ٹیگ کے محفوظات: پروردگار

اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 48
سب نے کیے ہیں باغ میں ان پر نثار پھول
اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول
لاتا نہیں کوئی مری تربت پہ چار پھول
نا پیدا ایسے ہو گئے پروردگار پھول
جاتی نہیں شباب میں بھی کم سِنی کی بو
ہاروں میں ان کے چار ہیں کلیاں تو چار پھول
کب حلق کٹ گیا مجھے معلوم بھی نہیں
قاتل کچھ ایسی ہو گئے خنجر کی دھار پھول
یہ ہو نہ ہو مزار کسی مضطرب کا ہے
جب سے چڑھے ہیں قبر پہ ہیں بے قرار پھول
یا رب یہ ہار ٹوٹ گیا کس کا راہ میں
اڑ اڑ کے آ رہے ہیں جو سوئے مزار پھول
او محوِ بزمِ غیر تجھے کچھ خبر بھی ہے
گلشن میں کر رہے ہیں ترا انتظار پھول
اتنے ہوئے ہیں جمع مری قبر پر قمر
تاروں کی طرح ہو نہیں سکتے شمار پھول
قمر جلالوی

جو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گا

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 20
رہا الم سے دلِ داغ دار کیا ہو گا
جو بیڑا ڈوب چکا ہو وہ پار کیا ہو گا
جلا جلا گے پسِ مرگ کیا ملے گا تمھیں
بجھا بجھا کے چراغِ مزار کیا ہو گا
وہ خوب ناز سے انگڑائی لے کے چونکے ہیں
سحر قریب ہے پروردگار کیا ہو گا
اگر ملیں گے یہی پھل تری محبت میں
نہال پھر کوئی امید وار کیا ہو گا
قمر نثار ہو یہ سادگی بھی کیا کم ہے
گلے میں ڈال کے پھولوں کا ہار کیا ہو گا
قمر جلالوی

وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 25
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بے گانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیض
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے
فیض احمد فیض

ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 431
بڑی اداس بڑی بے قرار تنہائی
ذرا سے شہر میں ہے بے شمار تنہائی
مجھے اداسیاں بچپن سے اچھی لگتی ہیں
مجھے عزیز مری اشکبار تنہائی
فراق یہ کہ وہ آغوش سے نکل جائے
وصال یہ کرے بوس و کنار تنہائی
پلٹ پلٹ کے مرے پاس آئی وحشت سے
کسی کو دیکھتے ہی بار بار تنہائی
مرے مزاج سے اس کا مزاج ملتا ہے
میں سوگوار … تو ہے سوگوار تنہائی
کوئی قریب سے گزرے تو جاگ اٹھتی ہے
شبِ سیہ میں مری جاں نثار تنہائی
مجھے ہے خوف کہیں قتل ہی نہ ہو جائے
یہ میرے غم کی فسانہ نگار تنہائی
نواح جاں میں ہمیشہ قیام اس کا تھا
دیارِ غم میں رہی غمگسار تنہائی
ترے علاوہ کوئی اور ہم نفس ہی نہیں
ذرا ذرا مجھے گھر میں گزار تنہائی
یونہی یہ شہر میں کیا سائیں سائیں کرتی ہے
ذرا سے دھیمے سروں میں پکار تنہائی
نہ کوئی نام نہ چہرہ نہ رابطہ نہ فراق
کسی کا پھر بھی مجھے انتظار، تنہائی
جو وجہ وصل ہوئی سنگسار تنہائی
تھی برگزیدہ ، تہجد گزار تنہائی
مری طرح کوئی تنہا اُدھر بھی رہتا ہے
بڑی جمیل، افق کے بھی پار تنہائی
کسی سوار کی آمد کا خوف ہے، کیا ہے
بڑی سکوت بھری، کوئے دار، تنہائی
دکھا رہی ہے تماشے خیال میں کیا کیا
یہ اضطراب و خلل کا شکار تنہائی
بفیضِ خلق یہی زندگی کی دیوی ہے
کہ آفتاب کا بھی انحصار تنہائی
اگرچہ زعم ہے منصور کو مگر کیسا
تمام تجھ پہ ہے پروردگار تنہائی
منصور آفاق