوتے ہو؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تھوڑی دیر کے بعد چیز تمہارے سامنے آ جائے گی۔ ‘‘

مسعود نے اس پر فخر سے کہا۔

’’تم سے کیا بات ہوئی ہے اس کی؟‘‘

فخر نے جواب دیا۔

’’روشن آراروڈ پر۔۔۔۔۔۔۔ کچھ میمیں رہتی ہیں۔ کہتا ہے ہمارے کام کی ہیں۔ ‘‘

میموں کا نام سُن کر مسعود کو اپنے ایک دوست کی نظم یاد آ گئی۔ اس کا حوالہ دیکر اُس نے کہا۔ تو چلو آج لگے ہاتھوں اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام بھی لے لیا جائے گا۔ واللہ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ تانگے والا صاحبِ ذوق ہے۔ وہ نظم ضرور پڑھی ہو گئی اُس نے۔ ‘‘

اس کے بعد دیر تک میموں کے متعلق گفتگو ہوتی رہی۔ میں اور مسعود میموں کے بالکل قائل نہیں تھے۔ لیکن فخر کو عورتوں کی یہ قسم پسند تھی‘‘

ان کا علم سائنٹیفک ہوتا ہے یعنی یہ عورتیں بڑے سائنٹیفک طریقے پر اپنا کاروبار چلاتی ہیں۔ ان کے مقابلے میں مشرقی عورتوں کو رکھیے تو وہی نظر آئے گا جو ہمارے یہاں کی ریوڑی اور وہاں کی ٹافی میں ہے۔ بھئی دراصل بات یہ ہے کہ ان میموں کا پیکنگ بڑا اچھا ہوتا ہے‘‘

میں نے کہا۔ فخر! ممکن ہے تمہارا نظریہ درست ہو مگر بھائی میں ایسے موقعوں پر زبان کی مشکلات برداشت نہیں کر سکتا۔ میں اپنے دفتر میں بڑے صاحب کے ساتھ انگریزی بول سکتا ہوں۔ میں یہاں دہلی میں رہ کر اس تانگے والے سے اُردو میں بات چیت کرنا گوارہ کر سکتا ہوں۔ مگر اس موقعہ پر انگریزی میں گفتگو نہیں کر سکتا۔ میری پتلون انگریزی، میری ٹائی انگریزی، میرا شو انگریزی۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب چیزیں انگریزی میں ہو سکتی ہیں۔ مگر خدا کے لیے وہ چیز مجھ سے انگریزی میں کیسے ہو سکتی ہے‘‘

فخر اپنا نظریہ بھول کر ہنسنے لگا۔ مسعود شاید ابھی تک اپنے دوست کی لکھی ہوئی نظم پر غور کر رہا تھا۔ جس میں شاعر نے ایک فرنگی عورت کے ہونٹ چُوس کر اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ دفعتہ چونک کر اُس نے کہا۔ ‘‘

کیوں بھئی یہ تانگہ کب تک چلتا رہے گا؟‘‘

تانگے والے نے ایک دم باگیں کھینچ کر تانگہ ٹھہرا دیا۔ اور فخر سے کہا‘‘

وہ جگہ آ گئی صاحب۔ آپ اکیلے چلیے گا یا۔۔۔۔۔۔۔‘‘

ہم تینوں تانگے والے کے پیچھے پیچھے چل دئیے۔ ایک نیم روشن گلی میں وہ ہمیں لے گیا۔ دلی کی دوسری گلیوں سے یہ گلی کچھ مختلف تھی۔ اس لیے کہ بہت چوڑی تھی۔ دائیں ہاتھ کو ایک منزلہ مکان تھا۔ جس کی کھڑکیوں، دروازوں پر چقیں لٹکی ہوئی تھیں۔ ایک دروازے کی چق اٹھا کر تانگے والا اندر داخل ہو گیا۔ چند لمحات کے بعد باہر آیا۔ اور ہمیں اندر لے گیا۔ کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔ میں نے جب کہا۔

