ٹیگ کے محفوظات: پریشانی

’’بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی‘‘

دِلوں کی بات ہے، باہر بآسانی نہیں جاتی
’’بجھا جاتا ہے دل چہرے کی تابانی نہیں جاتی‘‘
الٰہی کیا سبب ہے کیوں ترے بازارِ ہستی میں
ضمیرِ حضرتِ انساں کی ارزانی نہیں جاتی
بہت خوش لوگ ہیں دامِ خِرَد سے جو کہ بچ نکلے
جنوں نا آشناؤں کی پریشانی نہیں جاتی
نہیں ہے خواہشِ منزل کا حق بھی اُس مسافر کو
کہ جس سے راہ و گردِ راہ پہچانی نہیں جاتی
وہی سب جن کے ہاتھوں آج میں اِس حال کو پہنچا
وہ جب روتے ہیں ضامنؔ، میری حیرانی نہیں جاتی
ضامن جعفری

چاند سی شکل تری مُوجبِ طغیانی ہے

بحرِ دل میں یہ جو کیفیتِ ہیجانی ہے
چاند سی شکل تری مُوجبِ طغیانی ہے
یہ شب و روز تو ہر روز بدلتے ہیں رنگ
اور کچھ بات ہے جو باعثِ حیرانی ہے
اب تو تجھ پر بھی کسی اور کا ہوتا ہے گماں
کس قدر دیر میں صورت تِری پہچانی ہے
در و دیوار سے قائم تھا بھرم غربت کا
آج بے پردہ مری بے سروسامانی ہے
بے خودی پر ہی کھُلا کرتے ہیں اسرارِ جہاں
ہوش کہتے ہو جسے تم وہی نادانی ہے
میں جو مغموم ہُوا دل یہ پکارا باصرِؔ
میرے ہوتے تجھے کاہے کی پریشانی ہے
باصر کاظمی

صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 218
چاک کی خواہش ، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
صبح کے مانند ، زخمِ دل گریبانی کرے
جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے
ہے شکستن سے بھی دل نومید ، یارب ! کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ گِرانجانی کرے
میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے
خطِّ عارض سے ، لکھا ہے زُلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے ، جو کچھ پریشانی کرے
مرزا اسد اللہ خان غالب

ان نے جو اس طول سے کھینچا پریشانی کے تیں

دیوان دوم غزل 869
کن نے لپٹے بال دکھلائے ترے مانی کے تیں
ان نے جو اس طول سے کھینچا پریشانی کے تیں
کشتۂ انداز کس کا تھا نہ جانا وہ جواں
لے رہے تھے کچھ ملک اک نعش قربانی کے تیں
چشم کم سے اشک خونیں کو نہ دیکھو زینہار
ڈھونڈتے ہیں مردم اس یاقوت سیلانی کے تیں
طائران خوش معاش اس باغ کے ہم تھے کبھو
اب ترستے ہیں قفس میں اک پر افشانی کے تیں
ہے جہان تنگ سے جانا بعینہ اس طرح
قتل کرنے لے چلیں ہیں جیسے زندانی کے تیں
یہ کہاں بنت العنب سے اٹھتی ہیں کیفیتیں
ہونٹوں سے کیا اس کے نسبت ایسی مستانی کے تیں
دل جو پانی ہو تو آئینہ ہے روے یار کا
خانہ آبادی سمجھ اس خانہ ویرانی کے تیں
فہم میں میرے نہ آیا پردہ در ہے طفل اشک
روئوں کیا اے ہم نشیں میں اپنی نادانی کے تیں
کچھ نظر میں نے نہ کی جی کے زیاں پر اپنے ہائے
دوست میں رکھے گیا اس دشمن جانی کے تیں
جب جلے چھاتی بہت تب اشک افشاں ہو نہ میر
کیا جو چھڑکا اس دہکتی آگ پر پانی کے تیں
میر تقی میر

یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا

دیوان اول غزل 3
نکلے ہے چشمہ جو کوئی جوش زناں پانی کا
یاددہ ہے وہ کسو چشم کی گریانی کا
لطف اگر یہ ہے بتاں صندل پیشانی کا
حسن کیا صبح کے پھر چہرئہ نورانی کا
کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حسن زنار ہے تسبیح سلیمانی کا
درہمی حال کی ہے سارے مرے دیواں میں
سیر کر تو بھی یہ مجموعہ پریشانی کا
جان گھبراتی ہے اندوہ سے تن میں کیا کیا
تنگ احوال ہے اس یوسف زندانی کا
کھیل لڑکوں کا سمجھتے تھے محبت کے تئیں
ہے بڑا حیف ہمیں اپنی بھی نادانی کا
وہ بھی جانے کہ لہو رو کے لکھا ہے مکتوب
ہم نے سر نامہ کیا کاغذ افشانی کا
اس کا منھ دیکھ رہا ہوں سو وہی دیکھوں ہوں
نقش کا سا ہے سماں میری بھی حیرانی کا
بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میر ایسی مسلمانی کا
میر تقی میر

کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 25
کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیِ دل کا
کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا
آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانیِ دل کا
دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانیِ دل کا
پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانیِ دل کا
دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیِ دل کا
اُترے تھے کبھی فیض وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانیِ دل کا
فیض احمد فیض

شب میں حیران ہوا خون کی طغیانی پر

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 90
کب سے راضی تھا بدن بے سر و سامانی پر
شب میں حیران ہوا خون کی طغیانی پر
ایک چہکار نے سناٹے کا توڑا پندار
ایک نو برگ ہنسا دشت کی ویرانی پر
کل بگولے کی طرح اس کا بدن رقص میں تھا
کس قدر خوش تھی مری خاک پریشانی پر
میرے ہونٹوں سے جو سورج کا کنارہ ٹوٹا
بن گیا ایک ستارہ تری پیشانی پر
کون سا شہرِ سبا فتح کیا چاہتا ہوں
لوگ حیراں ہیں مرے کارِ سلیمانی پر
عرفان صدیقی

نقیب و لشکر و تختِ سلیمانی سے کیا ہو گا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 39
یمن ویراں ہوا اب دل کی جولانی سے کیا ہو گا
نقیب و لشکر و تختِ سلیمانی سے کیا ہو گا
قبا سے کیا ہوا ہنگامۂ شوقِ تماشا میں
ہم آنکھیں بند کر لیں گے تو عریانی سے کیا ہو گا
مری دُنیائے جاں میں صرف میرا حکم چلتا ہے
بدن کی خاک پر اوروں کی سلطانی سے کیا ہو گا
یہاں کس کو خبر ہو گی غبارِ شہ سواراں میں
میں خوشبو ہی سہی میری پریشانی سے کیا ہو گا
پھر اک نوبرگ نے روئے بیاباں کر دیا روشن
میں ڈرتا تھا کہ حاصل ایسی ویرانی سے کیا ہو گا
عرفان صدیقی

سر پہ چھایا تو ہے کچھ ابر پریشانی سا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 14
دیکھیے خون میں کیا اٹھتا ہے طغیانی سا
سر پہ چھایا تو ہے کچھ ابر پریشانی سا
ہاتھ میں موجِ ہوا پاؤں تلے ریگِ رواں
سرو ساماں ہے بہت‘ بے سرو سامانی سا
سیکھ لی کس نے مری شکرگزاری کی ادا
ریت پر ایک نشاں اور ہے پیشانی سا
یہ زمیں اِتنی پُراَسرار بنانے والے
کوئی عالم مری آنکھوں کو بھی حیرانی سا
وہ کسی ساعتِ حاصل سا وصال آمادہ
میں کسی لمحۂ نایاب کا زندانی سا
عرفان صدیقی