ٹیگ کے محفوظات: پلٹ

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

ساحل تمام اشکِ ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہونچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
بانہوں میں آ سکا نہ حویلی کا اک ستون
پتلی میں میری آنکھ کی صحرا سمٹ گیا
اب کون جائے کوئے ملامت کو چھوڑ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
گنبد کا کیا قصور اسے کیوں کہوں برا
آیا جدھر سے تیر، ادھر ہی پلٹ گیا
رکھتا ہے خود سے کون حریفانہ کشمکش
میں تھا کہ رات اپنے مقابل ہی ڈٹ گیا
جس کی اماں میں ہوں وہ ہی اکتا گیا نہ ہو
بوندیں یہ کیوں برستی ہیں، بادل تو چھٹ گیا
وہ لمحہِ شعور جسے جانکنی کہیں
چہرے سے زندگی کے نقابیں الٹ گیا
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور
رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا
اک حشر سا بپا تھا مرے دل میں اے شکیبؔ
کھولیں جو کھڑکیاں تو ذرا شور گھٹ گیا
شکیب جلالی

دانستہ کھڑا تھا میں ذرا سا پرے ہٹ کر

ڈرتا تھا نہ رہ جاؤں کہیں تجھ سے لپٹ کر
دانستہ کھڑا تھا میں ذرا سا پرے ہٹ کر
ہم ہی اُسے آواز نہ دے پائے وگرنہ
اُس نے تو بڑے پیار سے دیکھا تھا پلٹ کر
اب ڈھونڈنا دشوار ہے اُن کو سرِ محفل
بیٹھے تو وہ ہوں گے کسی گوشے میں سمٹ کر
باصرؔ دلِ ضدی کو تو سمجھانا ہے آخر
نرمی سے نہ مانے تو ذرا ڈانٹ ڈپٹ کر
باصر کاظمی

آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
آروں سے موج موج کے، کیا کیا نہ کٹ گئے
آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے
دیکھا ہمیں قفس میں، تو پوچھی نہ خیر بھی
جھونکے مہک کے آئے اور آ کر، پلٹ گئے
مُٹھی میں بند جیسے، مہاجن کی سیم و زر
کھیتوں کے حق میں ابر، کچھ ایسے سمٹ گئے
سیلاب نے جب اپنے قدم، تیز کر لئے
بادل بھی آسمان سے، اِتنے میں چھٹ گئے
جتنے ہرے شجر تھے، لرزنے لگے تمام
خاشاک تھے کہ سامنے دریا کے ڈٹ گئے
جانے نہ دیں گے، رزق کے بن باس پر کبھی
بچّے کچھ ایسے باپ سے ماجدؔ، چمٹ گئے
ماجد صدیقی

لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
لائے زبان پر تو لبوں میں سمٹ گیا
لکھنے لگے تو لفظ قلم سے چمٹ گیا
طوفاں سے قبل جس پہ رہا برگِ سبز سا
چھُو کر وہ شاخ آج پرندہ پلٹ گیا
غافل ہمارے وار سے نکلا بس اِس قدر
پٹنے لگا تو سانپ چھڑی سے لپٹ گیا
جھپٹا تو جیسے ہم تھے سرنگوں کے درمیاں
دشمن ہماری رہ سے بظاہر تھا ہٹ گیا
ہوتا اُنہیں شکستِ تمنّا کا رنج کیا
بچّے کے ہاتھ میں تھا غبارہ سو پھٹ گیا
ماجدؔ خلا نورد وُہ سّچائیوں کا ہے
اپنی زمیں سے رابطہ جس کا ہو کٹ گیا
ماجد صدیقی

دن تھے جو بُرے وہ کٹ رہے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
طوفان غموں کے چھٹ رہے ہیں
دن تھے جو بُرے وہ کٹ رہے ہیں
اُبھرے تھے نظر میں جو الاؤ
اک ایک وہ اب سمٹ رہے ہیں
اِدبار کے سائے جس قدر تھے
اُمید کی ضو سے گھٹ رہے ہیں
اب جاں کا محاذ پُرسکوں ہے
دشمن تھے جو سر پہ ہٹ رہے ہیں
چہروں سے اُڑے تھے رنگ جتنے
ماجدؔ! وہ سبھی پلٹ رہے ہیں
ماجد صدیقی

