ٹیگ کے محفوظات: پرنم

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 148
تری یادوں کا وہ عالم نہیں ہے
مگر دل کی اداسی کم نہیں ہے
ہمیں بھی یاد ہے مرگِ تمنّا
مگر اب فرصتِ ماتم نہیں ہے
ہوائے قربِ منزل کا بُرا ہو
فراقِ ہمسفر کا غم نہیں ہے
جنونِ پارسائی بھی تو ناصح
مری دیوانگی سے کم نہیں ہے
یہ کیا گلشن ہے جس گلشن میں لوگو
بہاروں کا کوئی موسم نہیں ہے
قیامت ہے کہ ہر مے خوار پیاسا
مگر کوئی حریفِ جم نہیں ہے
صلیبوں پر کھنچے جاتے ہیں لیکن
کسی کے ہاتھ میں پرچم نہیں ہے
فراز اس قحط زارِ روشنی میں
چراغوں کا دھواں بھی کم نہیں ہے
احمد فراز

اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں‌ دوستو

احمد فراز ۔ غزل نمبر 45
تم بھی خفا ہو لوگ بھی برہم ہیں دوستو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں‌ دوستو
کس کو ہمارے حال سے نسبت ہے کیا کریں
آنکھیں‌تو دُشمنوں‌کی بھی پرنم ہیں دوستو
اپنے سوا ہمارے نہ ہونے کا غم کسے
اپنی تلاش میں تو ہمی ہم ہیں دوستو
کچھ آج شام ہی سے ہے دل بھی بجھا بجھا
کچھ شہر کے چراغ بھی مدھم ہیں دوستو
اس شہرِ آرزو سے بھی باہر نکل چلو
اب دل کی رونقیں بھی کوئی دم ہیں دوستو
سب کچھ سہی فراز پر اتنا ضرور ہے
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم ہیں دوستو
احمد فراز

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 75
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 128
شرمندگی ہے ہم کو بہت ہم ملے تمہیں
تم سر بسر خوشی تھے مگر غم ملے تمہیں
میں اپنے آپ میں نہ ملا اس کا غم نہیں
غم تو یہ ہے کہ تم بھی بہت کم ملے تمہیں
ہے جو ہمارا ایک حساب اُس حساب سے
آتی ہے ہم کو شرم کہ پیہم ملے تمہیں
تم کو جہانِ شوق و تمنا میں کیا ملا
ہم بھی ملے تو درہم و برہم ملے تمہیں
اب اپنے طور ہی میں نہیں سو کاش کہ
خود میں خود اپنا طور کوئی دم ملے تمہیں
اس شہرِ حیلہ جُو میں جو محرم ملے مجھے
فریادِ جانِ جاں وہی محرم ملے تمہیں
دیتا ہوں تم کو خشکیِ مژ گاں کی میں دعا
مطلب یہ ہے کہ دامنِ پرنم ملے تمہیں
میں اُن میں آج تک کبھی پایا نہیں گیا
جاناں ! جو میرے شوق کے عالم ملے تمہیں
تم نے ہمارے دل میں بہت دن سفر کیا
شرمندہ ہیں کہ اُس میں بہت خم ملے تمہیں
یوں ہو کہ اور ہی کوئی حوا ملے مجھے
ہو یوں کہ اور ہی کوئی آدم ملے تمہیں
جون ایلیا

علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 119
دِل سوزاں پہ جیسے دست شبنم رکھ دیا دیکھو
علیؑ کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو
سنا ہے گرد راہِ بوترابؑ آنے کو ہے سر پر
سو میں نے خاک پر تاجِ مئے و جم رکھ دیا دیکھو
سخی داتا سے انعامِ قناعت میں نے مانگا تھا
مرے کشکول میں خوان دو عالم رکھ دیا دیکھو
ملا فرماں سخن کے ملک کی فرماں روائی کا
گدا کے ہاتھ پر آقا نے خاتم رکھ دیا دیکھو
طلسمِ شب مری آنکھوں کا دشمن تھا سو مولاؑ نے
لہو میں اِک چراغِ اِسم اعظم رکھ دیا دیکھو
کھلا آشفتہ جانوں پر علم مشکل کشائی کا
ہوائے ظلم نے پیروں میں پرچم رکھ دیا دیکھو
شہِ مرداںؑ کے در پر گوشہ گیری کا تصدق ہے
کہ میں نے توڑکر یہ حلقۂ رم رکھ دیا دیکھو
مجھے اس طرح نصرت کی نوید آئی کہ دم بھر میں
اُٹھاکر طاق پر سب دفترِ غم رکھ دیا دیکھو
عرفان صدیقی

کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیا ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 505
محرم دل، غیر محرم کیا ہوئے
کچھ تو کہیے آپ کے ہم کیا ہوئے
کیا ہوئے وہ بانسری کے نرم سُر
وہ کنارِ آب شیشم کیا ہوئے
کس گلی میں رک گیا سچ کا جلوس
سرپھروں کے اونچے پرچم کیا ہوئے
رک گیا دل ، تھم گئی نبضِ حیات
وقت کے سنگیت مدہم کیا ہوئے
گاؤں کے چھتنار پیڑوں کے تلے
وہ جوتھے سوچوں کے سنگم کیا ہوئے
خوبرو تھی جو محبت کیا ہوئی
وہ ہمارے دلرباغم کیا ہوئے
کیا ہوا آہنگ بہتی نظم کا
لفظ جو ہوتے تھے محکم کیا ہوئے
سنگ باری کی رتیں کیوں آگئیں
قربتوں کے سرخ ریشم کیا ہوئے
کیا ہوئی منصوررنگوں کی بہار
شوخ دوپٹوں کے موسم کیا ہوئے
منصور آفاق

اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 495
بانسری بانس کے جنگل سے سنوں غم کی یونہی
اچھی لگتی ہے ندی دیدہ ء پرنم کی یونہی
کوئی امکان بظاہر تو بچھڑنے کا نہیں
یاد آئی ہے مجھے ہجر کے موسم کی یونہی
دشت کی دھوپ کوئی چیز نہیں میرے غزال
گفتگو تجھ سے ہوئی سایہ ء شیشم کی یونہی
میں نے جانا نہیں برفاب تہوں میں اس کی
بات سنتا ہوں میں بہتے ہوئے جہلم کی یونہی
برف گرتی ہے تو آتی ہے نظر خوابوں میں
اک پری زاد مجھے وادی ء نیلم کی یونہی
صبر کرتا رہا قربان حسین ابن علی
ظلم کہتا رہا حرمت ہے محرم کی یونہی
مجھ کو معلوم نہیں کون کہاں روتا ہے
بات کی سبزہ پہ بکھری ہوئی شبنم کی یونہی
اک موبائل سے بنا لینے دو تصویر مجھے
پہنے رکھو ذرا پوشاک یہ ریشم کی یونہی
ذکر ہوتا رہے لیلائے وطن کا منصور
آگ جلتی رہے بس نوحۂ ماتم کی یونہی
منصور آفاق

پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 178
جاری ہے پھر حسین کا ماتم گزار خیر
پھر کربلا میں شامِ محرم گزار خیر
پھٹ ہی نہ جائے کوئی یہاں بم گزار خیر
اک چھت تلے ہے فیملی باہم گزار خیر
خودکش دھماکے ہونے لگے ہیں گلی گلی
برپا جگہ جگہ پہ ہے ماتم گزار خیر
پھرتی ہے موت ظلم کے گرد و غبار میں
آیا ہے خاک و خون کا موسم گزار خیر
میرے وطن میں آگ لگی ہے اک ایک کوس
وہ سرنگوں ہے دین کا پرچم گزار خیر
منصور پہ کرم ہو خصوصی خدائے پاک
لگتی نہیں گزرتی شبِ غم گزار خیر
منصور آفاق

آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 120
نیند کی ناراضگی کو کم کیا
آیت الکرسی پڑھی اور دم کیا
اس نے شانوں پر بکھیرے اپنے بال
اور شیتل شام کا موسم کیا
پہلے رنگوں کو اتارا اور پھر
اس نے ہیٹر کو ذرا مدہم کیا
ایک آمر کی ہلاکت پر کہو
سرنگوں کیوں ملک کا پرچم کیا
صبح آنسو پونچھ کے ہم سو گئے
روشنی کا رات بھر ماتم کیا
مان لی ہم نے کہانی رات کی
اس نے پلکوں کو ذرا سانم کیا
عاشقی کی داد چاہی شہر سے
ہیٹ اتارا اور سر کو خم کیا
دار پر کھینچا مرے منصور کو
اور سارے شہر کو برہم کیا
منصور آفاق

مسکرانے لگے حیات کے غم

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 16
دیکھ کر تیرے گیسوئے برہم
مسکرانے لگے حیات کے غم
اک تمہاری نظر بدلنے سے
ہو گئیں کتنی محفلیں برہم
آ گئے آپ درمیاں ورنہ
کھل چلی تھی حقیقت عالم
دیکھنا تو بہار کے انداز
غنچے غنچے کی آنکھ ہے پُرنم
آ رہی ہے وہ صبح نو باقیؔ
دیکھو لے کر حیات کا پرچم
باقی صدیقی