’’بھائی ہم کہیں اوندھے منہ نہ گر پڑیں‘‘

تو دوسرے کمرے سے کسی عورت کی بھدّی آواز سنائی دی۔ لالٹین تو لے گیا ہوتا تو‘‘

اور تھوڑی ہی دیر کے بعد تانگے والا ایک اندھی سی لالٹین لے کر نمودار ہوا۔ چلیے اندر تشریف لے چلیے۔ ‘‘

ہم تینوں اندر تشریف لے گئے۔ دو کالی بھجنگی انتہائی بدصورت عورتیں نظر آئیں۔ جنہوں نے ڈھیلے ڈھیلے فراک پہن رکھے تھے۔۔۔۔یہ میمیں تھیں۔ میں نے اپنی ہنسی روک کر فخر سے کہا۔

’’کیا لذیذ ٹافیاں ہیں‘‘

میری یہ بات سن کر ان میموں میں سے ایک جس کا سیاہ چہرہ سُرخی لگانے کے باعث زیادہ پکّی ہوئی اینٹ کی سی رنگت اختیار کر گیا تھا۔ ہنسی۔۔۔۔۔ میں بھی ہنس دیا اور بڑے پیار سے پوچھا

’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘

بولی۔

’’لوسی‘‘

شاعر مسعود نے آگے بڑھ کر دوسری سے پوچھا۔

’’آپ کا؟‘‘

اس نے جواب دیا۔

’’میرؔ ی۔ ‘‘

فخر بھی آگے بڑھ آیا۔

’’کیوں صاحب آپ کام کیا کرتی ہیں؟‘‘

دونوں لجا گئیں۔ ایک نے ادا سے کہا۔

’’کیسا بات کرتا ہے تم؟‘‘

دوسری نے کہا۔ چلو جلدی کرو۔ رہنا مانگتا ہے یا نہیں ہمیں روٹی پکانا ہے‘‘

میں نے اس کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ تو گیلے آٹے سے بھرے ہوئے تھے۔ اور وہ اس کی مروڑیاں بنا رہی تھی۔ تانگے والا قطعی طور ہمیں غلط جگہ لے آیا تھا مروڑیاں اس کے ہاتھوں سے کچّے فرش پر گر رہی تھیں۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اناج رو رہا ہے اور یہ مروڑیاں اس کے آنسو ہیں۔ ہم تینوں کے تینوں اس مکان میں آکر سخت پریشان ہو گئے۔ مگر ہم اپنی پریشانی ان دو عورتوں پر ظاہر کرنا نہیں چاہتے تھے۔ ہمیں سخت نااُمیدی ہوئی تھی۔ اگر ہم ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیتے کہ تم ہمارے مطلب کی نہیں ہو تو ضرور ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی۔ عورت جس کے ہاتھ آٹے سے لتھڑے ہوں ایسے جذبات سے عاری نہیں ہو سکتی۔ میں نے اُن دونوں کی تعریف کی۔ فخر نے بھی میرا ساتھ دیا۔ پھر ہم تینوں جلد واپس آنے کا وعدہ کرکے وہاں سے نکل آئے۔ تانگے والا ہمارا مطلب سمجھ گیا تھا۔ چنانچہ اسے چند لمحات کے لیے وہاں ٹھہرنا پڑا۔ جب وہ باہر نکلا۔ تو فخر نے اس سے کہا۔

’’تم انھیں میمیں کہتے ہو؟‘‘

تانگے والے نے بڑی متانت کے ساتھ جواب دیا۔

’’لوگ یہی کہتے ہیں صاحب‘‘

لوگ جھک مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے خیال کیا تھا کہ تم میرا مطلب سمجھ گئے ہو گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خدا کے لیے کسی ایسی جگہ لے چلو، جہاں ہم چند گھڑیاں اپنا دل بہلا سکیں۔ ‘‘

