ٹیگ کے محفوظات: پہنا

میرا کون یہاں رہتا تھا

میں اِس شہر میں کیوں آیا تھا
میرا کون یہاں رہتا تھا
گونگے ٹیلو! کچھ تو بولو
کون اِس نگری کا راجا تھا
کن لوگوں کے ہیں یہ ڈھانچے
کن ماؤں نے اِن کو جنا تھا
کس دیوی کی ہے یہ مورت
کون یہاں پوجا کرتا تھا
کس دُنیا کی کوتا ہے یہ
کن ہاتھوں نے اِسے لکھا تھا
کس گوری کے ہیں یہ کنگن
یہ کنٹھا کس نے پہنا تھا
کن وقتوں کے ہیں یہ کھلونے
کون یہاں کھیلا کرتا تھا
بول مری مٹی کی چڑیا
تو نے مجھ کو یاد کیا تھا
ناصر کاظمی

ہمیں ہر حال میں غزل کہنا

نت نئی سوچ میں لگے رہنا
ہمیں ہر حال میں غزل کہنا
صحنِ مکتب میں ہمسِنوں کے ساتھ
سنگریزوں کو ڈھونڈتے رہنا
گھر کے آنگن میں آدھی آدھی رات
مل کے باہم کہانیاں کہنا
دن چڑھے چھاؤں میں ببولوں کی
رَمِ آہو کو دیکھتے رہنا
ابر پاروں کو، سبزہ زاروں کو
دیکھتے رہنا سوچتے رہنا
شہر والوں سے چھپ کے پچھلی رات
چاند میں بیٹھ کر غزل کہنا
ریت کے پھول، آگ کے تارے
یہ ہے فصلِ مراد کا گہنا
سوچتا ہوں کہ سنگِ منزل نے
چاندنی کا لباس کیوں پہنا
کیا خبر کب کوئی کرن پھوٹے
جاگنے والو جاگتے رہنا
ناصر کاظمی

تری آواز اب تک آ رہی ہے

خموشی اُنگلیاں چٹخا رہی ہے
تری آواز اب تک آ رہی ہے
دلِ وحشی لیے جاتا ہے لیکن
ہوا زنجیر سی پہنا رہی ہے
ترے شہرِ طرب کی رونقوں میں
طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے
کرم اے صرصرِ آلامِ دوراں
دلوں کی آگ بجھتی جا رہی ہے
کڑے کوسوں کے سناٹے ہیں لیکن
تری آواز اب تک آ رہی ہے
طنابِ خیمۂ گل تھام ناصرؔ
کوئی آندھی اُفق سے آ رہی ہے
ناصر کاظمی

کون ہے جو دل مرا بہلا سکے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
حسن شاخوں کا انہیں لوٹا سکے
کون ہے جو دل مرا بہلا سکے
آسماں کے، اِس زمیں کے، دہر کے
دل یہ کس کس کے ستم گنوا سکے
اُس ہوا کی خنکیاں کس کام کی
روح کے گھاؤ نہ جو سہلا سکے
سانس تک بھی قرض کا لیتا ہے جب
آدمی کس بات پر اِترا سکے
آس دوشیزہ ہے وہ جس کو کبھی
ہم نہ انگوٹھی کوئی پہنا سکے
خود سرِ دربارِ شہ عریاں ہے جو
ذوق کیا خلعت ہمیں دلوا سکے
ماجد صدیقی

عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
مکتبِ تخلیقِ فن میں حال یہ اپنا ہوا
عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا
بہرِ ردِ عذر ہے بادِ خنک لایا ضرور
ابر کشتِ خشک تک پہنچا ہے پر برسا ہُوا
سرو سا اُس کا سراپا ہے الف اظہار کا
ہے جبینِ خامشی پر جو مری لکھا ہُوا
رنگ میں ڈوبا ہوا ہر دائرہ اُس جسم کا
پیرہن خوشبو کا ہے ہر شاخ نے پہنا ہوا
ہر نظر شاخِ سخن ہے پھول پتّوں سے لدی
ہے خمارِ آرزُو کچھ اِس طرح چھایا ہُوا
تجھ پہ بھی پڑنے کو ہے ماجدؔ نگاہِ انتخاب
ہے ترا ہر لفظ بھی اُس جسم سا ترشا ہُوا
ماجد صدیقی