دل کے نگار خانہ سے باہر رکھا ہوا
اچّھا نہیں ہے خواب کا منظر رکھا ہوا
بے رنگ ہو کے گر پڑا فوراً چراغِ حُسن
تھا میں نے عشق ہاتھ کے اوپر رکھا ہوا
خطرہ ہے جم نہ جائے کہیں ضبط کا غبار
ہے دل کو ہم نے اس لیے اندر رکھا ہوا
کب ہو گئے فگار مرے ہاتھ کیا خبر
پہلو میں اُس نے تھا کہیں خنجر رکھا ہوا
اِس احتیاط سے تمہیں چاہا کہ اے فلکؔ!
اب تک زباں پہ چپ کا ہے پتھّر رکھا ہوا
افتخار فلک