ٹیگ کے محفوظات: پھرے

لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
یہ دورِ کرب جو بھی کہے سو کہے مجھے
لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے
جس موج کو گلے سے لگاتا ہوں بار بار
ایسا نہ ہو یہ موجِ الم لے بہے مجھے
میں خود ہی کھِل اُٹھوں گا شگفتِ بہار پر
موسم یہ ایک بار سنبھالا تو دے مجھے
سایہ ہوں اور رہینِ ضیا ہے مرا وجود
سورج کہیں نہ ساتھ ہی لے کر ڈھلے مجھے
ماجدؔ ہو کوئی ایسی تمّنا کہ رات دن
بادِ صبا کے ساتھ اُڑاتی پھرے مجھے
ماجد صدیقی

کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 142
سینہ دہک رہا ہو تو کیا چُپ رہے کوئی
کیوں چیخ چیخ کر نہ گلا چھیل لے کوئی
ثابت ہُوا سکونِ دل و جان نہیں کہیں
رشتوں میں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈا کرے کوئی
ترکِ تعلقات تو کوئی مسئلہ نہیں
یہ تو وہ راستہ ہے کہ چل پڑے کوئی
دیوار جانتا تھا جسے میں، وہ دھول تھی
اب مجھ کو اعتماد کی دعوت نہ دے کوئی
میں خود یہ چاہتا ہوں کہ حالات ہوں خراب
میرے خلاف زہر اُگلتا پھرے کوئی
اے شخص اب تو مجھ کو سبھی کچھ قبول ہے
یہ بھی قبول ہے کہ تجھے چھین لے کوئی
ہاں ٹھیک ہے میں اپنی اَنا کا مریض ہوں
آخر مرے مزاج میں کیوں دخل دے کوئی
اک شخص کر رہا ہے ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
جون ایلیا