ٹیگ کے محفوظات: پرآب

کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو

دیوان ششم غزل 1864
ٹک نقاب الٹو مت عتاب کرو
کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو
آنکھیں غصے میں ہو گئی ہیں لال
سر کو چھاتی پہ رکھ کے خواب کرو
فرصت بود و باش یاں کم ہے
کام جو کچھ کرو شتاب کرو
محو صورت نہ آرسی میں رہو
اہل معنی سے ٹک حجاب کرو
جھوٹ اس کا نشاں نہ دو یارو
ہم خرابوں کو مت خراب کرو
منھ کھلے اس کے چاندنی چھٹکی
دوستو سیر ماہتاب کرو
میر جی راز عشق ہو گا فاش
چشم ہر لحظہ مت پرآب کرو
میر تقی میر

وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو

دیوان ششم غزل 1860
کیونکے نیچے ہاتھ کے رکھا دل بیتاب کو
وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو
کم نہیں ہے سحر سے یہ بھی تصرف عشق کا
پانی کر آنکھوں میں لایا دل کے خون ناب کو
تھا یہی سرمایۂ بحر بلا پچھلے دنوں
چشم کم سے دیکھو مت اس دیدئہ پرآب کو
تو کہے تھی برق خاطف ناگہاں آکر گری
اک نگہ سے مار رکھا ان نے شیخ و شاب کو
کیا سفیدی دیکھی اس کی آستیں کے چاک سے
جس کے آگے رو نہ تھا کچھ پرتو مہتاب کو
چاہتا ہے جب مسبب آپھی ہوتا ہے سبب
دخل اس عالم میں کیا ہے عالم اسباب کو
دم بخود رہتا ہوں اکثر سر رکھے زانو پہ میر
حال کہہ کر کیا کروں آزردہ اور احباب کو
میر تقی میر

وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے

دیوان پنجم غزل 1751
ہم پہ خشم و خطاب ہے سو ہے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
گرچہ گھبرا کے لب پہ آئی ولے
جان کو اضطراب ہے سو ہے
بس گئی جاں خراب مدت کی
حال اپنا خراب ہے سو ہے
خشکی لب کی ہے تری کیسی
چشم لیکن پرآب ہے سو ہے
خاک جل کر بدن ہوا ہے سب
دل جلا سا کباب ہے سو ہے
کر گئے کاروانیاں شب گیر
وہ گراں مجھ کو خواب ہے سو ہے
یاں تو رسوا ہیں کیسا پردئہ شرم
اس کو ہم سے حجاب ہے سو ہے
دشمن جاں تو ہے دلوں میں بہم
دوستی کا حساب ہے سو ہے
زلفیں اس کی ہوا کریں برہم
ہم کو بھی پیچ و تاب ہے سو ہے
خاک میں مل کے پست ہیں ہم تو
ان کی عالی جناب ہے سو ہے
شہر میں در بدر پھرے ہے عزیز
میر ذلت کا باب ہے سو ہے
میر تقی میر

خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1614
تڑپے ہے غم زدہ دل لاوے گا تاب کیونکر
خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر
پر ناتواں ہوں مجھ پر بھاری ہے جی ہی اپنا
مجھ سے اٹھیں گے اس کے ناز و عتاب کیونکر
اس بحر میں ہے مٹنا شکل حباب ہر دم
ابھرا رہے ہمیشہ نقش پرآب کیونکر
پانی کے دھوکے پیاسے کیا کیا عزیز مارے
سر پر نہ خاک ڈالے اپنے سراب کیونکر
آب رواں نہ تھا کچھ وہ لطف زندگانی
جاتی رہی جوانی اپنی شتاب کیونکر
سینے میں میرے کب سے اک سینک ہی رہے ہے
قلب و کبد نہ ہوویں دونوں کباب کیونکر
شلّاق خواری کی تھی خجلت جو کچھ نہ بولا
منھ کیا ہے نامہ بر کا نکلے جواب کیونکر
سوز دل و جگر سے جلتا ہے تن بدن سب
میں کیا کوئی ہو کھینچے ایسے عذاب کیونکر
چہرہ کتابی اس کا مجموعہ میر کا ہے
اک حرف اس دہن کا ہوتا کتاب کیونکر
میر تقی میر

گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر

دیوان پنجم غزل 1613
روزوں میں رہ سکیں گے ہم بے شراب کیونکر
گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر
تھوڑے سے پانی میں بھی چل نکلے ہے اپھرتا
بے تہ ہے سر نہ کھینچے اک دم حباب کیونکر
چشمے بحیرے اب تک ہیں یادگار اس کے
وہ سوکھ سب گئی ہے چشم پرآب کیونکر
دل کی طرف کا پہلو سب متصل جلے ہے
مخمل ہو فرش کیوں نہ آوے گی خواب کیونکر
اول سحور کھانا آخر صبوحی کرنا
آوے نہ اس عمل سے شرم و حجاب کیونکر
اجڑے نگر کو دل کے دیکھوں ہوں جب کہوں ہوں
اب پھر بسے گی ایسی بستی خراب کیونکر
جرم و ذنوب تو ہیں بے حد و حصر یارب
روزحساب لیں گے مجھ سے حساب کیونکر
پیش از سحر اٹھے ہے آج اس کے منھ کا پردہ
نکلے گا اس طرف سے اب آفتاب کیونکر
خط میر آوے جاوے جو نکلے راہ ادھر کی
نبھتا نہیں ہے قاصد لاوے جواب کیونکر
میر تقی میر

بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں

دیوان چہارم غزل 1454
بھلا ہوا کہ دل مضطرب میں تاب نہیں
بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں
جگر کا لوہو جو پانی ہو بہ نکلتا تھا
سو ہو چکا کہ مری چشم اب پرآب نہیں
دیار حسن میں دل کی نہیں خریداری
وفا متاع ہے اچھی پہ یاں کے باب نہیں
حساب پاک ہو روز شمار میں تو عجب
گناہ اتنے ہیں میرے کہ کچھ حساب نہیں
گذر ہے عشق کی بے طاقتی سے مشکل آہ
دنوں کو چین نہیں ہے شبوں کو خواب نہیں
جہاں کے باغ کا یہ عیش ہے کہ گل کے رنگ
ہمارے جام میں لوہو ہے سب شراب نہیں
تلاش میر کی اب میکدوں میں کاش کریں
کہ مسجدوں میں تو وہ خانماں خراب نہیں
میر تقی میر

کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر

دیوان چہارم غزل 1390
یہ لطف اور پوچھا مجھ سے خطاب کر کر
کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر
چھاتی جلی ہے کیسی اڑتی جو یہ سنی ہے
واں مرغ نامہ بر کا کھایا کباب کر کر
خوں ریزی سے کچھ آگے تشہیر کر لیا تھا
اس دل زدے کو ان نے مارا خراب کر کر
گنتی میں تو نہ تھا میں پر کل خجل ہوا وہ
کچھ دوستی کا میری دل میں حساب کر کر
روپوش ہی رہا وہ مرنے تک اپنے لیکن
منھ پر نہ رکھا اس کے کچھ میں حجاب کر کر
مستی و بے خودی میں آسودگی بہت تھی
پایا نہ چین میں نے ترک شراب کر کر
کیا جانیے کہ دل پر گذرے ہے میر کیا کیا
کرتا ہے بات کوئی آنکھیں پرآب کر کر
میر تقی میر

پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا

دیوان دوم غزل 760
منھ پر اس آفتاب کے ہے یہ نقاب کیا
پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا
اے ابرتر یہ گریہ ہمارا ہے دیدنی
برسے ہے آج صبح سے چشم پرآب کیا
دم گنتے گنتے اپنی کوئی جان کیوں نہ دو
وہ پاس آن بیٹھے کسو کے حساب کیا
سو بار اس کے کوچے تلک جاتے ہیں چلے
دل ہے اگر بجا تو یہ ہے اضطراب کیا
بس اب نہ منھ کھلائو ہمارا ڈھکے رہو
محشر کو ہم سوال کریں تو جواب کیا
دوزخ سو عاشقوں کو تو دوزخ نہیں رہا
اب واں گئے پہ ٹھہرے ہے دیکھیں عذاب کیا
ہم جل کے ایک راکھ کی ڈھیری بھی ہو گئے
ہے اب تکلف آگے جلے گا کباب کیا
ہستی ہے اپنے طور پہ جوں بحر جوش میں
گرداب کیسا موج کہاں ہے حباب کیا
دیکھا پلک اٹھاکے تو پایا نہ کچھ اثر
اے عمر برق جلوہ گئی تو شتاب کیا
ہر چند میر بستی کے لوگوں سے ہے نفور
پر ہائے آدمی ہے وہ خانہ خراب کیا
میر تقی میر

بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا

دیوان دوم غزل 715
تمام روز جو کل میں پیے شراب پھرا
بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا
اثر بن آہ کے وہ منھ ادھر نہ ہوتا تھا
ہوا پھری ہے مگر کچھ کہ آفتاب پھرا
نہ لکھے خط کی نمط ہو گئیں سفید آنکھیں
تجھے بھی عشق ہے قاصد بھلا شتاب پھرا
وہ رشک گنج ہی نایاب تھا بہت ورنہ
خرابہ کون سا جس میں نہ میں خراب پھرا
کسو سے حرف محبت کا فائدہ نہ ہوا
بغل میں میں تو لیے یاں بہت کتاب پھرا
لکھا تو دیکھ کہ قاصد پھرا جو مدت میں
جواب خط کا مرے صاف بے جواب پھرا
کہیں ٹھہرنے کی جا یاں نہ دیکھی میں نے میر
چمن میں عالم امکاں کے جیسے آب پھرا
میر تقی میر

یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا

دیوان اول غزل 104
واں وہ تو گھر سے اپنے پی کر شراب نکلا
یاں شرم سے عرق میں ڈوب آفتاب نکلا
آیا جو واقعے میں درپیش عالم مرگ
یہ جاگنا ہمارا دیکھا تو خواب نکلا
دیکھا جو اوس پڑتے گلشن میں ہم تو آخر
گل کا وہ روے خنداں چشم پرآب نکلا
پردے ہی میں چلا جا خورشید تو ہے بہتر
اک حشر ہے جو گھر سے وہ بے حجاب نکلا
کچھ دیر ہی لگی نہ دل کو تو تیر لگتے
اس صید ناتواں کا کیا جی شتاب نکلا
ہر حرف غم نے میرے مجلس کے تیں رلایا
گویا غبار دل کا پڑھتا کتاب نکلا
روے عرق فشاں کو بس پونچھ گرم مت ہو
اس گل میں کیا رہے گا جس کا گلاب نکلا
مطلق نہ اعتنا کی احوال پر ہمارے
نامے کا نامے ہی میں سب پیچ و تاب نکلا
شان تغافل اپنے نوخط کی کیا لکھیں ہم
قاصد موا تب اس کے منھ سے جواب نکلا
کس کی نگہ کی گردش تھی میر رو بہ مسجد
محراب میں سے زاہد مست و خراب نکلا
میر تقی میر