مسعود نے تینوں کا اجتماعی مقصد اور زیادہ واضح کرنے کی کوشش کی۔ دیکھو ہم ایسی جگہ جانا چاہتے ہیں۔ جہاں کچھ عرصے کے لیے بیٹھ سکیں۔۔۔۔۔ ہمیں ایسی عورت کے پاس لے چلو جو باتیں کرنے کا سلیقہ رکھتی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی ہم کورے نہیں ہیں کسی فوج کے سپاہی نہیں ہیں۔ تین شریف آدمی ہیں۔ جنہیں عورت سے بات چیت کیے برسوں گزر چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’تو چلیے بیٹھیے آپ کو صدر بازار لے چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘

فخر نے پوچھا

’’کون ہے وہاں؟‘‘

تانگے والے نے گھوڑے کی باگیں تھام کر جواب دیا۔ ایک پنجابن ہے بہت لوگ آتے ہیں اُس کے پاس۔ ‘‘

تانگے نے پنجابن کے گھر کا رُخ کیا۔ راستے میں ان دو میموں کا ذکر چھڑ گیا۔ ہم میں سے ہر ایک کو وہاں جانے کا افسوس تھا۔ اس لیے کہ ہم سب سے زیادہ وہ نااُمید ہوئی تھیں۔ میں نے ان کو کچھ روپے دے دئیے ہوتے۔ مگر یہ بھیک ہو جاتی۔۔۔۔۔ فخر نے ہماری اس گفتگو میں زیادہ حصّہ نہ لیا۔ وہ چاہتا تھا کہ ان کا ذکر نہ کیا جائے۔ لیکن جب تک تانگہ پنجابن کے گھر تک، نہ پہنچا ان کا ذکر ہوتا رہا۔ تانگہ ایک فراخ بازار میں فٹ پاتھ کے پاس رُکا۔ طویلے کے ساتھ والا مکان تھا۔ جدھر کا ہم چاروں نے رُخ کیا۔ زینہ طے کرکے ہم اوپر پہنچے۔ سامنے پیخانہ تھا۔ دروازے سے بے نیاز۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی پرانی وضع کا مغلئی کمرہ تھا۔ جس میں ہم چاروں داخل ہوئے۔ اس کمرے کے آخری سرے پر چار آدمی بیٹھے فلاش کھیلنے میں مصروف تھے۔ جو ہماری آمد سے غافل رہے۔ البتہ وہ عورت جو ان کے پاس کھڑی تھی۔ اور ایک آدمی کے پتّوں میں دلچسپی لے رہی تھی۔ آہٹ پاکر ہماری طرف آئی۔ یہاں بھی لالٹین کی مدھم روشنی تھی۔ جس کو فلاش کھیلنے والے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ جب وہ فخر کے پاس آئی اور کولھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ تو میں نے غور سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی عمر کم از کم پینتیس برس کے قریب تھی۔ چھاتیاں بڑی بڑی تھیں۔ جو اس نے بیہودہ اور فحش انداز سے اوپر کو اٹھا رکھی تھیں۔ تنگ ماتھے پر نیلے رنگ کا چاند کھُداہوا تھا جب وہ مسعود کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ تو مجھے اس کے سامنے کے دو دانتوں میں سونے کی کیلیں نظر آئیں۔۔۔۔۔ بڑی خوفناک عورت تھی۔ اس کا منہ کچھ اس انداز سے کھلتا تھا۔ جیسے لیموں نچوڑنے والی مشین کا کھلتا ہے۔ اس نے فخر کو آنکھ ماری اور پوچھا۔

’’کہو کیا بات ہے؟‘‘

فخر نے بچے کی طرح کہا۔

’’آپ کا نام؟‘‘

اس نے کولھے پر ہاتھ رکھے ہم تینوں کو باری باری دیکھا۔

’’گلزار‘‘

فخر نے فوراً ہی معذرت کی۔

’’ہم گلاب کے یہاں آئے تھے۔ غلطی سے ادھر چلے آئے۔ معاف کر دیجیے گا۔ ‘‘

یہ سُن کر وہ فخر کے ہاتھ سے سگریٹ چھین کر کش لگاتی فلاش کھیلنے والوں کے پاس چلی گئی۔ جو ابھی تک ہماری آمد سے غافل تھے۔ نیچے اتر کر ہم تینوں نے تانگے والے کو پھر اپنا مطلب سمجھایا اور اس کو بتایا کہ ہم کس قسم کی عورت چاہتے ہیں۔ اس نے ہم تینوں کا لکچر سُنا اور کہا۔

