ٹیگ کے محفوظات: پھن

درد کی خامشی کا سخن پھول ہے

درد کانٹا ہے اس کی چبھن پھول ہے
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے
اُڑتا پھرتا ہے پھلواریوں سے جدا
برگِ آوارہ جیسے پون پھول ہے
اس کی خوشبو دکھاتی ہے کیا کیا سمے
دشتِ غربت میں یادِ وطن پھول ہے
تختہِ ریگ پر کوئی دیکھے اسے
سانپ کے زہر میں رس ہے پھن پھول ہے
میری لے سے مہکتے ہیں کوہ و دَمن
میرے گیتوں کا دِیوانہ پن پھول ہے
ناصر کاظمی

بارش کی ہَوا میں بن سمیٹے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 107
من تھکنے لگا ہے تن سمیٹے
بارش کی ہَوا میں بن سمیٹے
ایسا نہ ہو ، چاند بھید پا لے
پیراہنِ گُل شِکن سمیٹے
سوتی رہی آنکھ دن چڑھے تک
دُلہن کی طرح تھکن سمیٹے
گُزرا ہے چمن سے کون ایسا
بیٹھی ہے ہوا بدن سمیٹے
شاخوں نے کلی کو بد دُعا دی
بارش ترا بھولپن سمیٹے
آنکھوں کے طویل رتجگوں پر
چاند آیا بھی تو گہن سمیٹے
احوال مرا وہ پوچھتا تھا
لہجے میں بڑی چبھن سمیٹے
اندر سے شکست وہ بھی نکلا
لیکن وہی بانکپن سمیٹے
شام آئے تو ہم بھی گھر کو لوٹیں
چڑیوں کی طرح تھکن سمیٹے
خود جنگ سے دست کش تھے ہم لوگ
جذبات میں ایک رن سمیٹے
آنکھوں کے چراغ ہم بجھا دیں
سُورج بھی مگر کرن سمیٹے
بس پیار سے مِل رہے ہیں کچھ لوگ
چمکیلے بدن میں پھن سمیٹے
پھر ہونے لگی ہوں ریزہ ریزہ
آئے…۔۔مجھے میرا فن سمیٹے
غیروں کے لیے بکھر گئی ہوں
اب مجھ کو مِرا وطن سمیٹے
پروین شاکر

پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے

دیوان اول غزل 546
اب میر جی تو اچھے زندیق ہی بن بیٹھے
پیشانی پہ دے قشقہ زنار پہن بیٹھے
آزردہ دل الفت ہم چپکے ہی بہتر ہیں
سب رو اٹھے گی مجلس جو کرکے سخن بیٹھے
عریان پھریں کب تک اے کاش کہیں آکر
تہ گرد بیاباں کی بالاے بدن بیٹھے
پیکان خدنگ اس کا یوں سینے کے اودھر ہے
جوں مار سیہ کوئی کاڑھے ہوئے پھن بیٹھے
جز خط کے خیال اس کے کچھ کام نہیں ہم کو
سبزی پیے ہم اکثر رہتے ہیں مگن بیٹھے
شمشیر ستم اس کی اب گوکہ چلے ہر دم
شوریدہ سر اپنے سے ہم باندھ کفن بیٹھے
بس ہو تو ادھر اودھر یوں پھرنے نہ دیں تجھ کو
ناچار ترے ہم یہ دیکھیں ہیں چلن بیٹھے
میر تقی میر

ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 559
اوس سے اخذ ہوئے، پہلی کرن سے نکلے
ہم عجب پھول ترے صحنِ چمن سے نکلے
ہم نے اس کے گل و گلزار سے کیا لینا ہے
اپنے اجداد تھے جس باغِ عدن سے نکلے
رات بھر قوسِ قزح پھیلی رہی کمرے میں
رنگ کیا کیا تری خوشبوئے بدن سے نکلے
دیکھ اے دیدئہ عبرت مرے چہرے کی طرف
ایسے وہ ہوتا ہے جو اپنے وطن سے نکلے
سائباں دھوپ کے ہی صرف نہیں وحشت میں
درد کے پیڑ بھی کچھ سایہ فگن سے نکلے
بستیاں ہیں مری، ماضی کے کھنڈر پر آباد
ذہن کیسے بھلا آسیبِ کہن سے نکلے
فوج اب ختم کرے اپنا سیاسی کردار
یہ مرا ملک خداداد گھٹن سے نکلے
یوں جہنم کو بیاں کرتے ہیں کرنے والے
جیسے پھنکار لپکتے ہوئے پھن سے نکلے
تیرے اشعار تغزل سے ہیں خالی منصور
ہم سخن فہم تری بزم سخن سے نکلے
منصور آفاق