بادل تھا برس کے چھٹ گیا ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 142
رونے سے ملال گھٹ گیا ہے
بادل تھا برس کے چھٹ گیا ہے
اب دوش پہ سر نہیں تو گویا
اک بوجھ سا دل سے ہٹ گیا ہے
یہ خلوت جاں میں کون آیا
ہر چیز الٹ پلٹ گیا ہے
کیا مالِ غنیم تھا مرا شہر
کیوں لشکریوں میں‌ بٹ گیا ہے
اب دل میں فراز کون آئے
دنیا سے یہ شہر کٹ گیا ہے
احمد فراز

وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 94
لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے
خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے
ملنا__دوبارہ ملنے کو وعدہ__جُدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے
روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد
بادل جو آسمان پہ چھائے تھے،چھٹ گئے
کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل
آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے
شہرِ وفا میں دُھوپ کا ساتھی کوئی نہیں
سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے
اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہَوا کے،کیسے گلے سے لپٹ گئے
دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی
اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے
پروین شاکر

محور سے زمین ہٹ گئی تھی

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 87
کچھ دیر کو تجھ سے کٹ گئی تھی
محور سے زمین ہٹ گئی تھی
تجھ کو بھی نہ مل سکی مکمل
میں ‌اتنے دکھوں ‌میں بٹ گئی تھی
شاید کہ ہمیں سنوار دیتی
جو شب آ کر پلٹ گئی تھی
رستہ تھا وہی پہ بِن تمہارے
میں گرد میں کیسی اَٹ گئی تھی
پت جھڑ کی گھڑی تھی اور شجر تھے
اک بیل عجب لپٹ گئی تھی
پروین شاکر

وہی ہوا کہ مرا تیر اُچٹ گیا آخر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 89
بہت حسیں تھے ہرن دھیان بٹ گیا آخر
وہی ہوا کہ مرا تیر اُچٹ گیا آخر
ملی نہ جب کوئی راہِ مفر تو کیا کرتا
میں ایک، سب کے مقابل میں ڈٹ گیا آخر
بس اِک اُمید پہ ہم نے گزار دی اِک عمر
بس ایک بوند سے کُہسار کٹ گیا آخر
بچا رہا تھا میں شہ زور دُشمنوں سے اُسے
مگر وہ شخص مجھی سے لپٹ گیا آخر
وہ اُڑتے اُڑتے کہیں دُور اُفق میں ڈوب گیا
تو آسمان پروں میں سمٹ گیا آخر
کھلا کہ وہ بھی کچھ ایسا وفا پرست نہ تھا
چلو، یہ بوجھ بھی سینے سے ہٹ گیا آخر
ہمارے داغ چھپاتیں روایتیں کب تک
لباس بھی تو پُرانا تھا، پھٹ گیا آخر
بڑھا کے ربطِ وَفا اَجنبی پرندوں سے
وہ ہنس اپنے وطن کو پلٹ گیا آخر
عرفان صدیقی

کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 293
مرے نہیں تو کسی کے ملال گھٹ جائیں
کہیں تو بلب جلے اور اندھیرے چھٹ جائیں
تمہارے ظرف سے ساتھی گلہ نہیں کوئی
پہاڑ مجھ سے محبت کریں تو پھٹ جائیں
ترے بدن پر لکھوں نظم کوئی شیلے کی
یہ زندگی کے مسائل اگر نمٹ جائیں
میں رہ گیا تھا سٹیشن پہ ہاتھ ملتے ہوئے
مگر یہ کیسے کہانی سے دو منٹ جائیں
اے ٹینک بان یہ گولان کی پہاڑی ہے
یہاں سے گزریں تو دریا سمٹ سمٹ جائیں
زمینیں روندتا جاتا ہے لفظ کا لشکر
نئے زمانے مری گرد سے نہ اٹ جائیں
چرا لوں آنکھ سے نیندیں مگر یہ خطرہ ہے
کہ میرے خواب مرے سامنے نہ ڈٹ جائیں
گھروں سے لوگ نکل آئیں چیر کے دامن
جو اہل شہر کی آپس میں آنکھیں بٹ جائیں
اب اس کے بعد دہانہ ہے بس جہنم کا
جنہیں عزیز ہے جاں صاحبو پلٹ جائیں
ہزار زلزلے تجھ میں سہی مگر اے دل
یہ کوہسار ہیں کیسے جگہ سے ہٹ جائیں
مرا تو مشورہ اتنا ہے صاحبانِ قلم
قصیدہ لکھنے سے بہتر ہے ہاتھ کٹ جائیں
وہ اپنی زلف سنبھالے تو اس طرف منصور
کھلی کتاب کے صفحے الٹ الٹ جائیں
منصور آفاق