’’آپ تھوڑے لفظوں میں مجھے بتائیے کہ آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟‘‘

میں نے تنگ آ کر فخر سے کہا۔

’’بھئی تم ہی اُسے ان تھوڑے لفظوں میں سمجھاؤ جو تمہارے پاس باقی رہ گئے ہیں۔ ‘‘

فخر نے اسے سمجھایا

’’دیکھو ہمیں کسی لڑکی کے پاس لے چلو۔۔۔۔ ایسی عورت کے پاس جو سولہ سترہ برس کی ہو۔ اس سے زیادہ ہر گز نہ ہو۔ سمجھے؟‘‘

تانگے والے نے کمبل کی بُکل مار کے باگیں تھامیں اور کہا۔

’’آپ نے پہلے ہی کہہ دیا ہوتا۔ چلیے۔۔۔۔ اب آپ کو ٹھیک جگہ پر لے چلوں گا۔ ‘‘

آدھے گھنٹے کے بعد وہ ٹھیک جگہ بھی آ گئی۔۔۔۔۔۔ خدا معلوم کونسا بازار تھا دوسری منزل پر ایک بیٹھک سی تھی جس کے دروازے پر موٹا اور میلا ٹاٹ لٹک رہا تھا۔ جب ہم اندر داخل ہُوئے تو سامنے آنگن میں ایک دیہاتی بڑھیا چولھا جھونک رہی تھی۔۔۔۔۔۔ مٹی کے کُونڈے میں گُندھا ہوا آٹا پاس ہی پڑا تھا۔ دُھواں اس قدر تھا۔ کہ اندر داخل ہوتے ہی ہماری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بڑھیا نے چولھے میں لکڑیاں جھاڑ کر ہماری طرف دیکھا۔ اور تانگے والے سے دیہاتی لہجے میں کہا۔

