وہ کارِدل ہو کہ کارِجہاں، لگن سے کیا
فقط لگن سے نہیں، والہانہ پن سے کیا
جہاں تھے مصلحتاً چپ تمام لوگ، وہاں
کلام ہم نے کیا، پورے بانکپن سے کیا
سرے سے مٹ ہی گیا فرقِ ناقص و کامل
مذاق وقت نے وہ اہلِ علم و فن سے کیا
میں بولنے کا نہیں سوچنے کا عادی ہوں
سو میں نے عشق بھی تجھ ایسے کم سخن سے کیا
وہ جس میں حفظِ مراتب کا کچھ لحاظ نہ ہو
گریز ہم نے ہمیشہ اُس انجمن سے کیا
گلاب چبھنے لگے تھے ببول بن کے ہمیں
بلاسبب تو نہیں کوچ اُس چمن سے کیا
کھلا یہ ہم پہ کہ سب رنگ پیرہن کے نہ تھے
جب اُس بدن کو سبک دوش پیرہن سے کیا
میں چاہتا تھا مرا عشق طے ہو مرحلہ وار
سو میں نے بات کا آغاز ہی بدن سے کیا
بہت ہی تھک گیا بے خواب ذہن جب عرفانؔ
علاج اس کا بھی بے انتہا تھکن سے کیا
عرفان ستار