یاؔور جی کی بات نہ پوچھو یاؔور دیوانہ ہے جی
دن کو ہنستا گاتا ہے اور راتوں کو روتا ہے جی
ہم تو تنہا ہی رہتے تھے، تنہا ہی رہنا ہے جی
جاؤ تم بھی چھوڑ کے ہم کو، ہم نے کب روکا ہے جی
یاد کی راکھ کے ڈھیر میں دیکھو پھر شعلہ بھڑکا ہے جی
ہاں پھر شعلہ بھڑکا ہے پھر دل اپنا جھلسا ہے جی
چھوڑو ایسی باتیں، ان باتوں میں کیا رکھا ہے جی
کیا سیدھا ہے، کیا الٹا ہے، سب الٹا سیدھا ہے جی
آپ تو بس اک پتھر ٹھہرے، آپ کا اس میں دوش ہی کیا؟
ہم نے آپ کو خود ہی تراشا اور خود ہی پوجا ہے جی
ہم پر بھی لو چلتی ہے ہم پر بھی آگ برستی ہے
ہم جیسوں کا بھی تو آخر ایک خدا ہوتا ہے جی
اک لڑکا تھا، اک بوڑھے کو آئینوں میں دیکھتا تھا
اب وہ لڑکا خود بوڑھا ہے اور بےحد بوڑھا ہے جی
ہائے سخن ور کیسا تھا وہ، ویسے شعر سنائے کون
یاؔور ویسا کیسے لکھے، یاؔور کب انشاؔ ہے جی؟
یاور ماجد