’’انھیں اندر لے جاؤ۔ ‘‘

تانگے والے نے اندھیرے کمرے میں دیا سلائی جلا کر ہمیں داخل کیا اور کیل سے لٹکی ہوئی لالٹین کو روشن کرکے باہر چلا گیا۔ میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ کونے میں ایک بہت بڑا پلنگ تھا جس کے پائے رنگین تھے۔ اس پر میلی سی چادر بچھی ہوئی تھی۔ تکیہ بھی پڑا تھا۔ جس پر سُرخ رنگ کے پُھول کڑھے ہوئے تھے۔ پلنگ کے ساتھ والی دیوار کی کانس پر ایک میلی بوتل اور لکڑی کی کنگھی پڑی تھی۔ اس کے دانتوں پر سر کا میل اور کئی بال پھنسے ہُوئے تھے۔ پلنگ کے نیچے ایک ٹُوٹا ہوا ٹرنک تھا۔ جس پر ایک کالی گرگابی رکھی تھی۔ مسعود اور فخر دونوں پلنگ پر بیٹھ گئے۔ میں کھڑا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک پست قد لڑکی اپنے سے دوگنا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کرتی اندر داخل ہوئی۔ فخر اور مسعود اُٹھ کھڑے ہُوئے۔ جب وہ لالٹین کی روشنی میں آئی۔ تو میں نے اسے دیکھا۔ اس کی عمر بمشکل چودہ برس کے قریب ہو گی۔ چھاتیاں آڑو کے برابر تھیں مگر اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اپنے جسم کو پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل چکی ہے، بہت آگے۔ جہاں شاید اس کی ماں بھی نہیں پہنچ سکی۔ جو باہر آنگن میں چولھا جھونک رہی تھی۔ اس کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔ اور اس انداز سے اپنا ایک ہاتھ ہلا رہی تھی۔ جیسے مکار دوکاندار کی طرح ڈنڈی مارے گی۔ اور کبھی پورا تول نہیں تولے گی۔ ہم تینوں اُس کو حیرت بھری نظروں سے دیکھتے رہے۔ فخر شرم بھی محسوس کر رہا تھا۔ مسعود کی ساری شاعری سمٹ کر شاید اُس کے ناخنوں میں چلی آئی۔ کیونکہ وہ بُری طرح انھیں دانتوں سے کاٹ رہا تھا۔ میں نے ایک بار پھر اس کی طرف دیکھا۔ جیسے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ ٹھنگنی سی لڑکی تھی۔ جو ایک بہت بڑا میلا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ رنگ گہرا سانولا۔ بدن کی ساخت سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ بڑی تیزی سے چلی ہوئی گاڑی ہے۔ جو اب ایک دم رُک گئی ہے۔ اس پہّیوں میں بریک لگ گئے ہیں۔ اور وہیں کھڑے کھڑے اس کا رنگ وروغن دُھوپ اور بارش میں اُڑ گیا ہے۔ اس عمر میں بھدّی سے بھدّی لڑکی کے جسم پر جو ایک قسم کی شوخ جاذبیت ہوتی ہے اس میں بالکل نہیں تھی۔ کپڑوں کے باوجود وہ ننگی دکھائی دیتی تھی۔ بہت ہی بیہودہ اور ناواجب طریقے پر ننگی۔۔۔۔۔۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ میں اس سے کچھ کہنے ہی والا تھاکہ اس کے عقب سے ایک بڈھا نمودار ہوا۔ بالکل سفید داڑھی۔ سرضعف کے باعث ہل رہا تھا۔ لڑکی نے دیہاتی زبان میں اس سے کچھ کہا۔ جس کا مطلب میں صرف اس قدر سمجھا کہ وہ بڈھا اس کا نانا ہے۔ ہم تینوں صحیح معنوں میں اُٹھ بھاگے۔ نیچے بازار میں پہنچے تو ہمارا تکدّر کچھ دُور ہُوا۔ بڈھے اور لڑکی کو دیکھ کر ہمارے جمالیاتی ذوق کو بہت ہی شدید صدمہ پہنچا تھا۔ دیر تک ہم چُپ چاپ رہے۔ فخر ٹہلتا رہا۔ مسعود ایک کونے میں پیشاب کرنے کے لیے بیٹھ گیا۔ میں اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اوپر آسمان کی طرف دیکھتا رہا۔ جہاں نامکمل چاند بالکل اس زرد بیسوا لونڈیا کی طرح جس کے جسم کا نچلا حصّہ قطعی طور پر غیر نسوانی تھا۔ بادل کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کا دوپٹہ اوڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اس سے کچھ دور چھوٹا سفید ٹکڑا اس کے نانا کے ضعیف سر کی طرح لرز رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ! میرے بدن پر جھرجھری طاری ہو گئی۔ ہم غالباً دس بارہ منٹ تک بازار میں کھڑے رہے۔ اس کے بعد تانگے والا نیچے اُترا۔ فخر کے پاس جا کر اس نے کہا۔

’’آپ نے آٹھ بجے تانگہ لیا تھا۔۔۔۔۔۔ اب گیارہ بج چکے ہیں۔ تین گھنٹوں کے پیسے دے دیجیے۔ ‘‘

فخر نے کچھ کہے بغیر دو روپے اُس کو دے دئیے۔ روپے لے کر وہ مُسکرایا

’’بابو جی آپ کو کچھ پہچان نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایسی کراری لونڈیا تو شہر بھر میں نہیں ملے گی آپ کو۔۔۔۔۔۔ خیر آپ کو اختیار۔۔۔۔۔۔ تانگے میں بیٹھیے میں ابھی آیا۔ ‘‘

اُس کو اوپر جانے کی زحمت نہ اُٹھانا پڑی۔ کیونکہ سفید ریش بڈھا اُس کے پیچھے پیچھے چلا آیا تھا۔ اور موری کے پاس کھڑا اپنا ضعیف سر ہلا رہا تھا۔ اُس کو دو روپے دے کر جب ٹانگے والے نے باگیں تھامیں تو اس کی سنجیدگی غائب تھی۔ ‘‘

