ٹیگ کے محفوظات: پرایا

اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے

تونے کیا کیا نہ اے زندگی!دشت و دَر میں پھرایا مجھے
اب تو اپنے در و بام بھی‘ جانتے ہیں پرایا مجھے
اور بھی کچھ بھڑکنے لگا‘ میرے سینے کا آتش کدہ
راس تجھ بِن نہ آیا کبھی‘ سبز پیڑوں کا سایہ مجھے
ان نئی کونپلوں سے مرا‘ کیا کوئی بھی تعلق نہ تھا
شاخ سے توڑ کر اے صبا !خاک میں کیوں ملایا مجھے
درد کا دیپ جلتا رہا‘ دل کا سونا پگھلتا رہا
ایک ڈوبے ہوئے چاند نے‘ رات بھرخوں رلایامجھے
اب مرے راستے میں کہیں ‘ خوفِ صحرا بھی حائل نہیں
خشک پتّے نے آوارگی کا قرینہ سکھایا مجھے
مدّتوں رُوئے گُل کی جھلک کو ترستا رہا میں ‘ شکیبؔ
اب جو آئی بہار‘ اس نے صحنِ چمن میں نہ پایا مجھے
شکیب جلالی

ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 137
بن کے ابرِ رواں کا سایا وُہ
ہم سے بچھڑا تو پھر نہ آیا وُہ
اُڑنے والا ہوا پہ خُوشبو سا
دیکھتے ہی لگا پرایا وُہ
جبر میں، لطف میں، تغافل میں
کیا ادا ہے نہ جس میں بھایا وُہ
جیسے پانی میں رنگ گھُل جائے
میرے خوابوں میں یُوں سمایا وُہ
مَیں کہ تھا اِک شجر تمّنا کا
برگ بن بن کے مجھ پہ چھایا وُہ
تیرتا ہے نظر میں شبنم سا
صبحدم نُور میں نہایا وُہ
آزمانے ہماری جاں ماجدؔ
کرب کیا کیا نہ ساتھ لایا وُہ
ماجد صدیقی

رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں

دیوان دوم غزل 903
جنوں نے تماشا بنایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے
کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں
یہی تا دم مرگ بیتاب تھے
نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں
شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا
انھیں نے کنارے لگایا ہمیں
ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج
یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں
لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی
سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں
جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ
جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں
ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تیں
قضا نے یہی دل دلایا ہمیں
رہا تو تو اکثر الم ناک میر
ترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں
میر تقی میر

کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 98
وہ اختلاف نظر درمیاں میں آیا رہا
کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
وہاں کی روشنیاں بھی مثالِ ظلمت تھیں
جہاں جہاں مری نادیدنی کا سایا رہا
یہی کہ نذرِ تب و تابِ زر ہوئیں آنکھیں
غبارِ بے بصری بستیوں پہ چھایا رہا
یہ معجزہ تھا سرِ چشم ایک آنسو کا
تمام منظرِ شب دھوپ میں نہایا رہا
بنامِ عشق اِسے قرض جاریہ کہئے
کہ نقدِ جاں بھی ادا کر کے جو بقایا رہا
آفتاب اقبال شمیم

سدھراں بھرم گنوایا

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 55
رات گئی دن آیا
سدھراں بھرم گنوایا
اکھیاں آپوں روگی
سیکن درد پرایا
گُھوک سُتے دے ویہڑے
چُوڑا کس چھنکایا
توں گُنگیاں دا حامی
بولے کون خدایا
کون نتارے آ کے
زہر دماں وچ دھایا
اسماناں وَل گُھورے
ماجدُ دھرتی جایا
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)