چل بیٹا۔ کہہ کر اس نے اپنی بھدّی مگر مسّرت بھری آواز میں گانا شروع کر دیا۔

’’ساون کے نظارے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لالا۔ ‘‘

سعادت حسن منٹو

ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے

دیوان ششم غزل 1886
کافر بتوں سے مل کے مسلمان کیا رہے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
شمشیر اس کی حصہ برابر کرے ہے دو
ایسی لگی ہے ایک تو ارمان کیا رہے
ہے سر کے ساتھ مال و منال آدمی کا سب
جاتا رہے جو سر ہی تو سامان کیا رہے
ویرانی بدن سے مرا جی بھی ہے اداس
منزل خراب ہووے تو مہمان کیا رہے
اہل چمن میں میں نے نہ جانا کسو کے تیں
مدت میں ہو ملاپ تو پہچان کیا رہے
حال خراب جسم ہے جی جانے کی دلیل
جب تن میں حال کچھ نہ رہے جان کیا رہے
جب سے جہاں ہے تب سے خرابی یہی ہے میر
تم دیکھ کر زمانے کو حیران کیا رہے
میر تقی میر

تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا

دیوان پنجم غزل 1554
عشق صمد میں جان چلی وہ چاہت کا ارمان گیا
تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا
میں جو گدایانہ چلایا در پر اس کے نصف شب
گوش زد آگے تھے نالے سو شور مرا پہچان گیا
آگے عالم عین تھا اس کا اب عین عالم ہے وہ
اس وحدت سے یہ کثرت ہے یاں میرا سب گیان گیا
مطلب کا سررشتہ گم ہے کوشش کی کوتاہی نہیں
جو طالب اس راہ سے آیا خاک بھی یاں کی چھان گیا
خاک سے آدم کر دکھلایا یہ منت کیا تھوڑی ہے
اب سر خاک بھی ہوجاوے تو سر سے کیا احسان گیا
ترک بچے سے عشق کیا تھا ریختے کیا کیا میں نے کہے
رفتہ رفتہ ہندستاں سے شعر مرا ایران گیا
کیونکے جہت ہو دل کو اس سے میر مقام حیرت ہے
چاروں اور نہیں ہے کوئی یاں واں یوں ہی دھیان گیا
میر تقی میر

اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں

دیوان چہارم غزل 1462
عالم علم میں ایک تھے ہم وے حیف ہے ان کو گیان نہیں
اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں
کس امید پہ ساکن ہووے کوئی غریب شہر اس کا
لطف نہیں اکرام نہیں انعام نہیں احسان نہیں
ہائے لطافت جسم کی اس کے مر ہی گیا ہوں پوچھو مت
جب سے تن نازک وہ دیکھا تب سے مجھ میں جان نہیں
کیا باتوں سے تسلی ہو دل مشکل عشقی میری سب
یار سے کہنے کہتے ہیں پر کہنا کچھ آسان نہیں
شام و سحر ہم سرزدہ دامن سر بگریباں رہتے ہیں
ہم کو خیال ادھر ہی کاہے ان کو ادھر کا دھیان نہیں
جان کے میں تو آپ بنا ہوں ان لڑکوں میں دیوانہ
عقل سے بھی بہرہ ہے مجھ کو اتنا میں نادان نہیں
پائوں کو دامن محشر میں ناچاری سے ہم کھینچیں گے
لائق اپنی وحشت کے اس عرصے کا میدان نہیں
چاہت میں اس مایۂ جاں کی مرنے کے شائستہ ہوئے
جا بھی چکی ہے دل کی ہوس اب جینے کا ارمان نہیں
شور نہیں یاں سنتا کوئی میر قفس کے اسیروں کا
گوش نہیں دیوار چمن کے گل کے شاید کان نہیں
میر تقی میر

آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے

دیوان سوم غزل 1253
شور کیا جو اس کی گلی میں رات کو ہیں سب جان گئے
آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے
عہد میں اس کی یاری کے خوں دل میں ہوئے ہیں کیا کیا چائو
خاک میں آخر ساتھ ہی میرے سب میرے ارمان گئے
موت جو آئے سر پر انساں دست و پا گم کرتا ہے
دیکھتے ہی شمشیر بکف کچھ آج اسے اوسان گئے
مہلت عمر دوروزہ کتنی کریے فضولی کاہے پر
آئے جو ہیں دنیا میں ہم تو جیسے کہیں مہمان گئے
ہاتھ لگا وہ گوہر مقصد جیسا ہے معلوم ہمیں
محو طلب ہو اہل طلب سب خاک بھی یاں کی چھان گئے
کہیے سلوک انھوں کے کیا کیا چھیڑ تجاہل کی ہے نئی
نکلے تھے اس رستے سو وے جان کے بھی انجان گئے
میر نظر کی دل کی طرف کی عرش کی جانب فکر بہت
تھی جو طلب مطلوب کی ہم کو کیدھر کیدھر دھیان گئے
میر تقی میر

مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا

دیوان سوم غزل 1064
کیا رویئے ہمیں کو یوں آن کر کے مارا
مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا
تربت کا میری لوحہ آئینے سے کرے ہے
یعنی کہ ان نے مجھ کو حیران کر کے مارا
بیگانہ جان ان نے کیا چوٹ رات کو کی
منھ دیکھ دیکھ میرا پہچان کر کے مارا
پہلے گلے لگایا پھر دست جور اٹھایا
مارا تو ان نے لیکن احسان کر کے مارا
اس سست عہد نے کیا کی تھی قسم مجھی سے
بہتوں کو ان نے عہد و پیمان کر کے مارا
حاضر یراق ہونا کاہے کو چاہیے تھا
مجھ بے نوا کو کیا کیا سامان کر کے مارا
کہنے لگا کہ شب کو میرے تئیں نشہ تھا
مستانہ میر کو میں کیا جان کر کے مارا
میر تقی میر

ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں

دیوان اول غزل 306
جو حیدری نہیں اسے ایمان ہی نہیں
ہو گر شریف مکہ مسلمان ہی نہیں
وہ ترک صید پیشہ مرا قصد کیا کرے
دبلے پنے سے تن میں مرے جان ہی نہیں
خال و خط ایسے فتنے نگاہیں یہ آفتیں
کچھ اک بلا وہ زلف پریشان ہی نہیں
ہیں جزو خاک ہم تو غبار ضعیف سے
سر کھینچنے کا ہم کنے سامان ہی نہیں
دیکھی ہو جس نے صورت دلکش وہ ایک آن
پھر صبر اس سے ہو سکے امکان ہی نہیں
خورشید و ماہ و گل سبھی اودھر رہے ہیں دیکھ
اس چہرے کا اک آئینہ حیران ہی نہیں
یکساں ہے تیرے آگے جو دل اور آرسی
کیا خوب و زشت کی تجھے پہچان ہی نہیں
سجدہ اس آستاں کا نہ جس کے ہوا نصیب
وہ اپنے اعتقاد میں انسان ہی نہیں
کیا تجھ کو بھی جنوں تھا کہ جامے میں تیرے میر
سب کچھ بجا ہے ایک گریبان ہی نہیں
میر تقی میر

اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 88
لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کہ یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا
کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا
کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا
اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا
کیا جانئے، کیسے تیری پہچان میں آیا
وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں
اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا
آفتاب اقبال شمیم

آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی رِدا تان سکوں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 138
کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں
آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی رِدا تان سکوں
میں سمندر ہوں، نہ توُ میرا شناور، پیارے
توُ بیاباں ہے نہ میں خاک تری چھان سکوں
رُوئے دِلبر بھی وہی، چہرۂ قاتل بھی وہی
توُ کبھی آنکھ ملائے تو میں پہچان سکوں
وقت یہ اور ہے، مجھ میں یہ کہاں تاب کہ میں
یاریاں جھیل سکوں، دُشمنیاں ٹھان سکوں
جب ستم ہے یہ تعارف ہی تو کیسا ہو، اگر
میں اُسے جاننے والوں کی طرح جان سکوں
عرفان صدیقی

عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 10
پکارتا ہے مگر دھیان میں نہیں آتا
عجیب حرف ہے امکان میں نہیں آتا
بس ایک نام ہے اپنا نشاں، جو یاد نہیں
اور ایک چہرہ جو پہچان میں نہیں آتا
میں گوشہ گیر ہوں صدیوں سے اپنے حجرے میں
مصافِ بیعت و پیمان میں نہیں آتا
مجھے بھی حکم نہیں شہر سے نکلنے کا
مرا حریف بھی میدان میں نہیں آتا
میں اس ہجوم میں کیوں اس قدر اکیلا ہوں
کہ جمع ہو کے بھی میزان میں نہیں آتا
مرے خدا، مجھے اس آگ سے نکال کہ تو
سمجھ میں آتا ہے، ایقان میں نہیں آتا
عرفان صدیقی

یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 467
پہلو میں آ کہ اپنا ہو عرفان سائیکی
یہ رات چاند رات ہے کم آن سائیکی
میرے سگار میں رہے جلتے تمام عمر
احساس، خواب، آگہی، وجدان، سائیکی
اٹکا ہوا ہے خوف کے دھڑ میں مرا دماغ
وحشت زدہ خیال، پریشان سائیکی
باہر مرے حریمِ حرم سے نکل کے آ
اپنے چراغِ طور کو پہچان سائیکی
رستہ نجات کا ترے لاکٹ میں بند ہے
باہر کہیں نہیں کوئی نروان سائیکی
لاکھوں بلیک ہول ہیں مجھ میں چھپے ہوئے
میری خلاؤں سے بھی ہے سنسان سائیکی
کیا تُو برہنہ پھرتی ہے میری رگوں کے بیچ
میرے بدن میں کیسا ہے ہیجان سائیکی
خالی ہے دیکھ یاد کی کرسی پڑی ہوئی
سونا پڑا ہے شام کا دالان سائیکی
دریا نکل بھی سکتا ہے صحرائے چشم سے
تجھ میں دھڑکتا ہے کوئی طوفان سائیکی
یہ گیت یہ بہار یہ دستک یہ آہٹیں
یہ کیا کسی کا رہ گیا سامان سائیکی
یہ حسرتیں یہ روگ یہ ارماں یہ درد و غم
کرتی ہو جمع میر کا دیوان، سائیکی
شاخوں سے بر گ و بارکی امید کیا کروں
پہنچا ہوا جڑوں میں ہے سرطان سائیکی
ممکن ہے تجھ سے اپنی ملاقات ہوکبھی
موجود ہیں بڑے ابھی امکان سائیکی
گرداب کھینچ سکتے ہیں پاتال کی طرف
کوئی جہاز کا نہیں کپتان سائیکی
پھر ڈھونڈتا ہے تیرے خدو خال روح میں
منصور کا ہے پھر نیا رومان سائیکی
منصور آفاق

کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 11
نکھری صبحیں ، بکھری شامیں ، راتیں ہیں سنسان
کیا جانے کس اور گئے ہیں خوابوں کے مہمان
سرمایہ ہیں تیرے سپنے ، حاصل تیرے خواب
تیری یاد کا چہرہ میری ذات کی ہے پہچان
کاش کوئی آ،تاپے اپنی نرم و ملائم شام
روح میں جلتا دیکھوں دن بھر غم کا آتش دان
کس کا چہرہ جنس زدہ ہے ، کس کا جسم غلیظ
کون زمیں کی پیٹھ پہ پھوڑا تُو یا پاکستان
تیس برس کی اک لڑکی کا جیسے کومل جسم
دوبالشت جب ہوجائے منصور سنہری دھان
منصور آفاق